فریضہ! فروغ تعلیم کے لئے عملی قدم


ملک کے موقر انگریزی روزنامے میں ابھی ایک تحریر پڑھ ہی رہا تھا کہ تعلیم کی مخدوش صورت حال کے اعداد وشمار کیا ہیں کہ سحرش کا فون موصول ہوا۔ جوش سے بھری آواز میں تیز تیز بولتی ہیں۔
’ شوذب ! ہمارے پاس پندرہ بچے ہو گئے ہیں۔ اب ہم ان کی تعلیم اور تربیت کےلئے اگلے دس سال تک کام کرسکتے ہیں‘۔

بات تو عجیب لگتی ہے کہ جس ملک میں 22.6 ملین بچے سکول پڑھنے کی عمر میں تعلیم کی سہولت سے محروم ہوں۔ (میں یہاں سہولت کو ضرورت لکھنا چاہتا ہوں) وہاں پندرہ بچوں کو سکول میں داخل کروانے پہ یا ان کی تعلیم کا انتظام کر لینے پہ ایسا کیا فرق پڑ جائے گا کہ سماج میں موجود یہ مسئلہ حل ہوجائے لیکن بات اس سوچ اور عملی اقدام کو سراہنے کی ہے جو سحرش اور دیگر دوستوں نے اپنی حیثیت میں اٹھایا ہے۔
گزشتہ سال کے وسط میں سحرش سے واقفیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی والدہ جو کہ اب پاک فوج کی میڈیکل کور سے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پہ فراغت کی زندگی گزار رہی ہیں، اپنے گھر پہ ہی شام کے اوقات میں محلے میں گھروں کا کام کاج کرنے والی خواتین کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا کام کرتی ہیں۔ جا کر دیکھا تو یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ ان بچوں کو نہ صرف ہوم ورک کروانے میں یہ بزرگ خاتون مددگار ہوتی ہیں بلکہ ان کی سکول فیس اور دیگر اخراجات بھی خود برداشت کرتی ہیں۔ ان کے جذبے کو سلام اور تحسین ادا کی اور یہ سلسلہ یونہی اسی قدر کوشش کے ساتھ چلتا رہا تاوقتیکہ گزشتہ ماہ اس سلسلے کو باقاعدہ ایک مہم کی شکل دی گئی۔

سحرش نے بچوں کی ہوم ورک کرتے اور پڑھتے ہوئے تصاویر بنائیں۔انہیں اپنے پرسنل اکاؤنٹس جیسا کہ فیس بک اور انسٹا گرام پہ شیئر کیا اور اپنے دوستوں سے یہ کہا کہ راولپنڈی میں کوٹھا کلاں کے علاقے میں یہ بچے ہمارے گھر پڑھنے آتے ہیں۔ میری والدہ ان کی تعلیم کا اہتمام کرتی ہیں مگر گھریلو پریشانیوں اور مالی کمزوری کے سبب یہ بچے تعلیم حاصل کرنے میں اتنے سرگرم نہیں جتنا عام طور پر متوسط طبقے کے بچوں کو ہونا چاہئے۔ لہٰذا اس کے لئے آگے بڑھ کر کوئی حل تجویز کیا جائے۔

پہلے پہل جاننے پہ یہ معلوم ہوا کہ ایک ہی فیملی کے آٹھ بچے ہیں۔ پانچ بہو کے اور تین ساس کے۔ یہ بچے اپنی ماں اور دادی کے درمیان ہونے والی خاندانی لڑائی کے سبب پڑھائی میں اچھے نہیں۔ بیمار ہوجائیں تو دوا کا انتظام نہیں ہوتا۔ سردیاں تھیں مگر پہننے کے لئے گرم کپڑے نہیں تھے۔ کوئی مثبت تفریحی سرگرمیاں نہیں تھیں۔ ظاہر یہی تھا کہ صرف سکول داخل کروا کے فیس کتابوں کا بندوبست کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔سو یہ طے ہوا کہ ان بچوں کو موسم کی مناسبت سے کپڑے دلوائیں جائیں۔ انہیں بیمار ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔ چھٹی کے روز انہیں پارک میں کھیلنے کے لئے لے کر جایا جائے۔ یوں ایک مکمل شیڈول کے ساتھ یہ فریضہ اٹھایا جائے تو بہتر نتیجہ حاصل ہوسکتا ہے۔

تو اب یہ صورت ہے کہ کل گیارہ دوست شامل ہیں ہر ایک کے حصے میں ایک مہینے بمشکل ایک ہزار روپے خرچ آتا ہے اور یہ بچے جو اب تعداد میں پندرہ ہیں اتنی ہی سہولت سے تعلیم حاصل کررہے ہیں جتنی تعلیم کےلئے مناسب ماحول مہیا ہونے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

یہ ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہیں۔ سکول کے بعد ایک استانی انہیں ٹیوشن پڑھاتی ہے۔ سحرش کی والدہ وہاں ان کے ساتھ ہوتی ہے تاکہ ان کے ساتھ کوئی جسمانی سختی نہ کی جائے۔ سحرش انہیں پارک لے کر جاتی ہیں۔ دوست احباب جو رضاکار ہیں وہ ان بچوں کو نصاب کے علاوہ دیگر اہم موضوعات پہ آگہی فراہم کرتے ہیں۔ خاص طور پر جنسی تشدد اور ہراسیت کے حوالے سے ان بچوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ امر سب جاننے والوں پہ آشکار ہے کہ ہمارے بعض گھروں میں اپنے ہی خاندان کے افراد سے ہماری بچیاں اور بچے محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری گلیاں محلے اور کھیل کے میدان نوعمر لڑکوں کے لئے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔

میں نے محسوس کیا ہے کہ ان دوستوں کی معاونت کے سبب ایک خاص طرح کا اعتماد ان بچوں میں جھلکنے لگا ہے جو مجھ میں اور میرے اردگرد گیارہ بچوں میں ہمارے بچپنے میں نہیں تھا۔ سرونٹ فیملی کے بچوں میں ایک خاص طرح کا احساس کم مائیگی ہوتا ہے جسے بیان کرنا ازحد مشکل ہے۔

تو پڑھنے والوں سے کہنے کی بات یہ ہے کہ صاحبان 22 ملین بچوں کو تعلیم ریاست کا ہی فریضہ ہے اور وہی یہ ذمہ داری نبھا سکتی ہے لیکن کیا ہم اپنے اطراف میں ان ملازمین کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کرسکتے جو ہمہ وقت ہماری سہولیات کی خاطر اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔
جو بھی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو وہ راولپنڈی کے ان دوستوں سے رابطہ کریں جو ’فریضہ‘’ کے نام سے یہ کام کررہے ہیں اور اپنے اردگرد کے ماحول میں یہ کاوش جاری کریں۔ بہت سکون آور سرگرمی ہے۔ رابطے کے لئے فیس بک کا پیج حاضر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).