کشمیر میں خواتین کی جدوجہد اور دختران ملت کا منفی کردار



کشمیری سماج کے موجودہ دور میں قومی معاملات میں خواتین کی کارگزاری ایک پیچیدہ سوال بنا ہوا ہے۔ این میک کلِنٹوک نے تیسری دنیا کے سماجوں میں بے اختیار خواتین کے کردارکے بارے میں کہا ہے۔ ’’عورتوں کو شہریوں کے درجے سے باہر رکھا جاتا ہے۔ قومی سیاست میں خواتین کی شرکت برائے نام ہوتی ہے اور انہیں لکیر کے اُس طرف بٹھاکر خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لئے ہی تیار رکھا جاتا ہے۔ (این میک کلنٹوک 345:1997)۔ اِس کی مثال میں کشمیر میں متحرک واحد تنظیم دختران ملت کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اِس جماعت کا دعویٰ ہے کہ برقعہ پوش خاتون ثقافت کی بے رونق اور بے آواز نشانی ہے۔ وہ منظم ہو کر اپنی مرضی کا راستہ ہموار نہیں کرسکتی ہے۔ وہ مذہبی رسم وروایت سے باہر نہیں نکل سکتی ہے۔ دختران ملت اِسی عقیدے کی مرید ہے اور اپنی تمام تر قوت کو گھریلو معاملات تک ہی صرف کرتی ہے۔ یہ جماعت نام نہاد قحبہ خانوں اور کالج کے طلبا طالبات کے درمیان رومانی افواہوں کے خلاف متحرک ہوکر دھونس دباؤ اور قابل اعتراض کارروائی انجام دیتی ہے۔ دختران ملت سے وابستہ کارکنان شاید ہی جدیدیت پر مائل کشمیری خواتین کو مغربی ممالک کی آزاد پسند عورتوں کے برابر کا درجہ دینے پر آمادہ ہوسکیں گی۔ اِس کے برعکس یہ جماعت تاریخ اور ثقافت کے اُن تقاضوں کو تعمیر کرنے کے لئے برائے نام کام کرتی ہے، جو بنیاد پرست سیاست میں کلچرل قومیت کا حصہ دار بنانے کے لئے ضروری قرار دیا جاسکتا ہے۔
کرشنا مصری سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج فار وومنز نواکدل (1975-82) اور گورنمنٹ کالج فار وومنز مولینا آزاد روڑ سرینگر کشمیر (1982-91 ) نے مجھے 5،اپریل 2008 کو ای میل کے ذریعہ آمرانہ ذہنیت کی حامل جماعت دختران ملت کی طرف سے لباس کے قاعدے وضع کرنے کے بارے میں مطلع کیا ہے۔
’’مارچ 1990 میں مولینا آزاد وومنز کالج پھر سے کھلنے کے دِن تقریباً تمام سٹاف ممبران کو برقعوں میں ملبوس دیکھ کر میں محو حیرت ہوئی۔ یہ عورتوں کی آزادی پر کاری ضرب تھی اور اُن سے اپنے لباس کا انتخاب کرنے کا حق بھی چھینا گیا تھا۔ مجھے لگا کہ یوم حساب آگیا ہے اور ہم نے ہار تسلیم کرلی ہے۔ اِس کالج کی تاریخ تابناک رہی ہے۔ میں فقط ماضی کو یاد کرسکتی تھی۔ جب کہ حال اور مستقبل دھندلا دھندلا سا لگ رہا تھا‘‘۔
ایسی جماعتیں جنسی تفریق پر مبنی ثقافت قائم کرنے کی داعی ہیں، جہاں ایسی کوئی آزادی دیکھنے کو بھی نہ ملے، جو کشمیری خواتین کا مقدر رہی ہے۔ پردہ رائج کرنے میں آہنی طور طریقوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ قبیلوں میں سرداری نظام جیسا فرسودہ دستور قائم کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہیں۔ اِس دستور کے تحت بے سہارا اور تنہا خواتین ظلم و زیادتیوں کا آسانی سے شکار ہوجاتی ہیں اور کشمیری اخلاق کی مشترکہ قدروں کو عام کرنے کے حامی نوجوانوں کے حرکات وسکنات پر قدغن لگ جاتی ہے۔
رجعت پسند جماعتوں سمیت سابق علاقائی ومرکزی حکومتیں، کانگریس۔ پی ڈی پی کی مخلوط ریاستی وکانگریس، بے جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک فرونٹ کی مرکزی سرکاریں شادی، طلاق، وراثتی حقوق جیسے مذہبی قوانین کی ہمہ پہلو وضاحتوں کے تئیں بے حس رہی ہیں، یہ جماعتیں مختلف العناصر ثقافتی روایات اور اِن کی لذتوں سے بھی جیسے ناآشنا ہیں۔ دختران ملت تنظیم سے وابستہ سرگرم کارکنان خواتین کو مقننہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ جیسے اداروں میں بھرپور نمائندگی دِلانے کے لئے جدوجہد کرکے صنف نازک کی بہتر خدمت انجام دے سکتی ہے۔ ایسے بااختیار اداروں میں خواتین کے لئے اضافی نمائندگی ملنے کے نتیجے میں خواتین کا استحصال کرنے والے عناصر پر ثقافتی دباؤ بڑھ جائے گا۔ اور حقیقت پسندانہ نظام کو قانونی حثیت حاصل ہوگی۔ روایتی طور پر مردوں کے زیر قبضہ اداروں میں عورتوں کی دخل اندازی سے جنسی استحصال کے ذمہ دار عناصر کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔ عورتوں کے با اختیار بننے کے نتیجے میں سماجی انصاف کا بول بالا ہوگا اور اقتصادی، سماجی اور سیاسی اداروں میں خواتین کو مساوی حقوق مل سکیں گے۔ (بِس ناتھ اور ایلیسن، وومنز ایمپاورمنٹ ری ویزی ٹیڈ)۔ موجودہ حالات میں نہ ریاستی انتظامیہ اور نہ ہی باغی گروہ اُن خواتین کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں، جو نیم فوجی اہلکاروں اور (یا) ملی ٹینٹ تنظیموں کے مظالم کا شکار ہوئی ہیں۔
کشمیر میں خواتین تشدد کا بُری طرح سے شکار ہوئی ہیں۔ اپنے مردوں کی عدم موجودگی میں یہ خواتین سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی عملے کی زیادتیوں اور حریصانہ نظروں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیری خواتین قدامت پسندانہ سماجی پابندیوں میں رہتے ہوئے جنسی استحصال سے متعلق حقائق پر کھلے عام بات نہیں کرپاتی ہیں۔ اِس موضوع پر حقیقت بیانی کرنے سے متاثرہ خواتین کو اپنا رتبہ مجروح ہوجانے کا ڈر لگا رہتا ہے اور انسانی ہمدردیوں سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ خواتین کی آبرو ریزی اور بے حرمتی واقعات کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، کیونکہ کشمیری سماج میں اِس طرح کے تشدد کو ہوا ملنے سے پہلے ہی کفن پہنایا جاتا ہے۔ میں نے ایک گوجر ماں پٹھانی بیگم سے اس کے اپنے گاؤں ماہیان اور وادی کے دیگر دیہی علاقوں میں سیاسی حالات سے متعلق کچھ سوالات کئے۔ دختران ملت تنظیم کے منشور کے بارے میں بھی پوچھا۔ پٹھانی سماجی بندشوں کے خوف سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اُس نے دختران ملت کے وجود اور منشور سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ وہ بندوق بردار سیکورٹی عملہ کی ڈراؤنی اور ستانے کی کارستانی کے خلاف دیہی خواتین کی جوابی کارروائیاں نہ ہونے سے پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ پٹھانی کے گاؤں میں 2006 کے گرمی کے موسم میں سپیشل ٹاسک فورس کی طرف سے تین جوان لڑکیوں کے ریپ ہوجانے کے نتیجے میں اُن بچیوں کی زندگی کو جہنم زار بنا دیا گیا ہے۔
اِس طرح کے خدشات کی حقیقت کو ہندوستان کے ایک اخبار نے تسلیم کرتے ہوئے حال ہی لکھا ہے۔ ’’اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلے بیس سال سے کشمیری خواتین سرکاری اور دیگر غیر ریاستی مشتبہ عناصر کی ناانصافیوں اور انسانیت سوز جرائم کے خلاف جدوجہد میں ہر اول دستوں کا رول ادا کر رہی ہیں۔ (اِمپیکٹ آف کنفلکٹ آن چلڈرن اینڈ وومنزاِن کشمیر، 2005 ) ریپ کی شکار اور جنگی بیواؤں کی بڑی تعداد کو زبردست دباؤ کا سامنا ہے اور وہ خودکشی کی طرف مائل ہو رہی ہیں۔ (ایضاً)
سیاسی، ثقافتی، سماجی قدروں کی بے حرمتی
ملیٹنسی سے تباہ حال کشمیری وادی کے کچھ دیہی علاقوں میں خواتین کو حاصل اختیارات کے بارے میں پتہ لگانے کے لئے میں نے جون 2005 میں ماہی یاں اور قاضی پورہ دیہات کا دورہ کیا۔ یہ دیہات تحصیل ٹنگمرگ میں واقع ہیں اور سرحد کے بالکل قریب ہیں۔ میں نے وہاں کچھ کشمیری اور گوجر خواتین کے ساتھ بات کی۔ جو کسان خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور خچروں کی مانند زمین کمانے کے کام میں لگی رہتی ہیں۔ تاہم انہیں اپنی غربت اور افلاس کے اسباب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ دوران مشاہدہ مجھے پتہ چلا کہ خواتین سے متعلق معاملات سرکاری ریکارڈ میں کہیں بھی اندراج نہیں ہیں۔ خواتین کو تاریخ کے گمنام گوشوں میں کہیں محفوظ رکھا گیا ہے۔
مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ اِن خواتین کو مظالم کا شکار بنائے رکھنے کے کیا دانستہ اسباب ہیں، تاہم اتنا طے ہے کہ یہ کشمیری اور گوجر عورتیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر پاتی ہیں۔ خواتین کی اِس بے حسی کے سیاق وسباق کو سمجھا جانا چاہیے تاکہ مقامی حالات کے مطابق حل تلاش کیا جاسکے۔ اِن خواتین میں اپنے بچوں کو سماج کا حصہ بنانے کی تڑپ تک موجود نہیں ہے۔ اِن کی نظروں میں ثقافت ہی ماں بیٹے کے درمیان رشتے کا لائحہ عمل طے کرتی ہے اور ثقافت ہی سماجی قدروں کی بنیاد ہوتی ہے۔ کیمرہ سے اپنے چہرے ہٹاکر اور ساس کی آنے کی آہٹ سن کر اپنی ہنسی کو روک لینے کے بعد حنیفہ بیگم، حفیظہ بیگم، فریدہ اختر اور رفعت آرا نے اپنے گھر کے بغل میں میرے لئے مدھر سُر میں لوک گیت گائے۔ ایک گوجر وکیل شبیر احمد نے اِن لوک گیتوں کا ترجمہ مجھے سنایا۔ اِن گیتوں کا مفہوم ایک نوخیز دلہن کا اپنے مانوس ماحول سے خود دستبرداری کا غمناک تصور پیش کرتا تھا اور ایک اجنبی فضا میں زبردستی اڑان کرنے کی روئیداد سناتا تھا۔ خواتین کے اِس گروہ میں شبیر کی ماں ہی صاف تلفظ میں بات کرتی تھی۔ وہ مذہب اور پرورش کی حدود میں تاریخی اور سماجی ضروریات کو سمجھنے میں پُر اعتماد تھی۔ اُس کی اپنی شخصیت سماجی حدود کے دائیرے میں دیگر افراد کو کارگزار بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ (ہیوارڈ 27:1998)۔ اِن خواتین کی بناوٹی شکایات کا وطیرہ اصل میں ایک ایسے سماجی ماحول میں دِن گزارنے کی حکمت عملی تھی، جہاں رشتے مراتب نظام کے تحت قائم رکھے جاتے ہیں اور سماجی اور سیاسی وابستگیاں آگے بڑھائی جاتی ہیں۔ سسرال کے لوگوں کا غیر ہمدردانہ وطیرہ اِن لوک کہانیوں کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں خواتین کی زندہ رہنے کی حکمت عملی کو سمجھنا قدرے آسان ہے۔ بشرطیہ ہم یہ مان لیں کہ اختیارات کو سماجی حدود کے اندر، ہر فرد کو ذمہ دار بنانے کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے، نہ کہ ایسا کہا جائے کہ طاقتور افراد کمزوروں کو اُن کی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ (ایضاً)۔ 1950 کے اوائل میں کشمیر میں جاگیردارانہ سماجی، اقتصادی نظام مسمار ہوجانے کے ساتھ ہی جاگیردار اور اُن کے حواری اپنی دیرینہ روایات کو غیر معمولی سفاکی سے آگے بڑھانے کے لئے کوشان رہے۔
ریڈر کشمیر یونیورسٹی کی ایک پروفیسر (جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) ہیں جنہیں فرسودہ جاگیرداری نظام کے حامیوں اور دختران ملت کے منشور کے ساتھ اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے 1996 میں جنیوا میں منعقدہ اقوام متعدہ کانفرنس میں جموں کشمیر میں حقوق انسانی پامالیوں کے سنگین واقعات کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اِس بنا پر حکومت ہند نے اُس کا پاسپورٹ ضبط کیا تھا، تاکہ وہ دیگر مجالس میں اِس طرح کی ترجمانی نہ کرسکے۔ میں نے سرینگر میں اپنے والدین کے مکان پر ان کے ساتھ کارآمد گفتگو کی تھی۔ انہوں نے دختران ملت کو اسلامی عقیدت کی خود ساختہ محافظ جماعت قراردیا۔ دختران ملت نے اسلام کو پردہ کرنے کے محاورے تک ہی محدود کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دختران ملت تمام کشمیری خواتین کی نمائندہ جماعت نہیں ہے اور ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔ میں نے ان سے جاننا چاہا کہ سولہ سال سے جاری بندوق کی دو طرفہ مداخلت سے سماجی تانا بانا کس حد تک متاثر ہوا ہے اور ملی ٹینسی سے بُری طرح متاثرہ خواتین کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے اِس بارے میں جموں کشمیر سرکار کے خلاف فیصلہ دیا، کیونکہ حکومت نے ہی خواتین کی نفسیاتی، جنسی، اقتصادی اور جذباتی استحصال کے لئے راہیں کھول دیں۔ اور دیہی علاقوں میں اِس طرح کی صورت حال نمایاں ہے۔ ایسے علاقوں میں جاری جنگل کے قانون کے ہوتے ہوئے تشدد کی شکار خواتین کی آباد کاری کا کوئی موقعہ میسر نہیں ہے۔ سیاسی، سماجی اور ثقافتی قدروں کی بے حرمتی کا کوئی حساب نہیں ہے۔ تشدد کی شکاراِن زخمی دلوں اور رنجیدہ روحوں کی شکایات کا مرحم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ قدرت کی شفافیت سے حاصل روحانی روشنی پر جیسے اَن مٹ میل جم گئی ہے۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan