ڈنمارک میں چالیس فیصد مسلمان اسلامی قوانین چاہتے ہیں


\"bicycle-copenhagen580\"ڈنمارک میں آباد دس میں سے چار مسلمان چاہتے ہیں کہ ڈینش قانون سازی مکمل یا جزوی طور پرقرآنی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ البتہ مقامی مسلمانوں کی اکثریت بدستور یہ سمجھتی ہے کہ ڈینش قانون سازی کی بنیاد صرف آئین ریاست پر ہونی چاہیے۔

روزنامہ یولینڈ پوسٹن کے ایک سروے کے نتیجے میں بتایا گیا ہے کہ گیارہ عشاریہ تین فیصد ڈینش مسلمان چاہتے ہیں کہ ڈینش قانون سازی صرف قرآن کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ جب کہ چھبیس عشاریہ پانچ فیصد کا کہنا ہے کہ ڈینش قانون سازی قرآن اور ڈینش آئین کی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ جن مسلمانوں سے اس بارے میں استفسار کیا گیا ہے، ان میں سے ترپن عشاریہ نو فیصد کا کہنا ہے کہ قانون سازی کے لئے ڈینش آئین ہی بنیاد ہو نا چاہیے اور تمام قوانین آئین ریاست کے مطابق بننے چاہئیں۔

آرھس یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ینس پیڑ فرؤلنڈ نے ان تنائج پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہووں نے روزنامہ یولینڈ پوسٹن کو بتایا کہ بیشتر مسلمان اگرچہ قانون سازی کی بنیاد آئین مملکت پر ہی رکھنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سبھی مسلمان اس پر متفق کیوں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین ہی ہماری جمہوریت اور قانون سازی کی بنیاد ہے اور آئین ہی سب کچھ کے لئے ایک ” فریم “ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نسلاً ڈینش باشندوں کی اتنی بڑی تعداد بھی اگر اس طرح جواب دیتی جیسے کہ سروے کے دوران (مسلمانوں کی جانب سے) سامنے آئے ہیں تو ان کے خیال میں جمہوری نظام کے متعلق ان لوگوں کی وفاداریوں پر تشویش ظاہر کی جاتی۔ یعنی انہیں کسی نی کسی طرح مشکوک سمجھا جاتا۔ ینس فرولنڈ نے کہا کہ جب مسلمانوں کی اتنی زیادہ تعداد کا یہ کہنا ہے کہ ڈینش قانون کو مکمل یا جزوی طور پر قرآن کی اساس پر ہونا چاہئےتو اس کا مطلب ہے کہ ا±ن کے نزدیک یہ ” غیر آئینی نظام “ ہے اور ملکی قانون غلط بنیاد پر استوار ہیں۔

آرھ±س میں فریڈنس مسجد کے امام رضوان منصور سے روزنامہ یولینڈ پوسٹن نے اسی بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے ا±ن مسلمانوں سے اتفاق کیا جو یہ کہتے ہیں کہ ڈینش قانون کی اساس قرآن اور آئین پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن اور ڈینش آئین ہم آہنگ ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ اگر ڈنمارک اسلامی ملک ہوتا تو پھر قانون سازی کی اساس صرف اور صرف قرآن پر ہوتی۔

تارکین وطن اور خاص کر مسلمانوں مخالف انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی کے امور انٹگریشن کے ترجمان مارٹن ہنرکسن نے روزنامہ یولینڈ کو بتایا کہ اگر کوئی اس طرح کے خیالات رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ڈینش سماج کا حصہ بننے کا خواہشمند نہیں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے امور انٹگریشن کے ترجمان ڈان یورگنسن بھی نےڈینش پیپلز پارٹی کے مارٹن ہنرکسن سے اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ڈنمارک میں اس طرح کا روّیہ نا قابل قبول ہے۔

(بشکریہ کاروان ، ناروے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments