برقعوں کی تصویری درجہ بندی اور امتحانی نمبروں کی تقسیم


پنجاب کے محکمہ تعلیم کے وزیر با تدبیر جناب رضا علی گیلانی صاحب نے پنجاب میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز کی ایک سمری تیار کی ہے۔ ان تجاویز میں عورتوں کو حجاب کے استعمال کے حوالے مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر درجے کو تصاویر سے ؤاضح کیا گیا ہے۔ عورتوں کے ساتھ محکمہ تعلیم کا سلوک انہی درجوں کے مطابق ہو گا۔ اس کے اہم نکات کچھ یوں ہیں۔

اعلی ترین درجہ

وہ خواتین جو گھروں سے کبھی باہر نہیں نکلیں، سب سے اعلی درجے پر فائز ہوں گی اور انہیں سو میں سو نمبر دئے جائیں گے۔ ڈگری ان کی دہلیز پر پہنچا دی جائے گی۔ آپ فکر نہ کریں، ڈگری پر ان کے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے کیونکہ اس سے پردہ خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ڈگری پر ان کے گھر کے مردوں کے نام لکھے ہوں گے۔ جیسے کہ زوجہ فلاں، یا دختر فلاں یا منگیتر فلاں وغیرہ۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ اس درجے میں پائی جانے والی خواتین کی تصاویر پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔

کافی اعلی مگر دوسرا درجہ

اس کلاس میں ان معمولی درجے کی بے غیرت عورتوں کا شمار ہو گا جو گھر سے باہر نکلتی ہیں مگر مکمل برقعے میںں لپٹی ہوتی ہیں، جیسے کہ نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ ایسی خواتین کو بھی امتحان دینے کی ضرورت نہیں۔ ٹوپی برقع پہننے کی وجہ سے انہیں نوے فیصد نمبر ملیں گے۔ باقی دس نمبر حاصل کرنے کے لئے انہیں الہدا کے دس درس اٹینڈ کرنے ہوں گے اور دعائے قنوت سنانا ہو گا۔ یہ سزا اس لئے ہے تاکہ وہ سبق سیکھ سکیں اور آئندہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اس طریقے سے وہ بھی پاکیزگی کے اعلی ترین درجے پر فائز ہو سکیں گی۔ وزیر صاحب کا خیال ہے کہ آخر خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

تیسرے درجے کی کارکردگی دکھانے والی خواتین

یہ بھی کافی اونچا درجہ ہے مگر امتحانی معیار پر پھر بھی تیسرے نمبر پر پڑتا ہے۔ آنکھیں پردے سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کو ستر فیصد نمبر تو بغیر امتحان دئے ملیں گے مگر باقی کے نمبروں کے لئے انہیں کافی پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ انہیں اپنے محلے کے امدرس سنٹر میں تیس تیس درس اٹینڈ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقل ممبرشپ بھی درکار ہو گی۔ مسلسل محنت ہی اننہیں اس بات کا احساس دلائے گی کہ آنکھوں کا برقعے سے باہر ہونا ان کے لئے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

مندرجہ ذیل تصویر کو اوپر والی تصویر سے الگ تصور کیا جائے گا۔ اتنی بولڈ اور نمایاں آنکھیں، اتنی محنت سے بنائی گئی بھنویں اور اور تقریبا آدھی ناک کا ڈھکا ہوا نہ ہونا۔ یہ تو دس نمبر کی حقدار بھی نہیں ہوں گی۔ انہیں دیکھ کر تو بے چارے مردوں کو اچھا خاصا کنٹرول کرنا پڑتا ہے ورنہ مشکل ہو جائے۔ اور آپ نے دیکھا کہ مرد ہر دفعہ تو کنٹرول نہین کر پاتے اور پھر طوفان آتے ہی رہتے ہیں۔

جو روپ اس نیچے والی تصویر میں دکھایا گیا ہے یہ یقینا کسی رعایت کی حقدار نہیں ہے۔ بس اگر انہیں امتحان میں بیٹھنے دیا جائے اور ان کے نمبر نہ کاٹے جائیں تو یہ رعایت ایسے لباس والی خواتین کے لئے کافی ہے۔

جو خواتین درج ذیل قسم کا لباس پہنتی ہیں ان کے لئے تو ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیئے، یونیورسٹیاں اور ڈگریاں تو بہت دور کی باتیں ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی وجہ سے یونیورسٹیوں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ اگر کبھی یونیورسٹی پہنچ ہی جائیں تو انہیں امتحان میںں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔

خواتین کی ایک قسم وہ ہے جو بے ضرر ہیں کیونکہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی ہو اول تو وہ بولتی ہی نہیں اور اگر کبھی کوئی بول ہی پڑے تو ان کی آواز کوئی سنتا ہی نہیں۔ یہ خواتین معاشرے اور مردوں کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کا تعلیم یا امتحان سے کیا لینا دینا۔ ان کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے کام چل رہا ہے چلتا رہے۔ ان کا عمومی روپ نیچے کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ مسکرا ضرور رہی ہیں مگر ان کی مسکراہٹ کسی طور بھی ڈرانے دھمکانے والی نہیں ہے۔ اس میں بغاوت کی کوئی علامت نہیں ہے۔ مرد بے خوف اور مطمئن رہتے ہیں۔

کچھ مزید اصول و ضوابط

جو خواتین اپنے شوہروں کو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی اجازت دینے میں حیل وحجت یا بخل سے کام لیتی ہیں انہیں فیل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اگر کبھی کوئی ڈگری حاصل کی ہو گی تو ان سے واپس لے لی جائے گی۔

جو خواتین مانع حمل ادویات کے استعمال کی طرف راغب پائی جائیں گی انہیں بھی کوئی تعلیمی ڈگری رکھنے کا حق نہیں ہو گا اور حکومت پر یہ لازم ہو گا کہ ان سے ان کی ڈگریاں واپس لے لی جائیں۔ ہاں ہمارا تعلیمی نظام اپنے طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایسی معلومات کو خواتین سے دور ہی رکھا جائے تاکہ معاشرے میں ایسے مسائل جنم ہی نہ لیں۔

جو خواتین موبائل فون رکھتی ہیں، انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہیں اور فیس بک یا ٹوئٹر پر ان کا اکاؤنٹ اور تصویر ہے وہ نہ صرف یہ کہ کسی رعایت کی حقدار نہیں بلکہ ان کے خلاف تو تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمے چلانے ہوں گے۔ وہ معاشرے اور مردوں کے لئے شدید خطرہ ہیں۔

اپنی مرضی کی شادی کرنے پر بضد خواتین کے لئے ابھی تک کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا سدباب ہمارا معاشرہ بخوبی کر رہا ہے۔ ایسا کم ہی ہو گا کہ انہیں کوئی سکون سے اپنی عمر پوری کرنے دے گا۔ لہذا پنجاب حکومت کے محکمہ تعلیم کو ان کی فکر کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہمارے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik