ایک سنگل ماں کی زندگی


میں ایک سنگل ماں ہوں۔ مجھے ایک سنگل ماں کے طور پر جیتے ہوئے پانچ برس ہونے کو ہیں۔ میں اب وہ نہیں رہی جو میں کبھی تھی۔ میرے لہجے میں درشتگی سرایت کرنا شروع ہو چکی ہے۔ لوگوں کو ان کی حدود میں رکھتے رکھتے اب میں تھک جانے کو ہوں۔ یہ ایک دھند میں لپٹا ایسا سفر ہے جس میں نہ تو میری کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی واضح راستہ۔
بچپن سے شباب تک مجھے بتایا گیا کہ بس بیاہ ہی میری منزل ہے۔ ایک شہزادہ جو میرا خیال رکھے گا، میری چاہ کرے گا، مجھے دور دیس کی سیر کرائے گا۔ میں اپنے تمام ارمان اس کے ساتھ پورے کروں گی۔ میں تب ہی سجوں گی سنوروں گی، میں تب ہی عمدہ لباس زیب تن کروں گی، جب میں اپنے گھر میں ہوں گی۔ یہ ماں باپ کا گھر تو میری عارضی قیام گاہ ہے۔ بس مجھے تو پیا دیس جانا ہے اور وہی میری منزل ہے، وہی میرا ٹھکانہ اور وہی زندگی کا مقصد۔
مجھے بتایا گیا کہ ماں باپ کی رضا پر سر جھکا دینا ہی میری سعادت مندی کا ثبوت ہے۔ اسی میں میری زندگی کے سارے سکھ پنہاں ہیں۔ ماں باپ ہیں تو انسان مگر بس میں انہیں کسی بھی غلطی کے امکان سے بالاتر تسلیم کر لوں۔ بس میں ان کے ہر فیصلے پر راضی برضا ہو جاﺅں اور میں نے یہی کیا۔ مگر ہوا کیا ؟
یہ کیسا سسرال ہے اور یہ کیسا اپنا گھر ہے؟ کیا آپ نے پتھر کے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہوں۔ ایسے شعلے جن کی لپیٹوں سے دامن جھلس جائے اور روح تار تار ہو جائے۔ ایسے پتھر کے لوگ جن سے بس آپ سر ٹکرا سکتے ہو مگر کوئی لفظ کوئی سسکی یا کوئی آہ ان کے کانوں تک رسائی نہیں پاتی؟
مجھے دکھائے جانے والے خوابوں یا سرابوں میں اس مخلوق کا ذکر کیوں نہیں تھا؟ مجھے کیوں نہیں بتایا گیا تھا کہ بیاہ کے بعد کی زندگی ایک پل صراط کی طرح ہو گی۔ مجھے تربیت دیتے ہوئے کیوں نہیں بتایا گیا تھا کہ شہزادہ ایک درندہ بھی ہو سکتا ہے؟
اور یہ ننھی سی جان۔ جو اب میرے وجود کا حصہ ہے، جس سے جدائی کا خیال تک ہی میری روح کھینچ لیتا ہے۔ میں اس کے کانوں کو اپنی آہوں اور سسکیوں سے کیسے بچاﺅں۔ میں اپنے تار تار ہوتے ہوئے وجود کے ساتھ اسے ان شعلوں کے تھپیڑوں سے کیسے بچاﺅں؟ میں پل پل روح کو سلگاتی، طعن و تشنیع کے انگاروں سے بھری اس بھٹی میں کیسے جیوں؟ مگر نہیں یہ بھٹی ہی تو میرا محل ہے اور میرا ٹھکانہ، میرا اپنا گھر۔ مجھے بس صبر کرنا ہو گا، مجھے بس گزارا کرنا ہوگا، مجھے بس دعا کرنی ہوگی۔
مگر طلاق کے تین لفظ اس اپنے کو پرایا کرنے کے لئے بہت ہیں۔ یہ تین لفظ جو میں نے سنے ہیں اس چار دیواری سے مجھے بے دخل کرنے کے لئے بہت کافی ہیں۔
اب میرا اور اس ننھے وجود کا اپنا گھر کون سا ہے؟
ماں باپ تو اب بے بس ہیں، یا بے حس؟ معلوم نہیں۔ بھائی اب بے گانے ہیں یا کہ انجان ؟ پتہ نہیں۔ مگر اس ننھی سی روح کی سب ضرورتیں تو مجھے ہی پورا کرنی ہیں۔ اس کی حسرت بھری نگاہیں مجھ سے زندگی کا ہر سکھ مانگتی ہیں۔ اس کا ننھا سا پیٹ بھی بھرنے کے لئے خوراک کا ایندھن مانگتا ہے۔ اسے بھی تعلیم اور شعور حاصل کرنے کے کئے کسی ادارے میں جانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے میں باہر نکل سکتی ہوں، میں بھی خود کچھ کر سکتی ہوں، میرے پاس طاقت ہے، ہمت ہے اور اس ننھے وجود کو میری طاقت کی ضرورت ہے، اسی لئے میرے پیروں کے نیچے جنت ہے اور اسی لئے ماں کا درجہ اتنا افضل ہے۔ ان سوچوں کے ساتھ مجھے باہر نکلنا ہو گا، اس معاشرے میں اپنا مقام پانے اور اپنی جگہ بنانے کے لئے۔ مگر….
معاشرے کا ہر شخص ایک نمک کی چٹکی لیے گھوم رہا ہے۔ میرے دکھتے رستے زخموں میں رکھنے کے لئے بس ایک چٹکی ہی تو کافی ہے۔ اور کچھ مرد جن کو میرے لہجے کی ملاحت ایک دعوت محسوس ہوتی ہے، جن کے لئے میں مال غنیمت کی حیثیت رکھتی ہوں۔ جن کے نزدیک میں ایک ایسی عورت ہوں جس کا آنچل ان کی پہنچ میں ہے کیونکہ میں باہر نکل آئی ہوں۔ کیونکہ میرے پاس چار دیواری نہیں ہے۔ ہے تو بس ایک چادر جس میں چھید کرنا انہیں بہت آسان لگتا ہے یا ان کی نگاہوں کو شاید اس میں چھید دکھائی دیتے ہیں۔
میری ماں نے مجھے اس معاشرے میں جینا کیوں نہیں سکھایا؟
مجھے اپنے قدموں پر چلنا کیوں نہیں سکھایا؟
ایک بے بس معذور لاچار کی طرح ایک ایسے انسان کا انتظار کیوں کروایا جو میرا سارا بوجھ اٹھا لے گا؟
مجھے اپنے بوجھ کو خود اٹھانا کیوں نہیں سکھایا؟
یہ وہ زندگی تو نہیں تھی جس کے خواب دکھا کر مجھے بڑا کیا گیا تھا۔
یہ وہ زندگی تو نہیں جسے گزارنے کا قرینہ اور ڈھنگ مجھے سکھایا گیا تھا۔
میں لوگوں کے نزدیک بد نصیب ہوں، کم نصیب ہوں، میرے آنچل کے سائے سے لوگ اپنی کنواری بیٹیوں کو بچاتے ہیں کہ میری کالی زندگی کی چھایا ان پر نہ پڑ جائے۔ میرے وجود کی موجودگی سے بیاہی عورتیں اپنے شوہروں کو بچاتی ہیں کہ کہیں میں ان کے گھر میں نقب نہ لگا دوں۔
مجھے بیاہنے کو کوئی تیار نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قصور میرا ہو، اور مجھے تو پھر بھی اپنا لیے شاید مگر یہ ننھی سی جان میرے ساتھ کسی اور کے وجود کا بھی تو حصہ ہے نا۔ کسی اور کا وجود برداشت کرنا تو ایک مشرقی مرد کی شان کے خلاف ہے۔ اس لئے بس میں ایک ٹوٹی ہوئی زخمی اور بے کار مخلوق ہوں جس کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں۔ بس مجھے دھند کا یہ سفر خود طے کرنا ہے اور اکیلے ہی کرنا ہے، اسی کرب کے ساتھ۔
(نوٹ : میں نے صیغہ متکلم استعمال کیا ہے مگر یہ میری کہانی نہیں)

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim