چاچا مڈی پھوک عرف زمن خان


گرمیوں میں جب دماغ زیادہ گرم ہوتا تو ہم لوگ گاؤں کا رخ کرتے۔ گاؤں نجف کا تھا، زمن چاچا نجف کے ابا ہیں۔ کیس یہ ہوتا تھا کہ ڈانٹ، ڈپٹ، گالی، پھٹکار وغیرہ نجف کے حصے میں آتا تھا، پیار، محبت، شغل نجف کے دوستوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے سارے دوست چاچا زمن کے بھی اتنے ہی دوست تھے۔ موٹر سائیکلوں میں تیل پانی پورا کر کے سب جوان تیار ہو جاتے تھے۔ چالیس پینتالیس منٹ کا فاصلہ تھا۔ وہ فاصلہ اس وقت ایسا زیادہ لگتا تھا کہ باقاعدہ سوچتے تھے کہ یار گاؤں جا کر ٹیوب ویل میں نہانا بہتر ہے یا ادھر ہی شہر میں موٹر چلا کر شاور کے نیچے رانجھا راضی کر لیا جائے۔ اب چالیس منٹ میں تو دفتر کا راستہ بھی پورا نہیں ہوتا، زندگی میں حرکت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اور برکت ایسی حرکتوں میں ہرگز نہیں ہوتی۔

زمن چاچا کی زندگی پر پوری فلم بنتی ہے، ایسا کردار جس کے آس پاس والے بھی مکمل کہانیاں رکھتے ہیں، کہیں زمن چاچا ہیرو ہوں گے، کہیں کہیں ولن بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے والا حیدر زمان خان ہیرو ہے، ہم دوستوں کے بچپن کا، جوانی کا، تو ادھر ہیرو والا سکرپٹ نظر آئے گا۔

محلے میں ان کی طاقت اور تیز دماغ کے بہت سے قصے مشہور تھے۔ برابر والے مہر صاحب کا گھر چھوڑ کر اگلا گھر زمن خان کا تھا۔ لکڑی کا ایک بڑا سا دروازہ ہوتا تھا، جس کے شاید تین یا چار فولڈنگ کواڑ تھے۔ ان سے آگے دن میں بھی اکثر اندھیرا سا نظر آتا تھا۔ وہاں چار پانچ بھینسیں بندھی ہوتی تھیں۔ پورے محلے کا واحد گھر تھا جہاں بھینسیں پائی جاتی تھیں۔ تو جو انٹرنس تھی وہ باقاعدہ بھینسوں کے باڑے کا منظر پیش کرتی تھی۔ شہری بچے جانوروں سے ذرا چالو رہتے ہیں اس لیے وہ دروازہ پھلانگنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ اتنا معلوم تھا کہ یہ زمن خان کا گھر ہے۔ ان کے ایک بیٹا ہے بڑا گورا چٹا سا، براؤن بالوں والا جو کہ باہر کم ہی نظر آتا تھا، اور باقی اس بیٹے کے دادا ذہن میں ہیں، لمبے چوڑے سے شفیق بزرگ، موٹر سائیکل بڑے اطمینان سے چلاتے ہوئے آ جا رہے ہوتے۔ اور امی یاد ہیں جو پہلے صرف نجف اور آپی کی تھیں، بعد میں حسنین کی بھی ہو گئیں۔

ایک مرتبہ کوئی بھینس کسی معاملے میں اڑی کر گئی، پورا قصہ یاد نہیں لیکن اتنا سننے میں آتا ہے کہ منہ سے پکڑ کر دو تین جھٹکوں میں زمن خان اسے زمین پر گرا کر قابو کیے ہوئے تھے، بعد میں غریب جانور دو تین ہفتے تک ٹوٹی ہوئی جبڑے کی ہڈی لیے گھومتا رہا تھا۔ یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا۔ ایسے بہت سے قصے ان کے بارے میں مشہور ہیں۔ کوئی شہد کی مکھی یا بھڑ انہیں کاٹ لے تو وہیں چپک کر آنجہانی ہو جاتی ہے، یہ تو سامنے کا واقعہ ہے۔ تین چار مرتبہ سانپوں نے کاٹا لیکن چاچا بڑے مزے سے ہسپتال پہنچے، رات گزار کر واپس آ گئے۔ ایک رات تو ہم سب بھی ساتھ تھے، موج مستی ہی چل رہی تھی، خدا زندگی دے لگتا ہی نہیں تھا سانپ کاٹے کا مریض آیا ہے۔ وہ کسی آیت کا ورد کرتے ہیں اور چھوٹا موٹا سانپ ویسے ہی بے اثر ہو جاتا ہے، آیت بھی ابھی دو چار ماہ پہلے انہوں نے بتائی تھی، ذہن میں نہیں ہے۔

سانپوں کو باقاعدہ پسند کرنا اور ان کے خوف میں نہ آنا چاچا جی سے ہی سیکھا تھا۔ جب بھی گاؤں جانا ہوتا کوئی نہ کوئی سانپ بیتی ہو جاتی۔ ایک دفعہ ابھی پہنچے ہی تھے کہ دو تین بچے دوڑتے ہوئے آئے اور آواز لگائی کہ زمن خان فلاں جگہ کالا ناگ نکل آیا ہے، جلدی سے پہنچو۔ لیجیے ایک لمبا سا ڈنڈا ان کے ہاتھ میں تھا، ایک ڈنڈا جس کے آگے ہک لگا ہوا تھا وہ فقیر نے تھاما اور چل سو چل۔ ہم تین چار لوگ ساتھ تھے۔ دو تین سو گز کے فاصلے پر سانپ نکلا تھا۔ کھیت اور پگڈنڈی کے بیچ میں ایک درخت تھا، اسی کی جڑ میں سانپ نظر آ رہا تھا۔ ہم لوگ جب قریب پہنچے تو سانپ باقاعدہ پھن کاڑھے کھڑا ہو گیا۔ ہک والا ڈنڈا زمن چاچا نے ہاتھ میں پکڑا اور سانپ کا منہ اس میں پھنسا کر ڈنڈا گھمانا شروع کر دیا۔ دوسرا ڈنڈا اب بچہ لوگ کے پاس تھا۔ اسے سانپ کے باقی جسم کو دبا کر ایک جگہ رکھنے میں استعمال کیا گیا۔ سانپ جب ہک میں منہ پھنسا کر ڈنڈے کے گرد لپٹنا شروع ہوا تو نظر آیا کہ کہانی کافی لمبی ہے۔ باقاعدہ چھ سات فٹ کا سانپ تھا۔ اب زمن چاچا آہستہ آہستہ سانپ کے قریب جانے لگے، پہلے وہ زمین پر اکڑوں بیٹھے اور تھوڑی دیر اس کی حرکت دیکھتے رہے، ایک دم جھپٹ کر اس کے منہ کے نیچے انگوٹھا رکھا ہے اور سانپ کا منہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ ایسا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یاد رکھیے کہ یہ جھپٹ جو ہے یہ بجلی کی سی ہونی چاہئیے، نہیں ہے تو وہ حکیم اور گھوڑے والا لطیفہ یاد کر لیجیے۔

سوال یہ ہے کہ سانپ مارا کیوں نہیں گیا۔ اصل میں کسی خاص موسم تک سانپ انہوں نے اپنے پاس رکھنا تھا اور پھر اس کا کوئی جوڑ توڑ کرنا تھا تو سانپ اس لیے زندہ پکڑا گیا۔ صحیح فلم اب شروع ہوتی ہے۔ سانپ کا منہ ان کے ہاتھ میں ہے، انگوٹھے سے دبا کر اسے بند کیا ہوا ہے، ململ کی ایک چادر قریب لے جاتے ہیں اور انگوٹھا ذرا سا ڈھیلا کرتے ہیں تو سانپ ململ پر جھپٹ کر اسے منہ میں دبا لیتا ہے۔ اب یہ ایک دم چادر کھینچتے ہیں تو سانپ کے زہریلے دانت باہر ہوتے ہیں۔ دو تین بار یہ عمل دہرایا جاتا ہے، تسلی سے زہر پروف کرنے کے بعد وہیں قریب بہتے پانی میں سانپ کو باقاعدہ اپنے ہاتھ سے کلیاں کرواتے ہیں تاکہ خون بند ہو جائے، اور ڈیرے تک واپس آتے آتے سانپ پورا کا پورا ان کا بازو جکڑ چکا ہوتا ہے۔

واپس آ کر اسے دو تین گالیاں دے کر زور زبردستی بازو سے الگ کرتے ہیں اور ایک گھڑے میں ڈال کر وہی ململ اس کے منہ (گھڑے کے) پر باندھ دیتے ہیں۔ اب سانپ گھڑے کے اندر پھنکار رہا ہے اور ہم سب ٹیوب ویل سے آنے والے نالے پر چارپائی بچھا کر لکڑی کے چولہے پر بنا مزیدار سالن کھا رہے ہیں۔ کھانا کھا کر ہنی کو ایک دم چہل سوجھتی ہے، بھائی دوبارہ جاتے ہیں چھوٹا سا تنکا لے کر سانپ کو گھڑے کے اندر چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ سانپ ایک بار غصے میں آ کر جو اچھلا تو وہ ململ کی گرہ کھول کر پھر باہر، ہنی سمیت ہم پانچ ایک ہی چارپائی پر اور چاچا زمن اسے دوبارہ قابو کرتے ہیں۔ سانپ کے ساتھ دو تین گالیاں ہنی کو بھی پڑتی ہیں اور بہرحال اس جوائنٹ وینچر کے بعد سانپ کا ڈر ہم لوگوں کے دل سے کافی حد تک نکل جاتا ہے۔

ٹیوب ویل پر نہاتے ہوئے بڑے بڑے سین ہو جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک دوست نے شرط لگائی کہ میں اس سوراخ سے گزر کر دکھاؤں گا جو یہ سامنے والی دیوار میں ہے۔ وہ سوراخ ایک فٹ ضرب ایک فٹ سے زیادہ ہرگز نہیں تھا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ ٹیوب ویل کا پانی نالے تک پہنچائے جہاں سے کھیتوں میں جا سکے۔ تو صاف پانی والے نالے کی موری میں سے گزر کر انہوں نے شاید سو روپے جیتنے تھے۔ اب ٹیوب ویل چل رہا ہے، نالا آدھا پانی سے بھرا ہوا ہے، بھائی صاحب نے سر ڈالا اور کندھے آگے کیے تو وہیں پھنس گئے۔ کانوں میں پانی جاتا ہے، آنکھیں کھلتی نہیں، نالے میں سر پھنسائے کندھے سکیڑ کر تڑپ رہے ہیں۔ ہم لوگ بھی ہنس ہی رہے تھے حلق پھاڑ پھاڑ کر، تو وہ کرتے رہے۔ آخر کرالنگ کرنے والے فوجیوں کی طرح بے چارے پتہ نہیں کتنے جتن کر کے دوسری طرف سے برآمد ہوئے لیکن واقعہ یادگار ہو گیا۔ نام اسی وجہ سے نہیں لکھا کہ باقی دنیا کو تو معلوم نہ ہو۔

پھر اسد اور ہنی زبردستی ایک دوسرے کو پانی میں غوطے دلاتے تھے، کبھی فقیر کی باری آتی تو باقاعدہ ہاتھوں پر کاٹ کر دشمنوں سے جان چھڑائی جاتی۔ کان میں پانی ایک مرتبہ گیا تھا، بڑی اذیت کے دن تھے، اس کے بعد سے ایسا کوئی رسک لینے سے توبہ کر لی۔ جو زبردستی کرے اسے مار مار کر دنبہ بنا دیجیے، جائز ہے۔ یہ ممکن نہ ہو تو ناخن اور دانتوں سے کام چلائیے۔ دوستوں یاروں پر اس سے زیادہ شفقت نہیں کرنی چاہئیے۔

زمن چاچا کا دل شہر میں نہیں لگتا تھا۔ وہ اس زمانے میں زیادہ وقت گاؤں کے ڈیرے پر گزارتے تھے۔ ایک چھوٹا سا بچہ ان کا منشی ہوتا تھا جس کے ہاتھ میں ان کی مختلف تھیلیاں ہوتی تھیں۔ منشی باقاعدہ چھ سات برس سے زیادہ کا نہیں تھا۔ ان تھیلیوں میں کچھ پرچیاں ہوتی تھیں جن پر ادھار وصولنے کی تفصیلات ہوتی تھیں۔ ایک دو میں نیند، گلے اور بلڈ پریشر کی دوائیاں ہوتی تھیں، باقی تھیلیوں میں مختلف حکیمی اجزا چاچا کے ساتھ ساتھ گھومتے تھے۔ منشی بہت چھوٹا تھا تو ایک بار بغیر کپڑوں کے ڈیرے میں آ گیا۔ چاچا نے آواز لگائی، او ڈیواں ۔۔۔۔۔ ایکوں کئی شے پہنا ڈیو اج خالی ٹائی بدھی ودا اے۔ (ابے تمہاری ۔۔۔۔۔ اسے کچھ پہنا کے بھیجو آج خالی ٹائی لگا کر آ گیا ہے۔) تو چاچا جب بھی شہر آتے منشی ان کے پیچھے تھیلیاں سنبھالے موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوتا تھا۔ ڈیرے پر موجود کتوں، کبوتروں، طوطوں، بھینسوں، مرغوں، اور بہت سے جانوروں کا پارٹ ٹائم رکھوالا اور دوست بھی منشی تھا۔ کچھ عرصے کے لیے ایک اور ڈیوٹی بھی منشی کے ذمے لگی۔

چاچا گاؤں میں رہ کر بور ہو گئے تھے تو انہوں نے سوچا کہ شہر شفٹ ہوا جائے۔ شہر جا کر اب کریں گے کیا، یہ ایک نیا مسئلہ تھا۔ وہ جب گاؤں سے شہر آ رہے ہوتے تو راستے میں جو بھی ریڑھی نظر آتی یا کوئی دکان ہوتی، وہاں رکتے، ریٹ زیادہ پوچھتے، خریداری کم کرتے، پھر بھی گھر پہنچتے تک ان کی موٹر سائیکل کے دونوں طرف بہت سے تھیلے لٹکے ہوتے تھے۔ ان سب تھیلوں میں پھل فروٹ اور باقی سودا سلف ہوتا تھا جو ضروری ہو نہ ہو، بس ہوتا تھا۔ تو اس مول تول کے شوق میں دکان کر لی۔ اب چاچا جی محلے میں کریانے کی ایک عدد دکان کے مالک تھے۔ کولڈ ڈرنک والوں سے ایک فریزر بھی منگوا کر رکھ لیا، اسی میں دیسی دودھ سوڈا اور لیمن سوڈا بھی پڑی ہوتی، ذاتی استعمال کا دہی بھی کونے میں پڑا ہوتا، کئی ایسی چیزیں ہوتیں جنہیں دیکھ کر وہ فریزیر کم اور الماری زیادہ لگتا تھا۔ دکان میں روزمرہ ضرورت کی تمام چیزیں تھیں۔ منشی اب وہاں کا بھی منشی تھا۔ دکان داری پیسوں سے زیادہ ادھار پر چلتی تھی۔ ادھار وصولنے کے معاملے میں چاچا کو اپنے آپ پر بھروسہ تھا، رج کے سودا دئیے جاتے اور ڈائری پر لکھتے جاتے۔ جب منشی بیٹھتا تو بعض اوقات سودا لینے والے خود ہی چیزیں لے کر ڈائری پر الٹا سلٹا لکھ دیتے اور یہ جا وہ جا۔ منشی بے چارہ پڑھنا لکھنا کیا جانے وہ تو انسان پر بھروسہ کرتا تھا، جو اس کا مالک کرتا ہے۔ تو چاچا جی جب آتے بھنبھور شہر اچھا خاصا لٹ چکا ہوتا تھا۔ منشی کا نیا نام “مڈی پھوک” رکھا گیا۔ مطلب مال پانی اڑانے والا۔ شروع میں یہ نام صرف منشی کا تھا، پھر آہستہ آہستہ جو بھی چھوٹا بچہ دکان پر آتا اسے “آ بئی مڈی پھوک” کہہ کر بلاتے، جوان “آ بئی عیاش مکڑے” کا خطاب پاتے، یہ پیار کا ایک انداز تھا۔ تو آہستہ آہستہ چاچا جی خود ہی “چاچا مڈی پھوک” مشہور ہو گئے۔ دکان آہستہ آہستہ انجام کی طرف بڑھی، نجف بھی کبھی کبھار وصولیاں کرتا لیکن پٹھان آدمی، ذہن کا تیز، لڑ تو بہترین سکتا ہے، مال وصولنا چیزے دیگر است۔ دکان بڑھائی گئی، فریزر گھر میں آ گیا، پھر وہ فریزر گاؤں چلا گیا، اس میں آخری بار بٹیر، مرغی، ساگ، مکھن، ملائی، گڑ، ٹماٹر اور کئی دوسری تھیلیاں دیکھی گئی تھیں۔ وہ کھاتہ آج بھی شاید دلوں میں کہیں تازہ ہو۔ پلے سے دئیے ہوئے پیسے اور کہیں سے ملی عزت ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

زمن چاچا دوست یار آدمی ہیں، بچوں سے بوڑھوں تک سبھی کے دوست ہیں، نجف اپنے باپ سے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنی اس کی جان اپنے چچا سے جاتی تھی۔ چچا کی موٹر سائیکل سے آتی آواز سن کر ایف ایس سی میں بھی جوان کونے ڈھونڈتا تھا جب کہ زمن چاچا کا آنا جانا کسی ٹینشن کا باعث نہیں ہوتا تھا۔ شروع میں ہم لوگ زمن چاچا سے چھپ کر سگریٹ پیتے تھے۔ حسب معمول سارے سگریٹ حسنین پیتا تھا۔ پھر حسنین ہی نے چاچا کے سامنے سگریٹ کا افتتاح کیا تو سب کے جھاکے کھل گئے، پھر چاچا کے سگریٹ بھی چرائے جانے لگے۔ سب سے زیادہ مزا تب آتا جب ان کے سگریٹ کی ڈبی پر اسی کا سیلوفین کور ہم لوگ الٹا کر کے چڑھا دیتے تھے۔ اب وہ آئے ہیں پیکٹ کھولتے ہیں، کھل ہی نہیں رہا، نہ کوئی جگہ نظر آتی ہے کہ سیل کونے سے کھلے، ایک دم غصے میں آ کر دو چار سرائیکی بھری گالیاں دیتے، سیلوفین پیکنگ ہٹا کر سگریٹ نکالتے اور دو گھنٹے بعد پیکٹ پھر ویسا ہی ہوتا۔ کئی بار ہم لوگ سگریٹ الٹے کر کے رکھ دیتے۔ ویسے ہی نکال کر جلا لیتے اور بعد میں نام لے لے کر سب کی کلاس ہوتی۔

گہری رنگت، سفید اور کالے مکس بال، بہترین طریقے سے کی گئی شیو، مکمل مونچھیں، نسبتا دراز قد، آگے کو بڑھا پیٹ، قمیص کے نیچے بنڈی پہنے اور کبھی کبھی صرف بنڈی کے ساتھ دھوتی باندھے زمن چاچا آج بھی ویسے ہی دکھتے ہیں جیسے بیس پچیس برس پہلے تھے۔ مسئلے وسلے سب کے ساتھ چلتے ہیں، ان کے ساتھ بھی ہیں لیکن نام خدا ایک دم فٹ نظر آتے ہیں۔ اس وقت بھی ملنے پر کہتے تھے، “او بس یار، ہن مڈی مک گئی اے” آج بھی یہی کہتے ہیں، خدا خوش رکھے، ہمارے سروں پر سلامت رکھے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain