محمود خان اچکزئی اور فاٹا


فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ملک میں ایک بحث جاری ہے۔ بحث میں پشتون سیاسی اسٹیک ہولڈرز زیادہ نمایاں ہیں ۔ ان اسٹیک ہولڈرز میںپشتونخوا ملی عوامی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن فاٹا خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف ہیں جبکہ باقی اسٹیک ہولڈرز بشمول اے این پی، فاٹا کے کچھ ارکان اسمبلی و سینیٹ فاٹا کے انضمام کے حق میں ہیں۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کی بات ہے تو سیاسی پنڈت مولانا کی مخالفت کئی حوالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مولانا کی جماعت کی فاٹا میں بھرپور حمایت موجود ہے۔ مولانا کی جماعت میں یہ اہلیت بھی موجود رہی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکیں اور وہ ماضی میں حکومت بنا بھی چکے ہیں۔ اس لئے ان کو ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم حسب سابق مولانا فضل الرحمن کا موقف ابہامات سے خالی نہیں ہے۔ فاٹا کے اراکین اسمبلی کے مطابق مولانا فضل الرحمان ڈبل گیم کھیل رہے ہیں وہ ایک طرف اصلاحات مخالفت کررہے اور دوسری طرف حمایت بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے ووٹ بینک کے علاوہ مولانا فضل الرحمن یا ان کی جماعت کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا کہ وہ فاٹا کے انضمام کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب محمود خان اچکزئی صاحب کی جماعت کا فاٹا میں کوئی متاثرکن وجود نہیں ہے۔خیبر پختونخوا کے سیاسی عمائدین اورفاٹا کے چند سیاسی عمائدین ان کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہیں۔ مگر ان فاٹا کے انضمام پر شدید تحفظات ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے برعکس جناب محمود خان اچکزئی فاٹا کے حوالے اپنا ایک پورا مقدمہ( کسی حد تک تاریخی تناظر میں بھرپور مقدمہ) رکھتے ہیں جس کا انہوں نے بار بار اظہار کیا۔راقم کو گزشتہ دنوں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ گفتگو کا موضوع فاٹا میں اصلاحات ہی تھا۔ اچکزئی صاحب نے اپنا مقدمہ بہت واضح الفاظ میں سمجھایا۔ انہوں اس حوالے سے تاریخی حوالے دئیے۔ لارڈ ویول کا ذکر کیا۔ آزادی ایکٹ کا ذکر کیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکلز کا ذکر کیا۔بہت تحفظات کے باوجود راقم یہ ہمت نہیں کر سکا کہ ان کے موقف پر کوئی تنقیدی نوٹ لکھیں کیونکہ ملاقات کی نوعیت نجی تھی اور گفتگو آف دی ریکارڈ تھی۔

حال میں محمود خان اچکزئی صاحب نے بی بی سی پشتو سروس کے داﺅ اعظمی کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے فاٹا کے حوالے سے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا جو راقم سے پہلے کر چکے تھے۔ اس لئے خیال پیدا ہوا کہ جن نکات پر کلام نہیں ہو سکا اس پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

محمود خان اچکزئی صاحب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جو کچھ فرمایااس کے چیدہ نکات یوں تھے۔ ’یہ بات قابل افسوس ہے کہ بہت بڑے بڑے لوگ، بزرگ لوگ قبائلی علاقے کے مفہوم کو لوگ سمجھتے ہی نہیں۔ 1935ایکٹ میں لکھا ہے” The tribes on our frontier and the Baloch tribes, are neither part of British India, nor Barma, nor an Indian State, nor a sovereign state“۔ یعنی 1935 کے مطابق یہ آزاد لوگ ہیں‘۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ’ تاج برطانیہ کا کہنا تھا کہ Independence act 1947 کے بعد تاج برطانیہ اور قبائلیوں میں جتنے بھی معاہدے تھے وہ اب ختم ہو چکے ہیں‘۔ اچکزئی صاحب نے فرمایا کہ، ’1947 میں آزادی سے پیشتر لارڈ ویول نے لنڈی کوتل میں ایک جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا” On behalf of his majesty’s government I assure you, that the partition has nothing to do with your independence. You will negotiate terms with the dominion “۔ اچکزئی صاحب نے مزید فرمایا کہ’ پھر محمد علی جناح صاحب 1948 قبائلیوں سے کہا آپ لوگوں نے جو معاہدات تاج برطانیہ سے کئے تھے، ہم ان کے اس وقت تک پابند ہوں گے جب تک آپ کے ساتھ نئے معاہدے نہیںہوتے‘۔ انہوں نے فرمایا کہ ، ’ موجودہ وقت میں تمام پاکستان کے لئے آئین پاکستان کے 280 آرٹیکلز لاگو ہیں جبکہ فاٹا پر صرف چار آرٹیکلز لاگو ہوتے ہیں۔ اب آپ چار کی بجائے فاٹا کے گلے میںزبردستی 280 آرٹیکلز ڈال رہے ہیں جبکہ ان سے پوچھ بھی نہیں رہے‘۔ اس کے بعد اچکزئی صاحب نے فرمایا، ’ کہ فاٹا کے عوام جو چاہتے ہیں وہی ہونا چاہیے‘۔

یہ بات عیاں ہے کہ سیاسی معاملات میں کوئی رائے حتمی نہیں ہوتی۔سیاسی مکالمے میں ہر طالب علم اور سیاسی جماعت کو ایک رائے اپنانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ دعوی بجائے خود ایک بہت بڑی جرات ہے کہ قبائلی علاقوں کے مفہوم کو بہت لوگ نہیں سمجھتے۔ جیسے ہمارے قابل احترام اچکزئی صاحب کا خیال ہے کہ وہ یا ان کی جماعت قبائلی علاقوں کو سمجھتی ہے ویسے ہی باقی اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی طالب علم بھی قبائلی علاقوں کی شد بد رکھتے ہیں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں جب تاریخی حوالے زیر بحث آتے ہیں تو بلاشبہ وہ موقف کو مضبوط تقویت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم تاریخی حوالوں کا اپنا ایک پس منظر ہوتا ہے جس کو مدنظر رکھے بنا بات کی تفہیم مشکل ہوتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمود خان اچکزئی صاحب نے 1935ایکٹ کا جو حوالہ دیا ہے وہ الفاظ کے فرق کے ساتھ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اچکزئی صاحب نے فرمایا۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کا 1935 کا ایکٹ جو انہوںنے اپنی ایک کالونی کے لئے بنایا تھا کہ کیا اب بھی متعلق ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا Independence act 1947 نے 1935ایکٹ کو کالعدم نہیں کر دیا؟ بربنائے بحث اگر ہم یہ دلیل مان لیں کہ اچکزئی صاحب 1935کے تاریخی حوالے سے صرف یہ بتا رہے ہیں کہ تاج برطانیہ جن کی یہاں حکومت تھی، انہوں نے قبائلی علاقوں کو کس حیثیت سے دیکھا؟ ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ تاج برطانیہ نے1935ایکٹ میں قبائلی علاقے کو آزاد علاقہ لکھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فاٹا آزاد علاقہ تھا تو پھر 1867 کے Murderous Outrages Regulation ایکٹ سے لے کر 1901تک کے Frontier Crimes Regulation کا نفاذ ایک آزاد علاقے میں کس بنیاد پر کیا گیا؟ تاج برطانیہ ایک طرف تو فاٹا کو آزاد علاقہ لکھ رہا ہے اور دوسری جانب 80 اسی سال تک MOR اور FCR جیسے کالے قوانین کو ایک آزاد اور خودمختار علاقے میں نافذ کرتی ہے۔ کیا MOR اور FCR کے مجرمانہ قوانین کے باوجود فاٹا کو آزاد علاقہ کہا جا سکتا ہے؟

ٓٓآیئے دوسری جانب دیکھتے ہیں۔ اچکزئی صاحب کے بقول تاج برطانیہ کا کہنا تھا کہ Independence act 1947 کے بعد تاج برطانیہ اور قبائلیوں میں جتنے بھی معاہدے تھے وہ اب ختم ہو چکے ہیں۔ جب تمام معاہدے ختم ہو چکے تو 1935 کا حوالہ کیونکر اہم رہتا ہے؟خود Independence act 1947 کا جائزہ لیجیے۔ اس کے آرٹیکل 2 سیکشن (c) میں کیا یہ تجویز نہیں کیا گیا تھا کہ صوبہ سرحد کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا تعلق ریفرنڈم سے مشروط ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیاصوبہ سرحد( موجودہ خیبر پختونخوا) نے کسی ریفرنڈم کے تحت پاکستان سے الحاق کیا تھا؟ اگر صوبہ سرحد کا بغیر کسی ریفرنڈم کے پاکستان کے ساتھ الحاق ہو گیا تو فاٹا کی خود مختار حیثیت کیسے برقرار رہی؟ یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان میں570 ریاستیں موجود تھیں جن کو Princely states کہا جاتا تھا۔ ان تمام ریاستوں کے بارے میں4 جون 1947کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا کہ 15اگست 1947ان تمام ریاستوں کے ساتھ تاج برطانیہ کے معاہدات ختم تصور ہوں گے۔ اس تاریخ کے بعد ان تمام ریاستوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ نئے وجود میں آنے والے ممالک پاکستان اور ہندوستان میں سے جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم کے بعد 570ریاستوں میں سے جب کسی کی خود مختار حیثیت برقرار نہیں رہی تو فاٹا جو ریاست بھی نہیں تھی اس کی خودمختار حیثیت کیسے برقرار ہے؟

اب آیئے لارڈ ویول کے بیان کا بھی ایک جائزہ لیجیے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ 1785 سے 1947 تک طویل عرصے میں برٹش انڈیا کے ترتالیسویں (43rd) وائسرائے کا بیان اتنا اہم کیوں ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب Independence act 1947 ہو رہا تھا توبرٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن تھے جبکہ لارڈ ویول 21 فروری 1947 کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے تھے۔بر بنائے بحث یہ تسلیم کر لیجیے کہ لارڈ ویول کے بیان کی بھی ایک اہمیت ہے۔آئیے اس تاریخی تناظر پر نظر ڈال لیتے ہیں کہ لارڈ ویول نے کس پس منظر میں یہ خطاب کیا۔یہ معلوم ہے کہ لارڈ ویول اکتوبر 1943 میں وائسرائے ہند بنے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی گاندھی صاحب نے 1942 میں ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تاج برطانیہ اور آل انڈیا کانگریس کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔لارڈ ویول قبائلی علاقے کے دورے سے پہلے 1946 میں وزیر خارجہ جواہر لال نہرو نے قبائلی علاقوں کے دورے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی سب سے بڑی مخالفت صوبہ سرحد کے گورنر اولف کیرو نے کی۔ اولف کیرو نے احتجاج کرتے ہوئے لکھا ’ Deliberate partisan approach to the tribal problem at a most critical juncture‘۔(The Defiant Border- Elisabeth Leake- page-82) مگر اپنے تحفظات کے باوجود وائسرائے لارڈ ویول کو کہنا پڑا کہ ہم اپنے وزیر خارجہ کو اس دورے سے روک نہیںسکتے جبکہ اسی دورے کی جناح صاحب نے بھی شدید مخالفت کی تھی۔ نہرو کے دورے کے دوران جب پشاور میں احتجاج اور مالاکنڈ ایجنسی میں ان پر پتھراﺅ کیا گیا تو الزبتھ لیک کے مطابق اولف کیرو نے اس کا الزام مسلم لیگ پر لگایا۔ الزبتھ لیک لکھتی ہیں’ Caroe suspected that Muslim league members had organized these demostrations‘۔ (The Defiant Border- Elisabeth Leake- page-82) ۔ حالانکہ نہرو کے اس دورے سے پہلے محمد علی جناح صاحب کہہ چکے تھے’ That no instructions to stage demonstrations had been issued‘۔یہ معلوم ہے کہ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خانصاحب کی حکومت تھی۔ انہوں نے نہرو کو پشاور ائیرپورٹ پر وصول کیا تھا۔ نہرو کے اس دورے کا مقصد قبائلی علاقوں میں آل انڈیا کانگریس کے حمایت حاصل کرنا تھی جس میں باچا خان ان کے حامی تھے۔ دورے کے بعد جواہر لال نہرو نے قبائلی علاقوں کے حوالے سے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے فنڈز بڑھانے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے قبائلی علاقوں میں ترقی کے امکانات روشن ہوں گے۔ جواہر لال نہرو کے اس دورے کو تاج برطانیہ نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ الزبتھ لیک لکھتی ہیں۔

’ British responses to Nehru’s visit revealed an increasingly communal view point. Wavell and Pathick Lawrence were similarly unimpressed. Lawrence called the tour “extremely ill-judged ” and concluded, ” Caroe must have been greatly relieved when his unwelcome visitors got away with no more damage than they did”. Wavell called it “a dangerous and foolhardy escapade”. He also expressed frustration with Nehru’s proposals for future frontier development.” Nehru seems to be incapable of realizing that the Frontier is something outside his ordinary political experience” ‘۔(The Defiant Border- Elisabeth Leake- page-84) ۔

 یہ وہ پس منظر ہے جس بعد لارڈ ویول قبائلی علاقوں کا دورہ کرتے ہیں اور قبائیلوں سے کہتے ہیں ’ On behalf of his majesty’s government I assure you, that the partition has nothing to do with your independence. You will negotiate terms with the dominion ‘۔ کوئی اس بیان کو تاریخی اپنے پورے تاریخی پس منظر کے ساتھ ایک تاریخی دستاویز کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ۔البتہ مورخین لارڈ ویول کے اس بیان کو نہرو کے دورے کے ”Damage control “ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک محمد علی جناح صاحب کے بیان کا تعلق ہے جس میں انہوں نے1948 میں قبائیلوں سے کہا آپ لوگوں نے جو معاہدات تاج برطانیہ سے کئے تھے، ہم ان کے اس وقت تک پابند ہوں گے جب تک آپ کے ساتھ نئے معاہدے نہیں ہوتے‘۔ اس پر پہلا سوال تو یہ وارد ہوتا ہے کہ Independence act 1947 کے مطابق تاج برطانیہ کے تمام معاہدات اگر قبائلی علاقوں کے ساتھ کالعدم ہو گئے تھے تو جناح صاحب کن معاہدات کی پابندی کی بات کر رہے تھے؟ اس پر دوسرا سوال یہ وارد ہوتا ہے کہ محمد علی جناح صاحب یہی وعدہ خان آف قلات کے ساتھ بھی کر چکے تھے۔ جب قلات کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی نہ رہی، جب صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت ختم کی گئی تو قبائلیوں کے ساتھ وعدے وعید ویسے ہی بے معنی ہیں۔

جہاں تک محمود خان اچکزئی صاحب کا یہ بیان ہے کہ پاکستان پر آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کے دیگر علاقوں پر آئین پاکستان کے 280 آرٹیکلز لاگو ہوتے ہیں اور فاتا پر صرف چار لاگو ہوتے ہیں تو نہایت احترام سے گزارش ہے کہ جب باقی ماندہ پاکستان1973 کے آئین کو متفقہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس آئین کے تحفظ کی قسم کھاتا ہے۔ اس آئین کو مقدس دستاویز مانتا ہے۔ بار بار اسی آئین کے تحت الیکشن ہوتے ہیں۔ حکومت سازی ہوتی ہے۔ وزارتیں لی جاتی ہیں۔ صوبوں میں حکومتیں بنائیں جاتی ہیں۔ جب یہ سب کچھ درست ہے، اچھا ہے، مقدس ہے تو پھر قبائلیوں کے لئے یہ کیوں برا ہے؟ قبائلی کیوں اپنے گلے میں ایف سی آر کا طوق لٹکائے پھرتے ہیں۔ ہاں محمود خان اچکزئی صاحب کے اس بیان کی بھرپور تائید کی جانی چاہیے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ اب یہ کس طرح ہو گا، اس کے لئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے۔اصلاحات کمیٹی پارلیمنٹ میں ہی بنی ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ کو ہی پیش کی ہے۔ محمود خان اچکزئی صاحب کی جماعت بلوچستان میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ شریک اقتدار ہے۔ محمود خان اچکزئی صاحب کے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بہتر ہے۔ وہ اپنا یہ مقدمہ پارلیمنٹ میں بہتر انداز میں سامنے رکھ سکتے ہیں۔ تاریخ کا دریا مگر شوریدہ ہے۔ اس میں جہاں روانی موجود ہے وہیں پر کئی بھنور بھی آتے ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah