دو قومی نظریہ : اصول دین یا سیاسی داؤ؟ (2)


 \"usmanماشا اللہ، محترم انور غازی صاحب کا اشہب قلم صبا رفتاری سے، جواب کے منتظر سوالوں کے خار و خس کو خاطر میں لائے بغیر، رواں دواں ہے۔ مگر۔ ۔ منزل ہے کہاں تیری، اے لالہ صحرائی؟ اس کی خبر شاید انہی کو ہوگی کہ اس تحریر کے دونوں حصوں سے اس کا پتا کم از کم اس خادم کو تو نہ مل سکا۔ مضمون کی دوسری قسط میں مندرج میثاق مدینہ کے منتخب حصوں کا ترجمہ درج کر دینے سے ایک اندازہ البتہ ہم جیسے کند ذہنوں کو بھی ہو گیا۔ وہ یہ کہ اس کی تدوین میں اس وقت رائج شریعت کے اصولوں کو بطور رہنما اصول اختیار کیا گیا ہے اور اس کی روشنی میں جزئیات کو طے کیا گیا ہے۔ خدائی احکامات کے من و عن، لفظی اطلاق پر اصرار نہیں کیا گیا۔ بلکہ معروضی حالات اور مشورے کی روشنی میں ان کی تطبیق کی گئی ہے۔ ۔

میثاق مدینہ کوئی ستاون شقوں پر مشتمل ہے، جن میں سے کچھ کا آزاد ترجمہ شامل مضمون ہے۔ میثاق کے جن حصوں کو یہاں درج کرنا محترم غازی صاحب نے بوجوہ مناسب نہیں سمجھا، وہ اس میثاق کے ایک انتہائی اہم پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ مثلا ان حصوں میں میثاق میں مختلف قبائل میں رائج قبل از اسلام کے رسم و رواج کا تذکرہ ہے۔ جیسے، قریش اور بنی عوف کو اپنے پہلے سے رائج قصاص کے طریقہ کار پر رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ رواجات دونوں میں مختلف رہے ہوں گے جبھی ان کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔ اسی طرح جنگ میں بننے والے قیدیوں کے بندو بست کے لئے بھی قبل از اسلام کے، ہر قبیلے میں رائج رواج کو جاری رکھنے کا ذکر ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ نام لے کر بنی عوف، بنی النجار، بنی الحارث، بنی سعیدہ، بنی الجوشم، بنی الثعلبہ وغیرہ کے یہودیوں کو مومنین کے ساتھ \”امت\” کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ خادم دہراتا ہے کہ میثاق میں مذکورہ یہودی قبائل اور مومنین کو ایک ہی امت قرار دیا گیا ہے، جس کے الگ الگ گروہوں کو اپنے قبل از اسلام کے رواجات کی پابندی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہودیوں کے (یقینا مشرک، کہ مومنین کا ذکر پہلے ہی آ چکا ہے) حلیفوں کو بھی برابر کا درجہ دینے کا عہد کیا گیا ہے۔

اب صاحب مضمون کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ اس میں غیر مسلموں کے امت میں شامل کیے جانے کو مصلحت وقت قرار دے کر اس میثاق کو اس وقت کے معروضی حالات کے مطابق قرار دیں، جس سے اس کی آفاقیت اور اس سے \”دو قومی نظریہ\” کے متبادر ہونے کی دلیل تحلیل ہوجاتی ہے۔ بہ صورت دیگر، اگر وہ اس میثاق میں درج \”امت\” کی تعریف کو مستقل اور آفاقی قرار دیں تب بھی اس سے \”دو قومی نظریے\” کا اصول دین میں شامل ہونا رد ہو جائے گا۔

جہاں تک پاکستان کے قومی ترانے کا سوال ہے، یہ تو \”دو قومی نظریے\” کی پیدائش کے وقت وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ کچھ کٹر پنتھی دوست تو، جو شعری ضروریات اور تشبیہہ و استعارہ کے ذوق سے ابا رکھتے ہیں، ترانے کے کچھ الفاظ کو سراسر مشرکانہ گردانتے ہیں۔ مثلا \”خدا کا سایہ\”۔ ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ محترم غازی صاحب \”سایہ خداے ذو الجلال\” کی من مانی تعبیر پر تو مصر ہیں، مگر \”پاک سرزمین کا نظام۔ ۔ قوت اخوت عوام\” کی جانب اعتنا نہیں فرماتے۔ خیر، ترانہ ضروریات شعری اور پہلے سے ترتیب شدہ دھن کی جکڑ بندی میں محصور ہونے کے باوجود ایک بھلی سی ادبی تخلیق ہے، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ فرمائشی چیز ہے اور اسی کے خالق \”شاہنامہ اسلام\” سے قبل \” کرشن کنہیا کی ثنا پر مبنی منظومات بھی تخلیق کر کے اہل وطن سے داد پا چکے تھے۔ سو، اس سے \”دو قومی نظریہ\” برآمد کرنا کار عبث ہی کہلائے گا۔

یہ امر البتہ اس خادم کو بہت خوش آیا کہ محترم غازی صاحب نے سن تہتر کے آئین سے کم از کم جزوی خوشنودی کا اظہار کیا۔ دراصل اس آئین میں، جو ایک خالص سیکولر طریقہ کار یعنی انتخابات کے ذریعے وجود میں لایا گیا، یہی روح کارفرما ہے کہ مملکت کے آزاد شہری، مسلمان ہونے کے ناتے کسی ایسی جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے جو اکثریت کے فہم اسلام سے متصادم منشور پیش کرے گی۔ کسی ایک طبقے یا جماعت کو، عوام کا اعتماد ووٹ کے ذریعے لئے بغیر، اپنا فہم اسلام پورے ملک پر مسلط کرنے کی راہ اس آئین میں بند ہے۔ اس پر صاد کرنے والے علماے کرام کے ذہنوں میں شاید وہ حدیث رہی ہوگی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ یہ امت کبھی باطل پر اجماع نہیں کرے گی۔ سیکولرزم کی جو روح (یہ اصطلاح استعمال کیے بغیر) سن تہتر کے اصل آئین میں موجود ہے، اس ملک میں اسلام کا نفاذ اسی راہ سے ممکن ہو پائے گا۔ کسی قسم کا بالاے آئین، جبری اور عوامی استصواب کے بغیر مسلط کیا جانے والا کوئی بھی نظام، محض منزل سے دوری کا ہی سبب بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments