انتہا پسندی کی منطق‎


ہم جیسے طالب علموں کی خوش نصیبی ہے کہ علمی رہنمائی کے لئے جناب جمشید اقبال، حضرت عاصم بخشی اور جناب عزیزی اچکزئ جیسے صاحبان علم موجود ہیں۔ جناب جمشید اقبال صاحب نے انتہا پسندی کے تانے بانے مذہبی مدارس میں پڑھائی جانے والی ارسطاطالیسی منطق کے اصول خارج الاوسط سے جوڑنے کی علمی کاوش فرمائی ہے۔ ان کے دونوں مضامین کے طالب علمانہ مطالعے میں کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ موجودہ انتہا پسندی کی کلی ذمہ داری اس منطق پر ڈال رہے ہیں۔ اگر میری یہ طالب علمانہ تفہیم درست ہے تو ان کے مضمون کے جواب میں ارسطو کی منطق کے دفاع اور منطق جدید پر تنقید یقیناً محل نظر ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ اعتراف ضروری ہے کہ زیر نظر موضوع پر میری حیثیت ایک مبتدی طالب علم سے بھی کم تر ہے۔ انتہا پسندی کے موضوع پر اپنی دلچسپی کے ہاتھوں مجبور ہو کر چند گزارشات کی جسارت کر رہا ہوں۔

“ہم سب ” پر شائع ہونے والی ایک تحریر میں یہ گزارش کر چکا ہوں کہ مسلم دنیا عموماً اور مذہبی حلقے خصوصاً پیش قدمی کے خوف میں مبتلا ہیں۔ آج تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ آگے جانے کا منہاج کیا ہوگا۔آج کی تاریخ تک مذہبی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب میں صرف ارسطاطالیسی منطق کا شامل ہونا اور اس سے کئے جانے والے استنباط اس خوف کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ جناب اچکزئ صاحب نے یونانی فلاسفہ کے علاوہ جو نام گنوائے ہیں وہ یقیناً ان کے ذاتی مطالعے کا نتیجہ ہیں نہ کہ ان کی مذہبی تعلیم کا۔

ذرا اب اضداد اور متناقضین کے معاملے کو دیکھئے۔ میں یہ گزارش کر چکا ہوں کہ مذہبی ذہن کا بنیادی وظیفہ خود راستی self-righteousness  جیسے وصف پر استوار ہوتا ہے۔ لندن کی ایک محفل میں خود راستی کو مذہبی عقائد کی اساس قرار دے کر اس پر تنقید کو عقائد کی عمارت مضمحل کرنے کی سازش کہا گیا تو ایسے میں یہ مفلوک العقیدہ طالب علم سکوت کے علاوہ کیا کرتا۔ یہ خود راستی کا ذہنی وصف ہے جو “مختلف” اور “متناقض” کا فرق نہیں دیکھنے دیتا۔ مذہبی ذہن ہر مختلف مظہر اور نظریئے کو متناقض دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ منطق کے علماء اس مغالطے سے واقف اور آگاہ ہیں جس میں غیر متعلق امور کو متناقض سمجھ لیا جاتا ہے۔ اور اچکزئ صاحب نے ابوالکلام آزاد کے حوالے سے انتہائی عمدہ اور زندہ مثال بھی اس ضمن میں دی ہے اور اس پر ہونے والی تنقید میری گزارش کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس لیے اس طالب علم کے لئے معاملہ گرے ایریا کو نہ دیکھ سکنے کا نہیں ہے بلکہ اپنی خود راستی پر اصرار کا ہے۔

نفسیات کا یہ مبتدی طالب علم آپ کی توجہ ایک اور اہم سوال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کرنے اجازت چاہتا ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ مذہبی ذہن اختلاف کو صرف متناقض کی صورت میں دیکھتا ہے اور مشترکہ اقدار اور مماثلت کو نہیں دیکھ پاتا۔ علم نفسیات میں IQ یا ذہانت کی پیمائش کے کئی ٹیسٹ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک ٹیسٹ similarities کی پیمائش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہوائی جہاز اور ایک بس کس طرح ایک دوسرے کے متماثل ہیں۔ کم ذہانت کے حامل افراد جواب میں صرف ان دونوں میں موجود فرق کو بیان کریں گے کہ ایک زمین پر چلتی ہے اور دوسرا فضا میں پرواز کرتا ہے۔ جبکہ بہتر ذہنی صلاحیت رکھنے والے افراد بتایں گے کہ یہ دونوں ذرائع آمدورفت ہیں۔ غور فرمائیے کیا ہمارے سامنے یہی معاملہ نہیں ہے

اچکزئی صاحب کا یہ فرمانا بالکل درست ہے کہ اگر انتہا پسندی کا تعلق ارسطاطالیسی منطق سے ہے تو جن مذہبی اکابرین اور گروہوں نے اس منطق کو رد کیا ان میں انتہا پسندی نسبتاً کم ہونا چاہیے تھی جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ لیکن اگر ہم انتہا پسند گروہوں کی خود راستی کی پیمائش کرسکیں تو یہ آپ کو ہر متشدد اور انتہا پسند گروہ میں یکساں طور زیادہ نظر آئے گی۔

گزشتہ ہفتے عراق کے شہر اربیل سے وہ اعصاب شکن کہانیاں سن کر لوٹا ہوں جن کی خالق خود راستی کی دولت سے مالا مال داعش نامی تنظیم ہے۔ اربیل عراق کے ایک دوسرے شہر موصل سے صرف 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں سے آنے والے متاثرین کا سب سے بڑا مسکن ہے۔ موصل میں مردوں کے قتل عام اور خواتین کی بے حرمتی کرنے والوں کو بالیقین ارسطاطالیسی منطق کے اصول خارج الاوسط کا علم نہیں ہے۔ انہیں اگر علم ہے تو فقط اس بات کا کہ جو ان سے مختلف ہے وہ واجب القتل اور استحصال کے لائق ہے۔

اب معاملے کو درسی مباحث سے نکال کر حقائق کی دنیا میں دیکھیے۔ خدا لگتی کہئے مذہب کے بیوپار میں خوف اور لاینحل اختلاف کے علاوہ کوئی اور بھی جنس بکتی ہے؟ خوف اور اختلاف دونوں کے دائرے مزاج اور ضرورت کے لحاظ سے بڑھتے اور گھٹتے رہتے ہیں۔ انتہا پسندی کا تعلق بیک وقت دونوں سے ہے۔ انتہا پسند کی انتہا پسندی کے پیچھے چھپا غیر صالح ہونے کا خوف اور اپنے سے مختلف کو نیست و نابود کرنے کے خواہش کے پیچھے لاینحل اختلاف کی موجودگی کس سے پوشیدہ ہے۔اختلاف کو مٹانے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اپنے سے مختلف کو مٹی میں ملا دیا جائے۔ اختلاف اور مختلف سے نمٹنے یا برداشت کرنے کا کوئی اور طریقہ اس وقت مذہبی گروہوں کے پاس موجود نہیں ہے۔ تاریخی طور پر یہ دونوں مظاہر خوارج کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان دونوں کا اظہار استعمال ہونے والی زبان اور اختیار کئے جانے والے لائحہ عمل میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ہم دوسروں The Others کے لیے جس پیرائے اور زبان میں اظہار خیال کرتے ہیں اور ان سے جس انداز میں معاملہ کرتے ہیں وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم اختلاف اور اپنے سے مختلف افراد کی بابت کیا سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن معاملہ صرف اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس سوچ کے لئے خود کو صالحیت کے منصب پر سرفراز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک جیسے ہم قماش افراد کا مناقشہ ہوتا ہے لیکن ان میں ہر ایک خود کو افضل اور دوسرے کو مفضول سمجھتا ہے۔ دوسرے کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنے کو روا سمجھتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی گروہ ایک دوسرے کے لئے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اسی خارجی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

ہم جس منتشر معاشرے میں رہتے ہیں اور انتشار اور اختلاف کی جس صورت کا ہمیں سامنا ہے دنیا کے متعدد معاشروں نے ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ ایسی ہر صورتحال میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ کیا ہمیں بھی ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو فلسفہ اور منطق کے علماء کیا کف اڑاتی، مٹھیاں بھینچتی، دانت کچکچاتی اور کافر کافر کے نعرے لگاتی لہولہان قوم کو ایک نئے عمرانی معاہدے وضع کرنے کے ضمن رہنمائی فرمائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).