مہوش طالبہ، منگی استانی اور اردو سندھی جھگڑا


ہم چوتھی جماعت کے ہونہار طالب علم تھے۔ اچھا چلیں اتنے ہونہار نہیں تھے۔ تھوڑے بہت تھے۔ تاریخ اور انگریزی ہمیں بہت پسند تھی۔ سائنس بھی بس کبھی کبھی اچھی لگ ہی جاتی تھی۔

جب نہیں لگتی تھی تو امی کی آواز زور سے کانوں میں گونجتی “بیٹا تم کو بڑے ہو کے ڈاکٹر بننا ہے!” اور ہم بری لگتی سائنس کو بھی سینے سے لگا لیتے۔ اگتے پھولوں کی سائنس۔ چہکتے پرندوں کی سائنس۔ ڈاکٹر بننے کے لئے سائنس کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا اس لئے مجبوراً سائنس سے محبت کرنی پڑ گئی۔ شکر ہے کہ یہ محبت اور مجبوری کا رشتہ سازگار بھی رہا۔ بہرحال پڑھنے لکھنے کا ہمیں شوق تھا اور ہم کافی ڈرامےباز بھی ٹھہرے تھے لہٰذا اسکول کے کئی فنکشن وغیرہ میں حصّہ بھی لیتے رہے۔ سکول کی تمام اساتذہ ہمیں بہت پسند کرتی تھیں۔ ایک ٹیچر نے پیار سے ہمارا نام ‘chatter box’ رکھا ہوا تھا۔

پھر کچھ نیک لوگوں نے ہمارے گھر آ کے بندوق تان لی اور ہماری امی جان کے جہیز کا زیور، ویڈیو ریکارڈر اور وی سی آر (جی ہاں ہم اتنے پرانے ہیں) بھی لے دوڑے۔ ابا جی بہت ڈر گئے اور گھر شفٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم نے روتے دھوتے سامان باندھا اور اپنی گڑیا کے ساتھ اپنا غم بانٹا۔ دوسرے سکول جانا پڑا۔ پہلا سکول کتنا پیارا تھا۔ اس میں ہر چیز انگریزی میں ہوتی تھی۔ استانیاں بھی کتنی پیاری ہوتی تھیں۔ لال لپ اسٹک لگاتی تھیں۔ اور ہماری سب دوستیں بھی انگریزی میں باتیں کرتی تھیں۔
نئے اسکول کے بچے نہ انگریزی بولتے تھے۔ نہ ہم سے پیار کرتے تھے۔ ہم نئے یونیفارم میں بالکل بدھو لگتے۔ اس بات کا ہمیں پہلے دن ہی اندازہ ہوگیا تھا جب نئی گلاس میں داخل ہوتے ہی ہمارے ساتھ کے بچوں نے ہماری بڑی بڑی آنکھوں کا مزاق اڑانا شروع کردیا۔ 10-11 سال کی ایک کمزور سی بچی جس کے بال ماتھے کو آ رہے ہوں اور چھوٹے سے منہ پہ دو بڑی بڑی آنکھیں ہوں۔۔۔ ظاہر ہے بچوں کو تو مذاق اڑانا ہی تھا۔

ہم نے بہت کڑھتے پہلا دن گزارا۔ سائنس کی کلاس اچھی گزر گئی اور انگریزی کی ٹیچر بھی پیاری نکلیں۔ البتہ ایک سبق ایسا آیا کہ جو بچی کھچی ہمت ہم نے پورے دن جمع کر کے رکھی تھی وہ چھو منتر ہوگئی۔ مس منگی کلاس میں وارد ہوئیں اور سندھی پڑھانا شروع ہوگئیں۔ سندھی پڑھنی ہوگی اب، ہم نے سوچا اور ہاتھوں کے سب اردو اور انگریزی بولنے والے طوطے اڑ گئے۔ برابر میں دیکھا تو بچیاں اور بچے ہل ہل کر ‘تنجھو نالو چھا آہے’ پڑھ رہے تھے اور ہمارا منہ ہمارے سامنے رکھے کاغذ کی طرح کورا تھا۔

مس منگی زندگی سے بہت ستائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ زندگی کا غصہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے کاجل کے بعد یقیناً مجھ پر انڈیلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ غراتے ہوے انہوں نے ہم سے کچھ سندھی میں پوچھا۔ ہماری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مس منگی کی زندگی میں موجود پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا۔ اسی اثنا میں ان کو اردو بھی آگئی اور انگریزی بھی۔ “یہ آج کل کی بچیاں بلا وجے روتی ہیں!”

گھر آتے ہی ہم نے اپنا فیصلہ سنانے کی ناکام کوشش شروع کر دی۔

“امی ہمیں سکول نہیں جانا۔”
“کیوں؟”
“یونیفارم کا رنگ اچھا نہیں۔”
“نیلے رنگ میں کیا برائی ہے۔”
“ہمارے پیٹ میں درد ہے۔”
“دہی کھاؤ ٹھیک ہوجائے گا۔”
“ہماری ٹیچرز کو انگریزی نہیں آتی۔”
“کوئی بات نہیں انگریزی سب کچھ نہیں ہوتی۔”

امی تو ڈکیتی کے بعد اتنی بہادر ہوگئی تھیں کہ بیٹی کی زندگی میں گزرتی قیامت ان کے لئے رائی جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتی تھی۔ ابا جان نرم دل آدمی تھے ان سے کچھ امید بنتی نظر آئی جو ہماری یہ گفتگو غور سے سن رہے تھے۔ “کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟” ان کے پوچھنے کی دیر تھی ہم نے رو رو کے داستان رقم کر دی۔ ابّا نے اگلے دن ہی ایڈمنسٹریٹر سے وقت مقرر کیا اور واقعے کا ذکر کیا۔ مسز خان کو بتایا گیا کہ بچی نے کبھی سندھی نہیں پڑھی اس پہ پریشر نہ ڈالا جائے۔ مسز خان نے یقین دہانی کروائی کہ مسز منگی کو سمجھایا جائے گا۔ مگر جونہی ابا جی کے ساتھ ہم سینہ ٹھوکتے ہوے آفس سے باہر آئے مس منگی دور کھڑی ہمیں ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے ہم نے ان کے گھر کا پانی بند کروا دیا ہوا۔ اگلے دن کلاس میں جو ہمارے ساتھ ہوا ہم نہیں لکھ سکتے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ ہم پھر رو دیں گے۔ اور دوم یہ کہ آخر ہماری بھی کچھ عزت ہے۔

پھر ہماری ایک کمبخت کزن نے ہمیں مشورہ دیا کہ الله میاں سے دعا کرو، کہ تم بیمار پڑ جاؤ۔ پھر سکول سے فوراً چھٹکارا مل جائے گا۔ ہم نے جان لگا دی اور الله میاں سے وعدہ کر لیا کہ اگر الله نے کوئی اچھی سی بیماری دے دی تو یقیناً ہم محلے کی بلی کو دو پلیٹ دودھ دیں گے۔ الله نے ہماری سن لی اور ہمیں یرقان ہوگیا۔ سخت، زہریلا، جسم کو پگھلا دینے والا یرقان۔ اماں ابّا پریشان تھے اور ہم دل ہی دل میں خوشی کے مارے لڈیاں ڈال رہے تھے۔ سارا دن گھر میں ٹام اینڈ جیری دیکھتے۔ اور دن میں دو گھنٹے انگریزی پڑھتے۔ ہاں کھانے پینے کی دقت ہوتی مگر مس منگی سے جان چھوٹنے کے لئے یہ قیمت کچھ بھی نہیں تھی۔

ڈاکٹر حیران پریشان رہے کے بچی ٹھیک کیوں نہیں ہوتی۔ مہینوں گزر گئے۔ کبھی یرقان بڑھتا کبھی کم ہوتا۔ مگر ہم مکمل طور پہ صحت یاب نہ ہو پاتے۔ بھائی دنیا والوں کو کیا پتہ ہم نے الله میاں سے زبردست ڈیل کی ہوئی تھی۔ بلی کے بھی وارے نیارے تھے۔

تقریباً ایک سال بعد جب امتحنات کا وقت آیا تو ہم نے بیماری سے اٹھتے ہی تمام پیپر دے ڈالے۔ رپورٹ کارڈ آیا اور کیا ہی عجیب رپورٹ کارڈ آیا۔ ہر سبق میں 90 سے اوپر نمبر۔ اور سندھی میں فیل۔ 40 بچوں کی کلاس میں 18ویں نمبر پہ آئے۔ نکمے ہوتے تو جشن مناتے۔ قابل تھے اس لئے دس دن روئے۔

کئی دن تک روتے رہے۔ اماں جان نے تو زیادہ ہمدردی نہ دکھائی البتہ ابا نے فیصلہ کیا کہ چاہے کتنا دور پڑے بیٹی کو اس کے پرانے سکول لے جائیں گے۔ پرانے سکول جاتے ہی بیماریاں بھی غرق ہوگئیں اور غم بھی۔ مزے سے او لیول کی تیاریاں اور خواب شروع ہوگئے۔ چھٹی، ساتویں اور جب آٹھویں جماعت میں آئے تو اچھے نمبر لیتے رہے۔ پھر ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی والوں نے ہمارا اسکول بند کر دیا اور عین او لیول/نویں جماعت کے اڈمیشن کے وقت نوٹس جاری کر دیا گیا کہ سکول رہائشی علاقے میں ہے اسے بند کر دیا جائے۔ نجانے ڈی ایچ اے والوں کو پندرہ سال سے یہ خیال کیوں نہ آیا۔ ہماری نویں کلاس کے وقت ہی آیا۔ بہر حال ہمیں اسکول بدلنا پڑا اور لوگوں نے مشورہ دیا اب وقت نہیں ہے دوبارہ سیٹل ہونے کا، تم میٹرک ہی کر لو۔ ہم نے ایڈمشن لے لیا۔ خوب محنت کی۔ ہماری اردو اور انگریزی اچھی تھی اور سائنس سے تقریباً محبت پوری ہوگئی تھی۔ مگر ہم ایک وجہ سے پھر حواس باختہ ہو کر رہ گیے۔ سندھی پھر ہمارے گلے پڑ گئی۔

استاد نے پہلا صفحہ کھولا اور ہماری آنکھوں کے آگے ستارے چھا گئے۔ اتنے سارے نقطے۔ شاعری سمجھنے کی کوشش کی۔ تھوڑی بہت خوبصورت لگی۔ مگر باقی تو مکمل دل و دماغ کے آر پار ہوگئی۔ پرچہ بہت مشکلوں سے دیا۔ ہم نے ڈاکٹر بننا تھا۔ اچھے کالج میں ایڈمیشن لینا تھا۔ سندھی کے نقطوں تلے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔ رزلٹ آیا تو وہی ہوا جو چوتھی جماعت میں ہوا۔ ہر چیز میں اچھے نمبر۔ سوائے سندھی کے۔ اچھے کالج کے ایڈمیشن کا خواب تو ہاتھ سے گیا ہی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی بےبسی اور بدقسمتی پہ رونا بھی آیا۔

معروف کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے ایک طویل اور تفصیلی کالم میں سندھ کی تاریخ، پاکستان اور تقسیم ہند کے حوالے بیان کی ہے۔ پراچہ لکھتے ہیں کہ جب پنجاب کٹ رہا تھا تب سندھ میں شانتی تھی۔ سندھ کی زمین پر امن اور رواداری رہی۔ یہاں اسلام بھی صوفی رنگ میں ڈھلا، دھمال اور شاعری کا امتزاج تھا۔ جب کہ اردو بولنے والے جب اس خطے میں وارد ہوئے تو اپنے ساتھ ایک رسومات اور احکمات کی پوٹلی لے کر آئے۔ اسلام کو سخت اور مشکل بنا دیا۔ صوفی رنگ کو بدعت اور خلاف شریعت بھی کہا جانے لگا۔ تقسیم ہند کے بعد بہت سے سندھی ہندو پاکستان چھوڑ کے ہندوستان چلے گنے۔ پاکستان میں ‘ہم سب مسلمان ہیں اور ہم سب پاکستانی ہیں’ کی ایمرجنسی نافذ ہوگئی تھی۔ ان حالات میں نہ سندھی کی بقاء تھی نہ ہی کسی ہندو کی۔

1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کا لایا ہوا یہ بل جس کی وجہ سے سندھی زبان لازمی قرار دے دی گئی، مجھ جیسے کئی بچوں کے میرٹ کے گلے پڑ گیا۔ مزید یہ کہ سندھی زبان کو کئی سکولوں میں ضروری بھی قرار دیا گیا۔ ہندو پاک میں تعصب کی یہ دوڑ انگریز نے نجانے کب شروع کی اور نجانے یہ کب ختم ہوگی۔ اور نجانے کتنے بچے اپنے گریڈ سے، نجانے کتنے نوجوان اپنی نوکریوں سے اور کتنے معصوم اپنی جانوں سے جائیں گے۔ چاہے وہ جی ایم سید ہوں یا سر سید احمد خان، فکری تفرقے کی پہلی جڑ ڈھونڈنا شاید مشکل ہے، لیکن ایسی جنگوں میں عموماً ہار عام آدمی کی ہی ہوتی ہے۔ فسادات میں غریب کی ریڑھی جلتی ہے، امیر کا قلعہ سلامت رہتا ہے۔ غریب کے بچے کا ایڈمیشن گورنمنٹ کالج میں نہ ہو تو وہ کلرک بھرتی ہونے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ امیر کا بچہ تو سفارش سے منسٹر لگ جاتا ہے۔ نفرتوں میں دل ٹوٹ جاتے ہیں اور نفرتوں کے بیوپار کرنے والوں کی تجوریاں مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں۔

آج پاکستان میں پھر مردم شماری ہونے والی ہے۔ ہر طرف ہر طرح کی ہلچل ہے۔ سب کو ڈر ہے۔ ہر کسی کو اپنا حصہ برقرار رکھنا ہے اس ٹوٹے پھوٹے زمین کے خطے سے۔ سمجھ میں بس یہ نہیں آتا کہ اگر ہم سب ایک ہیں۔ اگر ہم سب سکون سے جینے کے لئے ہندوستان سے الگ ہوئے تھے۔ اگر پاکستان ہر انسان کو امن اور چین سے جینے دینے کا نام تھا – تو یہ مقصد کدھر غرق ہوگیا؟ یہ منزل کدھر چلی گئی؟

آج بھی اردو بولنے والوں کو دھرتی کا بیٹا نہیں مانا جاتا۔ الفاظ اور حالات بدلتے رہیں شاید۔ کل بھٹو تھا، پھر الطاف حسین کا زمانہ تھا، جی ایم سید کی تحریک تھی، آج بلاول ہیں، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، مگر تعصب کا رنگ وہی ہے۔ کوئی اردو بولنے والوں کو پناہ گزین کہتا ہے کوئی مکڑ۔ کوئی کہتا ہے کہ سندھی بن جاؤ اور کوئی کہتا ہے مہاجر بننا چھوڑ دو۔ مگر کوئی اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ اس چوتھی جماعت کی بچی کا کیا قصور تھا کہ اس کو وہ زبان پڑھنی پڑ گئی جو نہ اس کے گھر میں بولی جاتی ہے اور نہ اس نے کبھی دوبارہ بولی۔ دنیا بھر میں ایک زبان (انگریزی) کے علاوہ تمام زبانیں اختیاری ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی صرف سندھ وہ صوبہ ہے جہاں سندھی ضروری ہے۔ میٹرک میں اچھے بھلے طالب علم کے ساتھ یہ کیا زیادتی ہے کہ اس پہ زبردستی ایک ایسی زبان مسلط کی جائے کہ وہ اپنے روشن مستقبل سے محروم ہو جائے؟ اور اب مردم شماری میں کہا جا رہا ہے کہ صوبے سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے اپنے آپ کو سندھی لکھا جائے۔

اگر ہمیں اپنا لیا گیا ہے، تو ہمیں بدلنا ضروری کیوں ہے؟ ہم موجودہ حال میں لوگوں کو قبول کیوں نہیں؟ اگر ہم سب پاکستانی ہیں تو ہماری زبان ایک کیوں نہیں؟ ہم سب کی زبانیں مختلف کیوں ہیں؟ ہم سب کو ایک تصویر کامل کی طرح کیوں دیکھتے ہیں؟ قدرت نے ہر شخص کو الگ اور منفرد پیدا کیا ہے۔ اور کیا سندھی بولنے والوں کو یہ بات گراں نہ گزرے گی اگر ان سے کہا جائے کہ ان سے سندھی ہونے کے حق چھین لیا جائے گا؟

معروف شخصیت مایا انجیلو کا کہنا ہے۔ “لوگوں نے آپ کو کیا کہا، یہ آپ بھول سکتے ہیں۔ مگر لوگوں نے آپ کو کیسا محسوس کروایا۔۔۔ یہ آپ کبھی نہیں بھولتے۔” کبھی کبھی سوچتی ہوں مس منگی کو میں یاد بھی ہوں گی یا نہیں۔ وہ بڑی بڑی آنکھوں والی روتی ہوئی لڑکی۔ جس کو سندھی نہیں آتی تھی۔ شاید نہیں۔ مگر وہ مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے کمتر ہونے کا احساس دلایا تھا۔ ایک نے نئے اسکول میں ایک بچی کو یہ بتلایا تھا کہ چونکہ وہ ان کی زبان نہیں بولتی، اس لئے وہ ان سے الگ ہے۔ فرنگی ہے۔ ہاں، میں ان کی باتیں کافی حد تک بھول گئی ہوں۔ مگر ان کا دلایا ہوا غیر ہونے کا احساس ہمیشہ میرے سینے میں دفن رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).