ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں


پہلی سے پانچویں جماعت تک کے کسی بچے سے اس کے مستقبل کے عزائم کے بارے میں دریافت کریں۔ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتا ہے۔ ہمارے زمانے میں سکول چھہ سال کی عمر میں پہلی جماعت سے شروع ہوا کرتا تھا۔ پہلی جماعت میں تو ہم نے اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا جلد بازی جانا، مگر دوسری جماعت تک عمیق غور و فکر کے بعد ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہمیں پائلٹ بننا چاہیے۔ دوسرے ہم جماعتوں نے مختلف میدان چنے تھے۔ ان میں سے بیشتر فوجی بننا چاہتے تھے اور چند پولیس میں جا کر بقیہ زندگی مجرموں کے تعاقب میں بسر کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کو جیل میں ڈالیں یا موقع پر ہی مار پیٹ کر انصاف کر دیں۔

یہ سکول پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں تھا جس میں پڑھنے والے بیشتر بچے اساتذہ اور علما کے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ہماری کلاس کا کوئی بھی مستقبل میں استاد، سائنسدان، ادیب یا عالم بننے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ ہر ایک کو پولیس کی پستول، فوجی کی رائفل یا ہوائی جہاز کی مشین گن کی نال میں اپنا روشن مستقبل دکھائی دیتا تھا۔ آج کے بچے بھی مختلف نہیں ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ صنعتی عہد کے بعد اب معلومات کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اب جو ملک جتنا زیادہ علم پیدا کرتا ہے، وہ اتنا ہی امیر بھی ہو گا اور اتنا ہی زیادہ طاقتور بھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ذہن آج بھی قرون وسطی میں پھنسا ہوا ہے اور ہم بندوق کو ہی طاقت کی انتہا اور عزت کی نشانی سمجھتے ہیں؟

ارد گرد نظر دوڑائیے۔ ہم کتنے سائنسدانوں کو جانتے ہیں؟ کتنے فلسفیوں سے ہم واقف ہیں؟ کتنے تاریخ دانوں کا نام ہمیں اپنی کتابوں میں لکھا دکھائی دیتا ہے۔ کتنے ادیبوں، معیشت دانوں، استادوں اور کتنے موجدوں کے نام پر ہماری عمارات اور شاہراؤں کے نام ہیں؟ کتنے گلوکاروں، اداکاروں اور مصوروں کو ہم نے قومی سطح پر عزت دی ہے اور اپنے بچوں کو ان کے نام سے روشناس کرایا ہے؟
کتنے کامیاب تاجروں اور صنعت کاروں کو ہم نے بطور رول ماڈل اپنے بچوں کے سامنے پیش کیا ہے؟ جواب آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔

دوسری طرف کتنے جنگجوؤں کے کارنامے ہمیں ازبر ہیں۔ ہمارے نام ان کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے ہم دشمن پر ٹوٹ پڑنا چاہتے ہیں تاکہ اسے قرار واقعی سزا دے سکیں اور فتح کا جھنڈا لہرا سکیں۔

ہمارا سکول کا بچہ پائلٹ اور فوجی کیوں بننا چاہتا ہے اور وہ تھامس ایڈیسن یا امرتیا سین کیوں نہیں بننا چاہتا ہے؟ وہ دنیا کو ہتھیار سے فتح کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اسے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا، بحر ظلمات میں تجارتی جہاز چلانے سے زیادہ کیوں پسند ہے؟ کیا اس کی نظریاتی تعلیم ٹھیک ہے؟

دوسری طرف پرامن اور ترقی یافتہ معاشروں میں کیا ہوتا ہے؟ کیا ان کے بچے بھی جنگجو بننا چاہتے ہیں یا ان کا ہدف سٹیو جابز یا بل گیٹس بننا ہے؟ ان کے ہیرو کون ہیں؟ ان کا بچہ دنیا کی فتح کے ارادے کیوں نہیں رکھتا ہے؟ ان کی شاہراہوں، عمارتوں اور سکولوں کے نام عموماً کن لوگوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں؟

کیا وہ بچہ سکول میں خود سے سوچنا سیکھتا ہے یا اسے نظریاتی تعلیم کے نام پر تخیل سے عاری ایک روبوٹ بنایا جاتا ہے؟ کیا بندوق سے محبت کرنے والے بچے بڑے ہو کر بندوق اٹھانے کی طرف راغب نہیں ہوں گے؟ کیا ہمیں اپنے بچے کے سامنے ایسے ہیرو پیش کرنے کی ضرورت ہے جو جنگ و جدل نہیں بلکہ  انسانیت کی خدمت، ادب، ایجادات، معیشت، سیاست اور خوشحالی کی دنیا کی قابلِ تقلید مثالیں ہوں؟ ایسے قابل افراد جنہوں نے اپنے قلم، اپنے عمل اور اپنے ذہن سے اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں حصہ ڈالا ہے ہمارے بچوں کے ہیرو کے طور پر تراشے جائیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا؟

ترقی امن اور خوشحالی کس معاشرے میں زیادہ ہے؟ ہمیں شدت پسندی روکنے اور دنیا کا ایک اہم ملک بننے کے لیے اپنے ہیرو بدلنے ہوں گے۔

Published on: Mar 16, 2017

ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments