حجاب پر فساد کیوں؟


کل حکومت پنجاب کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پریس ہینڈ آؤٹ نمبر 920 جاری ہوا تو چینلوں اور سوشل میڈیا پر آگ لگ گئی۔ اس کے مطابق وزیر ہائیر ایجوکیشن جناب سید رضا علی گیلانی نے لاہور بورڈ کے ڈویژنل ڈائریکٹرز کو ہدایت جاری کی کہ کالجوں میں طالبات کے لئے حجاب لازمی قرار دیا جائے اور اس پر ان کو غیر حاضری کی سہولت فراہم کی جائے۔

سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر چلتے ہی ایسا شدید ردعمل سامنے آیا کہ پہلے پریس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہینڈ آؤٹ نمبر 929 کے ذریعے 920 کو منسوخ کرنے کا اعلان ہوا، اور اس کے بعد پریس ریلیز میں کہا گیا کہ

حجاب کے حوالے سے کوئی تجویز زیرغور نہیں۔ حکومت پنجاب نے حجاب کرنے والی طالبات کو خصوصی مراعات دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ حجاب کے بارے میں وزیرہائیر ایجوکیشن کے بیان کا حکومت پنجاب کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔

شہباز شریف صاحب کی پنجاب حکومت بھی سر پیٹ رہی ہو گی کہ ایک جانب میاں نواز شریف صاحب کا بیان ٹی وی پر چھایا ہوا تھا کہ حکومت سب شہریوں کو ان کے عقیدے سے بالاتر ہو کر دیکھتی ہے اور ساتھ ہی پنجاب حکومت کا یہ ہینڈ آؤٹ ایک ہینڈ گرنیڈ کی طرح گرا اور سکرینوں پر چھا گیا۔ ایسا تاثر ابھرا جیسے پنجاب حکومت نے یہ حرکت میاں نواز شریف صاحب کی تقریر کے جواب میں کی ہے۔

بہرحال سوال یہ ہے کہ حجاب پر اتنا فساد کیوں مچا تھا؟ کئی افراد نے سوال اٹھایا کہ غیر مسلم طالبات کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس سہولت سے محروم کیا جائے۔ کچھ نے کہا کہ انہیں کیا فرق پڑے گا اگر سہولت نہ ملے۔ یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ غیر مسلم طلبہ اس اضافی 20 نمبر سے محروم رہتے ہیں جو کہ حافظ قرآن مسلم طلبہ کو ملتے ہیں اور پروفیشنل کالجوں میں تعلیم دیتے ہوئے متعلقہ پروفیشن میں مہارت کو مد نظر رکھنا چاہیے تقوے کو نہیں کہ جب آپ علاج کرانے جاتے ہیں تو ڈاکٹر کی مہارت آپ کے پیش نظر ہوتی ہے، اس کے ماتھے کی محراب نہیں۔

ایسے سوالات بھی اٹھائے گئے کہ طلبہ کو کیوں محروم رکھا گیا ہے۔ کیا ان کے لئے ٹوپی پہننے کا حکم جاری کیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ سہولت دیتے وقت کیا دیکھا جائے گا۔ جس وقت نمبر دیے جا رہے ہوں، صرف اسی وقت حجاب چیک کیا جائے گا، یا ہر پیریڈ میں حاضری لگاتے وقت حجاب پر بھی چیک مارک لگے گا۔

حکومت کے اس بیان کا دفاع کرتے ہوئے کچھ افراد نے نشاندہی کی کہ یونیفارم کا تعین ادارے کا استحقاق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی ادارے کسی ایک عقیدے کے حامل شہریوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کر سکتے ہیں؟ دوپٹہ تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ حجاب کو لازم قرار دینے کا مقصد کیا ہے؟ کیا سرکاری کالجوں کے یونیفارم میں ہمیشہ سے ہی دوپٹہ لازمی نہیں رہا ہے؟ کیا دوپٹہ جسم کو حجاب کے مقابلے میں بہتر طور پر کور نہیں کرتا ہے؟ دوپٹے اور چادر کی جگہ یہ جدید ماڈل کا ننھا سا جدید حجاب کیوں چودہ سو سال بعد ایمان کی نشانی بن رہا ہے؟ کیا قرآن مجید میں تو جلباب یعنی چادر یا دوپٹے کا ذکر نہیں ہے تو جدید حجاب کہاں سے اس حکم پر پورا اترتا ہے؟ کیا ہماری نانیاں دادیاں یہ حجاب استعمال کرتی آئی ہیں یا دوپٹہ اور چادر؟ کیا اس زمانے کے بزرگوں کو دین کی فہم نہیں تھی جو اب ہم نے پائی ہے؟ نیٹ پر تصاویر تلاش کر لیں۔ آپ کو ایسی باحجاب لڑکیاں دکھائی دے جائیں گی جو کہ حجاب کے باعث پورے نمبروں کی مستحق قرار پائیں گی مگر ان کا چست لباس آپ کو قابل اعتراض لگے گا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حجاب کے بعد عبایا کو بھی لازم قرار دیا جائے گا؟ کیا اس کے بعد سعودی عرب کی مانند ایک مذہبی پولیس بھی کھڑی کی جائے گی جو کہ حجاب اور عبایا کی پابندی کی خلاف ورزیوں کی چیکنگ کرے گی؟ کیا اس سے اگلے مرحلے میں خواتین کی ڈرائیونگ پر بھی پابندی لگے گی؟ یہ دلچسپ امر ہے کہ سعودی عرب اب ان امور میں نرمی اختیار کر رہا ہے اور اس اعتدال کی طرف بڑھ رہا ہے جو کہ 1979 سے پہلے وہاں موجود تھا مگر پاکستان اعتدال سے ہٹ کر تنگ نظری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اگر پابندی لگانی ہی ہے تو پھر حجاب کی پابندی ہی کیوں۔ کیوں نہ طالبات کے لئے افغانی برقع لازم قرار دے دیا جائے جسے عرف عام میں شٹل کاک برقع کہا جاتا ہے اور طالبات کو پانچ نمبر کی بجائے پورے سو نمبر ہی دے دیے جائیں۔

یہ جدید حجاب بھی دلچسپ چیز ہے جو پچھلی دو دہائیوں میں عام نمودار ہوا ہے۔ ایک بزرگ کالم نگار نے اس کی حمایت کرتے ہوئے یہ دعوی بھی کر دیا ہے کہ اس کی وجہ سے اربوں ڈالر کی میک اپ اور فیشن انڈسٹری کو خطرہ ہے۔ غالباً ان بزرگ نے کبھی یہ نوٹ نہیں کیا کہ حجاب لینے والیوں کا چہرہ کھلا ہوتا ہے اور میک اپ وغیرہ چہرے کا ہی کیا جاتا ہے اور فیشن ان کپڑوں کا جن کو یہ ننھا سا حجاب نہیں ڈھانپتا ہے۔ جہاں تک بالوں کا تعلق ہے تو آپ کی نظر سے بھی شیمپو کا وہ اشتہار گزرا ہو گا جو دعوی کرتا ہے کہ حجاب لینے والی خواتین کے لئے خاص طور پر تیار کیا گیا ہے جو کہ حجاب کے باعث سیلن زدہ بالوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اب دنیا کی بعض بڑی فیشن کمپنیاں اپنی حجاب اور عبایا لائن بھی لانچ کر چکی ہیں۔ فیشن انڈسٹری تو ہر وہ چیز بیچے گی جس کی مارکیٹ ہو، خواہ وہ حجاب ہو یا ہئیر کلپ۔

پنجاب حکومت نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو تحریک انصاف کے ممبران پنجاب اسمبلی میدان میں کود پڑے ہیں اور انہوں نے قرارداد پیش کر دی ہے کہ حجاب لازمی قرار دیتے ہوئے اس کے اضافی نمبر دیے جائیں۔

کبھی کبھی تو شبہ ہونے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف نورا کشتی کر رہی ہیں۔ جیسے ہی ایک جماعت کے خلاف عوامی رد عمل آتا ہے تو دوسری جماعت اس سے بڑھ کر کوئی حرکت کر دیتی ہے اور عوام کی توجہ اپنی کسی حماقت کی طرف مبذول کرا لیتی ہے۔

عمران خان کا پھٹیچر والا بیان آیا اور ساری توجہ ان پر مبذول ہوئی تو ان کی مدد کو مسلم لیگ نون آگے بڑھی اور جاوید لطیف سارا میلہ لوٹ کر لے گئے۔ اب پنجاب حکومت کے خلاف مہم شروع ہوئی ہے تو تحریک انصاف اسے مشکل سے نکال کر اس کے حصے کے تیر کھانے کھڑی ہو گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف یہ پابندی اس صوبے میں کیوں نہیں لگا دیتی ہے جہاں اس کی اپنی صوبائی حکومت ہے؟ چند دن پہلے ہی عمران خان کے پھٹیچر والے بیان کی ویڈیو ریلیز کرنے والی صحافی عفت حسن رضوی کے خلاف بھی مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے ہوئے ان کو بدنام زمانہ گستاخ پیج ’بھِینسا‘ کی ایڈمن قرار دیا جانے لگا تھا اور یہ معاملہ ان کی عمران خان سے ملاقات کی تصویریں سامنے آنے کے بعد ٹھنڈا پڑا۔ اور اب یہ قرارداد سامنے آ گئی ہے۔ کہیں تحریک انصاف ان جماعتوں کی فہرست میں اپنا نام تو درج نہیں کروا رہی ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دین کا ہر طرح کا برا بھلا استعمال کو بھی جائز سمجھتی ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar