سحر مسیح کو چاند نہیں، عزت کی زندگی چاہیے


آج تو حد ہی ہو گئی ! دن بھرانتہائی مصروفیت کے بعد شام ڈھلے کمر توڑ تھکن کا سامنا تھا ۔ سورج ابھی ڈھلنے کے ابتدائی مراحل میں تھا کہ آنکھ میں کمال کی گہری نیند ڈیرے جما نے کو پَر تولنے لگی ۔ دُنیا بھر میں خواتین کے حقوق، تحفظ اور عزت ووقار کا دن منانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ پاکستان میں پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد اور پشاور زلمی کی شاندار کامیابی کے جشن کا نشہ ابھی باقی تھا۔ مختلف ذرائع ابلاغ عمران خان کے مبینہ طور پر متعصبانہ بیانات کا کچومر نکالنے میں بازی لے جانے کی حد تک مگن تھے۔

 کرہ ارض پر آج یقیناً کہیں مے خانے آباد ہوئے ہوں گے، رقص و سرُور کی محفلیں سجی ہوں گی، کہیں رنگ و نُور کی سجاوٹیں، کہیں رقیب و رفیق کے تذکرے تو کہیں تال سے تال ملانے کی قسموں کے ادوار۔ سورج کے گرد گردش کرتی اس دھرتی ماتا کے سینے پر ہار جیت، کھیل تماشہ، نقل و اصل، امتحان وآزمائش، سیاست و سیاحت، محبت و تجارت کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کچھ ماضی کے قلزم میں غرق ہو چکا ہو گا۔

دُنیا بھر کی رنگینیوں میں رنگ بھرنے کے بعد اب سورج بھی دھرتی کی آغوش میں جا چھُپا تھا، البتہ اُس کی سنہری کرنیں پلٹ پلٹ کر ایسے اُبھر رہی تھیں گویا دھرتی پر کچھ “اچرج” ہونے کو تھا۔ شاید کسی کو بھوک کی تڑپ ستا رہی ہو؟ یا کسی کو تحفظ کی فکر کھائے جا رہی ہو؟ کوئی آزاد فضاوں میں محوِ پرواز ہونے کا خواب دیکھ رہا ہو یا کوئی پابندِ سلا سل اُمید کے دیپ جلائے سوچوں میں گُم ہو، بہرحال آخر کچھ تو ایسا ضرورہونے کو تھا کہ نیرِ اکبر کی شعاعیں بھی سانسوں کی طرح اُکھڑی اُکھڑی لگ رہی تھیں۔

خواہش اور کوشش کے باوجود آج تو نیند بھی پلکوں سے روٹھ چکی تھی۔ “کروٹیں بدلتے رہے ساری رات ہم۔۔۔” کا تجربہ کرتے کرتے اب رات بھی کافی ڈھل چکی تھی ۔ پنچھی کب کے گھونسلوں میں جا چھپے تھے۔ آسمان پر چاند اور تارے اندھیرے میں نجانے کن سر گوشیوں میں مگن تھے۔ دُور سے اِکا دُکا کسی سائرن کی آواز آ رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد گلی کا چوکیدار سیٹی بجا کر اپنی موجودگی ثابت کر رہا تھا۔

رات کا قریباً وہی پہر آن پہنچا تھا کہ جہاں رات اور دن نئی صبح کی شروعات کرتے ہیں۔ ایسے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کا مطلب کوئی “خبر” ہی ہو سکتا ہے۔ کچھ وسوسوں اور اندیشوں کے مجموعی احساس کے ساتھ فون کال اٹینڈ کی تو “خبر” سُنتے ہی ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔

آج صبح کا موسم بھی کچھ مِلا جُلا تھا۔ کبھی سُنہری دھوپ سبقت لے جاتی تو کبھی اوس نُما رِم جھم تازگی بِکھیرنے لگتی، مگر موسم کی یہ تازگی بھی ہمارے دل کی جلن کم نہ کر پا رہی تھی اور ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔

اِکیسویں صدی کے ستر سالہ جمہوری ملک میں ایک سیاسی پارٹی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے باوجود ہم لاہور کی جس مسیحی آبادی میں کھڑے تھے وہاں شہری سہولیات کا فقدان اس سیاسی حکومت اور اِس کے نمائندگان کی نا اہلی اور عدم دلچسپی ثابت کرنے کے لئے موثر ثبوت ہے۔ اس رہائشی بستی کی پہچان گندگی اور غلاظت سے بھر پور نالہ، چار سُو اُڑتی دھول مٹی، کچی ، ناپختہ اور بے ترتیب سڑکوں، نالیوں اور بانس پر جھولتی بجلی کی تاروں اور دھتکارے ہوئے شہری ہونے کے سِوا کچھ بھی نہیں۔

ہم لاہور میں فیروز پور روڈ پر واقع یوحنا آباد کے عقب میں خالق نگر نامی کچی بستی کی اُس گلی میں کھڑے تھے جہاں کل رات ایک مسیحی خاندان کی عزت و وقار اور حقِ تحفظ کے چیتھڑے اُڑائے گئے تھے۔ “ہم غریبوں کے پاس عزت کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟ جان و مال کے تحفظ کا حق تو اس ملک میں کب کا مٹ چکا تھا، اب غریب کی عزت کا بھی سودا ہونے لگا ہے”، بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ایک خاتون نے بِنا کسی تمہید کے یکدم تجزیہ پیش کر دیا۔

 میلے ڈوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے دوسری جانب کھڑی خاتون نے آگاہ کیا کہ “انہوں نے خواتین کی تذلیل، مسیحی عقیدے کی توہین اور گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کرنے میں انتہا ہی کر دی تھی”۔ اسی دوران ہجوم میں سے یکا یک کئی خواتین غم و غصے سے شرابور گواہی دیتے ہوئے فرمانے لگیں، “اسلحہ اُٹھائے اُن لوگوں نے گھر کی کوئی چیز نہیں چھوڑی، فرنیچر، برتن، بستر، فریج، کپڑے، الماریاں ، بچوں کی اسکول کی کتابیں کاپیاں حتیٰ کہ مسیحی ایمان کی پاک کُتب اورآیات ِ مقدسہ کے فریم سب کچھ باہر گلی میں گندگی کے ڈھیر پر پھینک دئیے گئے”۔

دس سالہ سحر کی ماں روتے روتے جب ایک لحظہ کو سانس لیتی تو اپنا دکھ ایک آدھ جملے میں ہی پروتی دیتی، کہنے لگی، “ہماری عزت کا جنازہ تھا کل شام” ۔ میری بیٹیوں کو بالوں سے پکڑ کر گلی میں گھسیٹتے رہے وہ لوگ” ۔ اُس نے آنسوؤں سے بھرے گال پونچھے اور پھر بولی، ” ہم غریب ہیں، صفائی کا کام ضرور کرتے ہیں مگر دل میں کسی کے خلاف میل نہیں رکھتے، کسی کا ناحق کچھ نہیں لیتے، ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ہمیں انصاف چاہیے”، اُس غمزدہ نے مطالبہ کر ڈالا۔

ارشاد مسیح نے چار مرلہ یہ مکان بارہ سال قبل تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور تا حال تعمیر کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس گھر میں نہ فرش ہے نہ باتھ روم، کمروں کے دروازے ہیں نہ پلستر، رنگ و روغن ہوا ہے نہ پانی کا کوئی انتظام۔ صحن میں بکھرے ہوئے سامان کے پاس گردن جھکائے ارشاد مسیح کہنے لگا، ” ہم غریب مسیحی ہیں اس لیے ہم پر ظلم کیا جاتا ہے”۔ اتنے میں اُس کی آواز بھر آئی، وہ ایک لمحہ رُکا پھر بولا۔ “بیس کے قریب لوگ اسلحہ لے کر قبضہ کرنے میرے گھر میں داخل ہوئے، انہوں نے میرے خاندان اور گھریلو سامان کا وہ حشر کیا کہ ہم شرم سے کچھ بول بھی نہیں سکتے”۔

نوجوان سماجی کارکن ذیشان عاصم فرمانے لگے ” مسیحی خاندان کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر تھوکا گیا ہے، یہ دہشت گردی ہے، ہماری مذہبی دل آزاری ہوئی ہے اور مذہب ، عقیدہ اور ایمان تو سب کو پیارا ہوتا ہے ؟

ہم جتنی دیر اُس غمزدہ خاندان کے ساتھ رہے دس سالہ سحر کی آنکھ کے آنسو نہ تھمے۔ وہ سب کی گفتگو سُنتی، ہچکیاں بھرتی، بار بار آنسو صاف کرتی مگر آنکھ سے آنسووں کی دھارا پھر سے اُبھر آتی۔ ہم نے اُس کےسر پر ہاتھ رکھ کر یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کا دل بہلانے کو اُسے گڑیا اور کھلونے لا کے دینے کا عدہ کیا تو اُس کے دل کی آواز سُن کر ہم بھی اپنے آنسو نہ چھُپا سکے۔

سحر بولی، ” مجھے کھلونے نہیں ، نا ہی گڑیا مانگتی ہون۔ اور نہ ہی کھیلنے کوچاند چاہیے ، مگر بس عزت کی زندگی لا دو”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).