دردسب کو ایک جیسی تکلیف دیتا ہے


انسان کیا ہوتا ہے؟ گوشت پوست سے بنا مجسمہ؟ جس کے مختلف رنگ ہوا کرتے ہیں؟ کوئی کالا، کوئی گورا، کوئی گندمی تو کوئی سرخی مائل، یا کوئی درد، احساس اور عقل و شعور کا عنصر بھی انسان کے اندر پایا جاتا ہے، ہر چیز کی کلاسی فکیشن کردی ہم نے، رنگ کی ،زبان کی، نسل کی، طبقے کی، یہاں تک کہ جذبات کو بھی نہ بخشا۔
یہ کلاس کیا ہوتی ہے؟ درجہ بندی کے اس عمل کو جسے (کلاس) کہا جاتا ہے ہم نے انسان کے وجود پر لاگو کر کے انسانیت کی شکل کو مسخ کردیا، تم کون ہو؟ کیا ہو؟ کیا تعلیم ہے؟ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو، رہتے کہاں ہو؟ ان باتوں میں تو کوئی برا ئی نہیں، کلام سے ہی زبان کا حسن نکھرتا ہے، مگر ہر بات پوچھنے کی نہیں ہوتی اور ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی، کیا آپ کسی بھوکے بچے سے یہ پوچھ سکتے ہیں؟ سنو تم بھوکے کیوں ہو؟ کسی لاوارث سے پوچھ سکتے ہیں کہ تم لاوارث کیوں ہو ؟ یہ تمہارے کپڑے کیوں پھٹے ہیں؟ یہ تمہاری ماں میرے گھر کے برتن کیوں مانجھتی ہے؟
کسی غریب کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ وہ غریب کیوں ہے، اس کے ماں باپ جاہل کیوں ہیں اور وہ ان کے ہاں کیوں پیدا ہوا؟ البتہ زمانے کی ٹھوکریں اور ہمارا اور آپ کا رویہ اسے یہ سب بتا دیتا ہے کہ تم غریب ہو اور اس لیے غریب ہو کہ تمہارے ماں باپ بھی غریب تھے، جاہل تھے۔
خود پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں درد و فکر کی دنیا سے آزاد کرچکا ہے، ہمیں صرف اپنی خوشی، اپنا درد اور اپنا گھر نظر آتا ہے، اپنے مسائل نظر آتے ہیں، ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے کسی دوسرے کے وجود کو، درد کو ،تکلیف کو اور چاہتے اس لئے نہیں کیوں کہ ہم بے حس ہوچکے ہیں ، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور پڑے گا بھی کیوں؟ ہمارا کیا مفاد کسی کے درد کو الفاظ دینے میں، بے نور چہروں کو مسکان دینے میں۔
احساس جذبات سے جنم لیتے ہیں اور جذبات انسان کی شخصیت کا اہم جز ہوتے ہیں، جذبات پیدا نہیں کئے جاتے یہ انسان میں خدا کی طرف سے تحفے کی شکل میں انسان کی فطرت میں پوشیدہ کردیئے جاتے ہیں، پوشیدہ چیز وہ ہوا کرتی ہے جس کی تلاش کی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی اسے دریافت کیا جا سکتا ہے، شخصیت جسے کہا جاتا ہے دراصل انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہوتی ہے اور اس فطرت کا گہرا تعلق اس کے خون اور خاندان کے پس منظر سے ہوتا ہے۔
کسی بھی فرد کی شخصیت کے پہلووں پر کوئی رائے قائم کرنے کیلئے آپ کو اس کے ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ خاندانی پس منظر پر بھی بہت تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر آپ کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کر ہی نہیں سکتے۔
اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوا کرتے ہیں، مزاج اور خیالات میں بھی تضاد ہوسکتا ہے، لیکن درد محسوس کرنے کے لئے بھی کوئی معیار ہوتا ہے؟ یا ہونا چاہیے؟کیا جذبات کا قتل کیا جاسکتا ہے، کسی انسان کو بے حس بنایا جاسکتا ہے؟ بالکل بنایا جاسکتا ہے اور یہ سب ہمارے مزاج،ہمارے انداز اور ہمارے الفاظ کے ذمے ہوتا ہے جس سے یا تو کسی کو درد دے دیا یا کسی کا درد لے لیا۔
کسی کو عزت دینے کا کیا پیمانہ ہونا چاہئے؟ صرف یہ کہ وہ اچھے کپڑے پہنتا ہو؟ اچھے مکان اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہو؟ پیسہ ہو گاڑی ہو۔ درد تو ان کو بھی ہوا کرتا ہے جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا ،گاڑی نہیں ہوتی، پڑھے لکھے ماں باپ نہیں ہوتے، پیر ننگے اور ہاتھ سوالی ہوتے ہیں، چہرہ گرد مٹی سے اٹا ہوتا ہے۔
ہمیں کیوں احساس نہیں ہوتا ؟ درد نہیں ہوتا؟ ہم پر بے حسی کیوں طاری ہوگئی؟ کیوں زبان زہر اگلنے لگی اور پیار صرف دھتکار بن گیا؟ شاید ہماری تربیت میں ہی کمی تھی، ہمیں درد کو دوا اور غریب کو عزت دینا سکھایا ہی نہیں گیا، جب ماں باپ نے درد و احساس کا درس نہیں دیا، پہلے ہی ذہن کو امیر غریب کے فرق سے آلودہ کردیا، جذبات کی دنیا سے نکال کر مفاد اور مادہ پرستی کی طرف گامزن کردیا تو ہم کیا انسان بنتے، پس ہم ایک دوسرے کو کاٹ کر کھانہیں رہے، خون نہیں پی رہے باقی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اگر خدا نے نوازا ہے تو ان لوگوں کا بھی درد کیجئے جو دو وقت کی روٹی کے لئے دن بھر مزدوری کرتے ہیں اور پھر بھی رات کو کھانا کھائے بغیر سوجاتے ہیں۔ صرف اس لئے کیونکہ مالک کا موڈ اچھا نہ تھا اور اس نے دیہاڑی نہیں دی، جو نوکر گھروں میں کام کرتے ہیں ان کو خود کھانا کھانے سے پہلے کھانا کھلائیے اور وہی دیں جو خود کھائیں ،نیکی کا ڈھنڈورا نہ پیٹیں اگر کسی کی مدد کر بھی دی آپ نے۔ لوگوں کی عزت نفس کا احترام کریں، کسی کی ضرورت کو اس کی مجبوری نہ بننے دیں ،انسانیت کی شکل مسخ نہ کریں، درد تو دل سے محسوس کیا جاتا ہے، کیا کسی کے درد کو محسوس کرنے کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے، کیا امیر کا درد ،درد ہے اور غریب کا نہیں؟ درد تو سب کو تکلیف دیتا ہے اور ایک جیسی دیتا ہے،کبھی دل سے سوچئے اور ہاتھ تھام لیں اس غریب کا جس کا گناہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ وہ غریب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).