دنیا کی بیس مثبت خبریں، پر ہم کیا کریں؟


 یقین رکھیے کہ مہذب دنیا ان جھگڑوں سے بہت آگے نکل گئی ہے جو ہمارے لیے زندگی اور موت سے کم نہیں۔ ارد گرد پھیلی مایوسی، جو تم پیزار اور اور لوگوں کو خانہ در خانہ بانٹتی بحث سے اوپر اٹھ کر اس خوبصورت دنیا کو ایک نظر دیکھیں جہاں لوگ اس سعی میں لگے ہیں کہ ہر آنے والے کل کو گزرے ہوئے کل سے بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں میں سے ایک نام کینیڈا کے خلاباز کرنل کرس ہیڈ فیلڈ کا ہے۔ کرس ہیڈ فیلڈ کی عمر 57 سال ہے اور سن 2001 میں وہ خلا میں چہل قدمی کرنے والے پہلے کینیڈین بنے تھے۔ کرس ہیڈ فیلڈ ریٹائرمنٹ کے بعد جہاں اور بہت سے کام کر رہے ہیں وہاں سوشل میڈیا پر بھی وہ بہت متحرک ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک مختصر ویڈیو ریلیز کی جس میں انہوں نے گزرے سال کی بیس اہم مثبت خبروں کا ذکر کیا۔ یہ وہ خبریں تھیں جو مین اسٹریم میڈیا پر جگہ نہ بنا پائیں کہ ان میں نہ سنسنی خیزی ہے نہ مسالہ جات ۔ یہ بس اچھی باتیں ہیں۔ آئیے آج ان کی نظر سے دنیا کی ان بیس بڑی مثبت تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں۔ ان ساری خبروں کا تعلق ان قوموں سے ہے جنہوں نے اپنے لوگوں اور اس خوبصورت زمین سے جڑی اپنی ذمہ داریوں کا اعادہ کیا اور بہت کچھ بدل ڈالا۔ تو آئیے ایک نظر ہم بھی ڈال لیتے ہیں۔

1۔ چین میں پایا جانے والا جائنٹ پانڈا برسوں کی ان تھک کوششوں کے بعد اب معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا ہے۔

2۔ سمندر کی صفائی کے عالمی منصوبے ” دی اوشن کلین اپ پراجیکٹ” کے تحت دنیا کے سمندروں میں پائے جانے پلاسٹک کے خطرناک فضلے کا چالیس فی صد حصہ صاف کرنا ممکن ہو گا۔ اس پراجیکٹ کا کام اس سال شروع ہے۔

3۔ چین نے ہاتھی دانت کی تجارت کو مکمل ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔

4۔ امریکی بے گھر ریٹائرڈ فوجیوں کی تعداد میں پچھلے دس سال میں پچاس فی صد کمی آ گئی ہے۔

5۔ “آئس بکٹ چیلنج” یعنی اپنے اوپر برفیلا پانی ڈال کر ویڈیو بنانے کے چیلنج کا مقصد ایک انتہائی خطرناک بیماری اے ایل ایس ALS کے بارے میں آگاہی پھیلانا تھا۔ اس چیلنج کے ذریعے رضاکارانہ طور پر اے ایل ایس تحقیقی ٹیم کو جو پیسہ ملا اس کی مدد سے وہ ایک ایسے جین کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو اس بیماری کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ اس دریافت سے اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے ۔

6۔ چین نے کوئلے کے نئے ذخائر کی تلاش پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سن 2020 تک ان کی معیشت کا 15 فی صد توانائی کے قابل تجدید اور متبادل ذرائع پر منتقل ہو جائے گا ۔ (یاد رہے کہ سی پیک کے احسان کے تحت پاکستان میں لگنے والے کوئلے کے پلانٹ پاکستان کو اربوں ڈالر میں پڑ رہے ہیں)

7- عظیم الجثہ سمندری گائے یا مناٹی بھی اب معدومی کے خطرے سے دو چار نسلوں کی فہرست سے باہر آ گئی ہے۔ سمندری حیات کی بقا کے لیے یہ ایک اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے

8- کولمبیا کی فوج اور حکومت مخالف باغیوں میں امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ایک طویل جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے ۔اس جنگ میں ستر لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے

9۔ ناسا کا اسپیس ڈرون 44 کروڑ میل سے زیادہ مسافت طے کر کے سیارہ مشتری کے مدار میں داخل ہو گیا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی معلومات سے سائنسدان یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے نظام شمسی کا آغاز کیسے ہوا تھا۔

10۔ کینیڈا نے گریٹ بئیر رین فاریسٹ کے پچاسی فیصد کو مکمل محفوظ بنا لیا ہے۔ اب اس کے درخت اور اس کی حیات ہر خطرے سے آزاد ہیں۔ جنگلات کا یہ سلسلہ دنیا کے عظیم ترین جنگلات میں سے ایک ہے۔

11۔ شمالی، وسطی اور جنوبی امریکہ سے خسرے کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

12۔ افریقہ کے ایک غریب ملک ملاوی میں برسوں کی کوشش کے بعد بچوں میں HIV کی شرح میں 67 فی صد کمی آ گئی ہے ۔

13۔ دنیا کے بیس ممالک نے چالیس سمندری حیاتیاتی زون بنا لیے ہیں جنہیں میرین پارک کہا جاتا ہے۔ ان کا مقصد سمندری حیات کا تحفظ ہے۔ پارکس کا مجموعی رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے زیادہ ہے۔

14۔ اسرائیل اب اپنے تازہ پانی کا 55 فی صد سمندری پانی کے ذریعے حاصل کر رہا ہے۔ کھارے پانی کو میٹھا بنانے کی اس کامیابی کے ذریعے اسرائیل نے اپنے صحراؤں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔

 -15کینیڈا نے ایبولا وائرس کی نئی ویکسین بنا لی ہے جس کی کامیابی کی شرح سو فیصد ہے۔

16۔ پچھلے پچیس سال میں دنیا میں پائے جانے والا خوراک کا بحران اپنی کم ترین سطح پر آ گیا ہے

17۔ سو سال میں پہلی دفعہ ایشیائی شیر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

18۔ آئن سٹائن کا نظریہ امواج ثقل ایک صدی کے بعد درست قرار پایا۔ اس نظریے نے سائنس کے جہان حیرت کے نئے در وا کر دیے ہیں

19۔ کوسٹاریکا کی نوے فی صد توانائی اب قابل تجدید ذرائع سے پیدا کی جارہی ہے۔

20۔ ہندوستان نے آٹھ لاکھ رضاکاروں کی مدد سے چوبیس گھنٹے میں 5 کروڑ کی شجر کاری کا ریکارڈ قائم کیا ۔

ہو سکتا ہے آپ کو یہ خبریں بے معنی لگی ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کی توجہ اب بھی سوشل میڈیا کی پابندی۔ حجاب کے اضافی نمبروں، بلاگرز کی مشکیں کسنے، سیاسی رہنماؤں پر جوتا کاری اور متبادل بیانیے کی بحث سے نہ ہٹی ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کو ان میں خبریت نظر نہ آئی ہو۔ پر ایک لمحے کو، صرف ایک لمحے کو نصف نصف دن کی لوڈ شیڈنگ، کوئلے کے زہریلے دھویں خارج کرتے بجلی گھر، معدوم ہوتے سنو لیپرڈ اور مار خور اور ان کی لاشوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے سینیٹر، گیسٹرو، ایبولا اور کانگو وائرس سے مرتے بچوں، کیماڑی اور کلفٹن کے غلیظ ساحلوں اور گوادر کے اسی جانب بڑھتے پانیوں، ہسپتالوں میں رینگتی موت، کوہستان اور زیارت کے چٹیل ہوتے پہاڑوں، پولیو سے معذور ہوتے نونہالوں، تھر کے قحط زدہ علاقوں، کراچی میں بیس بیس ہزار کے بکتے پانی کے ٹینکروں، مذہبی شدت پسندی اور قومیت کے نام پر گرتی لاشوں اور ہماری سائنس کی کتابوں میں پڑھائے جانے والی لایعنی باتوں پر ایک نظر ڈال لیجئے گا۔ پھر دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھئے گا کہ ہم آخر کر کیا رہے ہیں؟ جا کہاں رہے ہیں؟ اور سوچ کیا رہے ہیں؟

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad