کیا اردو ہماری مجبوری ہے؟


مردم شماری کی خبر عام ہوتے ہی ایک نیا ٹرینڈ سامنے آ رہا ہے۔ دوست پورے زور و شور سے اپنی اپنی مادری زبان کے حق میں دلائل دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب لوگ اسی اصول پر چلیں تاکہ ان کی زبان ملک کی غالب اکثریتی زبان کہلائی جا سکے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ بلاشبہ ہر فرد کو اپنی زبان، اپنے صوبے، اپنی زمین، اپنی روایات کا وفادار رہنا چاہیے۔ اپنی ثقافت کو پھلتے پھولتے دیکھنا اور اگلی نسل میں کامیابی سے منتقل کرنا وہ خواب ہیں جو ہر شخص دیکھتا ہے۔

زبان ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ اپنی بات پہنچانے کے لیے، لوگوں کو سمجھانے کے لیے، یا کسی بھی مقصد کے لیے ہم روزانہ اپنی مادری زبان کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ نہیں بھی ہوتا، پاکستان میں ہیں اور سامنے والا شخص آپ کی بات نہیں سمجھ پاتا، زبان نہیں جانتا، تو اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ملک سے باہر ہیں تو انگریزی بہت سی جگہ پر چل ہی جاتی ہے، آخری زبان اشاروں کی بچتی ہے۔ جو جتنا بہتر سمجھا سکتا ہے، اتنا ہی بہتر جواب حاصل کر سکتا ہے۔

ایک دور تھا جب ان زبانوں میں لوگ عبادت تک کیا کرتے تھے، لیکن آج سمیری، عبرانی، سریانی، پالی اور دیگر بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کے پڑھنے والے اب دنیا میں بہت کم ہیں۔ ایک چکر لاہور کے عجائب گھر کا لگائیے اور دیکھیے کہ وہاں موجود پرانے کتبوں میں سے کتنے ہیں جو پڑھے جا سکتے ہیں۔ جنہوں نے وہ سب کچھ لکھا، جنہوں نے مصر کے اہرام لکھ لکھ کے بھر ڈالے، جنہوں نے غاروں میں تصویریں بنائیں، جنہوں نے پتے سکھا کے ان پر لکھا، وہ سب لوگ یقیناً یہ چاہتے ہوں گے کہ ان کا لکھا رہتی دنیا تک پڑھا جائے، ان کی زبان تاابد باقی رہے۔ تو ہوا یہ کہ بہرحال اس میں سے کچھ بچا، کچھ ضائع ہو گیا، کچھ ہو رہا ہے۔ وقت کا چکر بہت خوف ناک ہوتا ہے، بچ جانے والی چیزوں میں سے بھی کافی کم وہ کتبے ہیں جو مکمل طور پر ڈی سائفر ہو سکے ہیں، یا کہہ لیجیے کہ پڑھے جا سکے ہیں۔ ثبات بہرحال تغیر کو ہے۔

ہم لاکھ سر مار لیں، جذباتی ہو جائیں، دھائیاں دے لیں، جلسے جلوس نکالیں، لمبی لمبی تقریریں کریں، فائدہ کچھ نہیں ہونا۔ زبان وہی باقی رہنی ہے جس کا تعلق جدید علم سے ہے، جس کا تعلق معیشت سے ہے۔ اردو زبان کو بھی سنبھالا اسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملا ورنہ ابھی چھ سات برس پہلے تک کیا ہم سب رومن (انگریزی حروف میں) میں اردو نہیں لکھ رہے تھے؟ آج بھی لکھتے ہیں اگر جلدی ہو۔ لیکن اردو زبان کمپیوٹر اور سوشل میڈیا پر آنے کے بعد بہرحال یہ فائدہ ہوا کہ باقاعدہ ایک پورا طبقہ سامنے آ گیا جو اردو ٹائپ میں لکھنا اور پڑھنا پسند کرتا ہے، وہیں سے نئے لکھنے والے سامنے آئے اور کم از کم وہ رونا ختم ہو گیا کہ اردو زبان کا زوال شروع ہو چکا ہے یا لکھنے پڑھنے والے نہیں رہے۔ لیکن، اس سب کے باوجود اردو میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ مشکل سائنسی علوم خود میں سمو سکے تو ہم مجبوراً انگریزی کی طرف جاتے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی سیکھنا مجبوری نہیں ہے، خود ایک فرد کے لیے بہتر ہے۔ دنیا بھر کا تازہ ترین ادب، سائنسی تحقیقات، خبریں، تجزیے، جائزے سبھی کچھ سب سے پہلے انگریزی میں دستیاب ہوتے ہیں۔ سب چھوڑئیے، جو اس وقت یہ لفظ آپ کے سامنے ہیں ان کے پیچھے بھی تمام تر کوڈنگ انگریزی زبان میں موجود ہے۔ تو زبان سے محبت کے چکر میں دنیا کیسے چھوڑی جائے؟

دوسری زبانوں کی بات کیجیے۔ سامنے کی بات کرتے ہیں۔ سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو، براہوی یہ سب زبانیں جاننے والے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ شعر و شاعری کرنی ہو، کوئی ادبی بات کہنی ہو، کوئی یادگار قول لکھنا ہو تو سب اپنی اپنی زبان میں لکھ دیتے ہیں۔ جہاں ابلاغ کی بات آئے گی، جہاں اپنی بات لوگوں تک پہنچانی ہو گی وہاں اردو میں بات ہو گی۔ وزیرستان کے پہاڑ ہوں، بونیر ہو، نوشکی ہو، جام پور ہو، ریہڑکی ہو یا لاہوری ہوں، کسی وقت کوئی سیریس مسئلہ ہو گا، یا ایسی بات کہنی ہو گی کہ جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو تو فوراً اردو میں بات ہو گی یا بہت ہو گیا تو انگریزی استعمال کی جائے گی۔ نہ نہ کرتے بھی یہ دو زبانیں فی الحال ہماری مجبوری ہیں۔

 دنیا میں تقریبا سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے تئیس چوبیس وہ ہیں کہ جو اکثریتی زبانیں ہیں۔ تین سو برس بعد ساڑھے سات سو بھی بچ جائیں تو بہت بڑی بات ہو گی اور یہ زمانے کا چلن ہے، انہیں انگریزی یا اردو نہیں کھائے گی یہ اپنی موت آپ مریں گی۔

اسی طرح اشتہار بازی کی صنعت ہے۔ بڑے سے بڑا علاقائی زبان کا وفادار کاروباری کبھی بھی اپنی زبان میں اشتہار نہیں بنوائے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ٹارگٹ آڈئینس محدود ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ موثر ابلاغ اسی زبان میں ہو گا جو لنگوا فرانکا ہو گی۔ ایسی زبان ہو گی جو وسیع پیمانے پر سمجھی جا سکے۔

دنیا بھر میں وہ زبان فی الحال انگریزی اور مستقبل میں ٹیکنالوجیکل انگریزی ہے! جس قدر ویڈیو اور ٹیکسٹ ہم آج دیکھ رہے ہیں یا ہماری پہنچ میں ہے، تیس برس پہلے ایسا سوچنا بھی ناممکن تھا۔ یہی معاملہ زبان کا ہے۔ کتنے لوگ کسی اجنبی جگہ پر جا کر وہاں کی زبان سیکھتے ہیں؟ گوگل ٹرانسلیٹر دو سیکنڈ میں سب کچھ نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ زبانیں سیکھنے کا عمل بہت تیزی سے ٹیکنالوجی کا شکار ہو رہا ہے لیکن اس میں انگریزی کا کوئی قصور نہیں۔ بحیثیت طالب علم اگر غور کیا جائے تو ہمیں چینی معیشت دیو قامت دکھائی دیتی ہے، اس میں صلاحیت ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکے، کسی حد تک وہ لے بھی چکے ہیں۔ لیکن چین بھی اپنی زبان میں دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہو گا تو وہ بھی انگریزی میں ہو گا۔ انٹرنیٹ اور تمام تر سافٹ وئیر کوڈنگ کی شروعات انگریزی سے ہوئی جو اس قدر پھیل گئی ہے کہ انگریزی لامحالہ رابطے کی زبان یا لنگوافرانکا بن چکی ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل کی انگریزی زیادہ آسان ہو، کم سے کم گرامر کا خیال رکھا جائے، سپیلنگ مزید سادے ہو جائیں لیکن یہ بہت مشکل نظر آتا ہے کہ چینی یا کوئی بھی ابھرتی معیشت اپنی زبان کو دنیا بھر میں پھیلانے کا خواب تک دیکھ سکے۔

تو مادری زبان کے غم میں ڈوب کر سٹیٹس پوسٹ کیجیے۔ مردم شماری کے کاغذوں کو بھی بھر دیجیے، ماں بولی کے دن لڈیاں ڈال کر اس کا فروغ کیجیے لیکن زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے، ایک نظر ادھر بھی!

(اس ہفوات سے اتفاق نہ ہونے کی صورت میں چھ لائنوں کا ایک سٹیٹس کسی بھی علاقائی زبان میں لکھیے، پھر دیکھیے کہ اس پر جواب کس زبان میں آتے ہیں۔ کچھ گھنٹوں بعد وہی سب کچھ اردو یا انگریزی میں پوسٹ کیجیے اور لوگوں کا ردعمل محسوس کیجیے۔ شیطان بہرحال آپ کو یہ سب کچھ کرنے سے روکے گا!)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain