اب پاناما سے آگے بھی کوئی بات کریں!


 پاکستان کے وزیرعظم نواز شریف ملک میں لبرل بیانیہ کے حق میں بیانات دینے کے علاوہ ترقی کے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے خوشحال مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک بھر کے صحافی ، مبصر اور سیاستدان بے صبری سے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں جو عدالت کے 5 رکنی بینچ نے 23 فروری کو یہ کہتے ہوئے محفوظ کر لیا تھا کہ اس معاملہ میں بے شمار دستاویزات اور معلومات سامنے آئی ہیں، جن کا مطالعہ کرنے میں وقت صرف ہوگا۔ اس لئے مختصر حکم نامہ جاری نہیں کیا جا سکتا اور بعد میں تفصیلی فیصلہ جاری ہوگا۔ اب اس متوقع فیصلہ کے انتظار میں پوری قوم بے صبری کی تمام حدود پھلانگ چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کا الیکٹرانک میڈیا ہے جس کے درجنوں ٹاک شوز اور سینکڑوں مبصرین کو بحث کرنے اور اپنی علمی اصابت سامنے لانے کےلئے آسان موضوعات اور نان ایشوزکی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کبھی پھٹیچر اور ریلو کٹا کی بحث میں صلاحیت صرف کی جاتی ہے اور کبھی قومی اسمبلی کے دو اراکین کی باہمی چپقلش اور تلخ کلامی پر گھنٹوں پر محیط پروگروام نشر ہوتے ہیں۔ فطری طور سے پاناما کیس اس وقت مباحث کا مرغوب ترین موضوع ہے۔ ماہرین اور مبصر اپنی اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق اندازے قائم کرنے میں مصروف ہیں جبکہ درحقیقت عدالت کے متوقع فیصلہ پر خیال آرائی کے گھوڑے دوڑانا اگر توہین عدالت نہ بھی ہو تو بھی یہ ایک ناجائز اور نامناسب بات ہے۔ اس طرح ملک کا وزیراعظم بااختیار اور پرجوش ہونے کے باوجود راصل حالات کی ڈور سے بندھا ہے۔ کوئی نہیں جانتا آنے والا کل اور سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ سیاسی صورتحال کےلئے کیا پیغام لے کر آتا ہے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فروری کے آخر میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ کوئی مقبول فیصلہ دینے کی بجائے کیس کے میرٹ پر فیصلہ دیں گے تاکہ 20 برس بعد بھی یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ تاہم پاناما کیس میں انصاف کھوجنا ہی سپریم کورٹ کے ججوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دونوں طرف سے الزامات اور دعوے تو کئے گئے ہیں لیکن ایسے ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے گئے جن پر عدالت عظمیٰ کے 5 جج اپنے فیصلے کی بنیاد رکھ سکیں۔ جسٹس کھوسہ نے آخری ریمارکس میں خود یہ واضح کیا ہے کہ اس مقدمہ میں پیش کی گئی 99 فیصد سے زائد دستاویزات ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہیں۔ اب یہ جج ردی کاغذات کے اس ڈھیر میں سے کوئی ایسی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جس کے راستے پر چلتے ہوئے یہ قوم اپنی منزل پا سکے۔ یہی عدالت کے 5 رکنی بینچ کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ اس کے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس میں الزامات کی بنیاد پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں لیکن ملزم کو سزا دینے کے پرزور دعوے موجود ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم سمیت جن افراد پر بدعنوانی کے الزامات عائد ہیں وہ اپنی بے گناہی کا کوئی ٹھوس ثبوت تو سامنے نہیں لائے لیکن الزام لگانے والوں کو بدنیت اور جھوٹا قرار دے کر کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سوال پر قوم بلاشبہ دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ قوم بہرصورت تقسیم ہی رہے گی۔ اس وقت سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کرنے والے کل اس پر سیاسی مصلحت کوشی کا الزام لگاتے ہوئے دیر نہیں لگائیں گے۔ کیونکہ اہل پاکستان نے یہ مزاج راسخ کر لیا ہے کہ اگر کوئی عدالت ان کے حق میں فیصلہ نہیں دیتی تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کمرہ عدالت میں انصاف کا خون ہوا ہے۔

پاکستان میں غیر ضروری موضوعات پر طول طویل بحث کے ذریعے اور پاناما کیس کے انتظار میں اگرچہ وقت کو تھام لیا گیا ہے لیکن دنیا میں حالات کا دھارا اسی تیزی سے جاری و ساری ہے اور ان میں سے بہت سے معاملات پاکستان اور اہل پاکستان پر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز بھی ہو رہے ہیں۔ ان میں امریکہ میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی ہیں اور بھارت میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی انتخابات میں حالیہ کامیابی بھی شامل ہے۔ امریکی کانگریس میں ایک بار پھر یہ قرارداد سامنے لائی گئی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دیا جائے۔ بھارت کی لابی کسی نہ کسی صورت یہ قرارداد منظور کروانا چاہتی ہے۔ تاہم متضاد سیاسی بیانات اور صدارتی احکامات جاری کرنے کی شہرت رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان پر اس قسم کی الزام تراشی اور پابندیوں پر مشتمل امریکی پالیسی اس خطے میں امریکہ کے مفادات کےلئے نقصان دہ ہوگی۔

داخلی مسائل میں گھرے ٹرمپ کو ابھی تک اہم خارجہ امور پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ملی ہے۔ وہ سب سے پہلے ایسے فیصلے کرنا چاہتے ہیں جو ان کے انتخابی وعدوں کا حصہ تھے اور جن سے امریکہ کے عوام کو فوری طور پر یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کے صدر اپنے وعدوں پر عمل کر رہے ہیں۔ اسی لئے سب سے پہلے نہ صرف یہ کہ میکسیکو کی سرحد کے ساتھ اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا بلکہ اس کی لاگت بھی میکسیکو سے وصول کرنے کا اعلان ہوا۔ میکسیکو نے اس قسم کی گیدڑ بھبکیوں کو مسترد کیا تو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ میکسیکو کی درآمدات پر ٹیکس عائد کرکے یہ قیمت وصول کی جائے گی۔ جب یہ اندازہ ہوا کہ اس کا بار تو براہ راست امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا تو نومنتخب صدر نے اس حوالے سے ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ روک لیا۔ اس کے ساتھ ہی عام شہریوں کو بنیادی طبی سہولت فراہم کرنے والے قانون المعروف اوباما کیئر کو تبدیل کرنے کےلئے تجاویز سامنے لائی گئی ہیں۔ اب کانگریس کی کمیٹی نے تخمینہ لگایا ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرنے سے 20 ملین امریکی ہیلتھ انشورنس سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے جو ری پبلکن پارٹی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مقبولیت کے غبارے سے اچانک ہوا نکال سکتا ہے۔ اسی لئے اب آہستہ آہستہ کئی سینیٹرز ان ترامیم کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف براہ راست مہم جوئی کرتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے۔ اپنے حلقہ انتخاب کو مطمئن کرنے کےلئے انہوں نے 7 مسلمان ملکوں کے باشندوں پر امریکہ سفر کرنے کی عارضی پابندی عائد کی تھی۔ تاہم امریکی عدالتوں نے اسے ملک کی بنیادی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اس فیصلہ پر جزبز ہونے کے باوجود صدر نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے سے گریز کیا اور گزشتہ ہفتے کے دوران 6 اسلامی ملکوں پر سفر کی پابندیاں عائد کرنے کا نیا حکم نامہ جاری کیا۔ اس فہرست میں عراق کو نکال دیا گیا ہے کیونکہ صدر کو بتایا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ یا داعش کے خلاف کارروائی کےلئے عراق کا تعاون بے حد ضروری ہے۔ اب ہوائی کی ایک عدالت نے اس حکم کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ اب اس حوالے سے نئے سرے سے مقدمہ بازی کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اس دوران شمالی کوریا کو متنبہ کرنے کےلئے صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا میں امریکی سی آئی اے کو ڈرون حملوں کے خصوصی اختیارات تفویض کئے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ سعودی عرب کو امریکہ میں زیادہ سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ سعودی عرب ایران کے خلاف امریکی حکمت عملی میں تبدیلی سے مطمئن ہے۔ شہزادہ محمد کی خواہش تھی کہ امریکہ عراق اور شام میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے۔ اسی لئے 6 مسلمان ملکوں کے باشندوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے سعودی عرب کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ امریکہ کا داخلی معاملہ ہے اور اسے مسلمانوں کے خلاف پابندی نہیں کہا جا سکتا۔ حالانکہ امریکہ میں انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والی تنظیمیں صدارتی حکم کو ایک خاص عقیدہ کو ٹارگٹ کرنے کی مذموم کوشش قرار دے چکی ہیں۔ اس طرح امریکہ اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے مقصد میں آگے بڑھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ جلد ہی سعودی عرب کو اعلیٰ کارکردگی کے حامل میزائل سسٹم کے فروخت کی اجازت دینے والے ہیں۔ سابق صدر اوباما نے یمن میں سعودی فوجی کارروائی کی وجہ سے اس کی فروخت روکنے کا حکم دیا تھا۔

اس دوران وزیراعظم کے مشیر خارجہ اور سرتاج عزیز نے لندن میں افغان صدر اشرف غنی کے سلامتی کے مشیر سے ملاقات کی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات دور کرنے کےلئے بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ ماہ سہون شریف میں دہشت گرد حملہ کے بعد پاک افغان سرحد کو بند کر دیا تھا۔ اب اس بندش کو ایک ماہ مکمل ہو چکا ہے لیکن پاکستان نے افغان شہریوں کو ملک سے جانے کا موقع دینے کےلئے دو روز کےلئے طورخم اور چمن پر بارڈر کو کھولا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں طرف سے ٹریفک مکمل طور سے بند ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تاجروں کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ افغانستان جانے والے اسباب سے بھرے سینکڑوں کنٹینر کراچی کی بندرگاہ پر جمع ہو رہے ہیں جبکہ دونوں ملک کوئی قابل عمل فارمولا تلاش نہیں کر سکے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے افغانستان میں موجود عناصر کرتے ہیں جنہیں بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کی مجبوریاں جانتے ہوئے بھی پاکستان افغانستان پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔ لیکن اسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مستقل طور سے افغان سرحد بند نہیں رکھ سکتا اور نہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ اس لئے امید کرنی چاہئے کہ لندن میں ہونے والے مذاکرات بار آور ثابت ہوں گے اور دونوں ملک تعلقات بحال کرنے کےلئے مؤثر اقدامات کر سکیں گے۔ سرحدوں پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنا دونوں ملکوں کےلئے ضروری ہے لیکن سرحدی بندش اس مسئلہ کا پائیدار حل نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کو مشرقی سرحد پر بھارت کی جارحیت کا سامنا ہے۔ اس لئے اسے مغرب میں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بیک وقت دو سرحدوں پر محاذ آرائی کی حالت پیدا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان میں امریکی افواج کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان اور داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ کےلئے وہاں افواج میں اضافہ کا فیصلہ کرے۔ اس صورتحال میں پاکستان الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے متعدد مفاد وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ 30 لاکھ کے لگ بھگ افغان پناہ گزین بھی پاکستان میں رہتے ہیں جن کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو بہرحال افغانستان کے ساتھ مراسم بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر بھارت وہاں پر مزید پنجے گاڑے گا جو بہرصورت پاکستانی مفادات کے خلاف ہے۔

گزشتہ رات لائن آف کنٹرول پر بھارت کی فائرنگ سے دو پاکستانی شہری جاں بحق ہو گئے۔ ان میں ایک معمر شخص اور ایک نوجوان لڑکی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت ابھی تک سرحدوں پر امن بحال کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ بھارت کی 5 ریاستوں میں انتخابات کی وجہ سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہاں انتخاب مکمل ہونے کے بعد بھارت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔ ان انتخابات میں نریندر مودی کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور ان کی پارٹی نے اترپردیش میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ اتراکھنڈ ، منی پور اور گوا میں حکومتیں قائم کرنے کےلئے پیش رفت کی ہے۔ یہ سیاسی مقبولیت جزوی طور پر انتہا پسند ہندو قوم پرستانہ نعرے لگانے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ اس لئے اب مودی پاکستان کے ساتھ زیادہ سخت رویہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ پاکستان کےلئے دریائی پانی کی فراہم کے حوالے سے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ نریندر مودی نے گزشتہ برس اوڑی حملہ کے بعد کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کو پانی بند کرنے کی بالواسطہ دھمکی دی تھی۔ پاکستان کی 80 فیصد زراعت بھارت سے بہنے والے دریاؤں سے حاصل کردہ پانی کی مرہون منت ہے۔ اگرچہ ورلڈ بنک سندھ طاس معاہدہ کا ضامن ہے لیکن بھارت ماضی میں بھی ٹیکنیکل عذر تراش کر پاکستان آنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں ایسے 6 ہائیڈرو پاور منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے۔ ان پر عملدرآمد سے پاکستان کے حصے کے پانی میں قابل ذکر کمی ہو سکتی ہے۔

طویل تعطل کے بعد اس ماہ کے آخر میں بھارتی نمائندے لاہور میں ہونے والے انڈس کمیشن کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں تعطل کے باوجود پانی کی تقسیم کے اہم مسئلہ پر بات چیت شروع ہو سکے گی۔ سندھ طاس معاہدہ کو 57 برس ہو چکے ہیں۔ اسے مزید مؤثر بنانے اور دونوں ملکوں کی بدلتی ہوئی ضرورتوں پر پورا کرنے کےلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنا ضروری ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس اہم مسئلہ سے نمٹنے کےلئے اسلام آباد میں مضبوط حکومت، ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور بھارت کو مذاکرات پر راضی کرنے کےلئے موثر سفارت کاری کی اشد ضرورت ہے۔ یہ قومی ضرورتیں ان سیاسی مباحث اور الزام تراشیوں سے زیادہ اہم ہیں، جنہیں ملک میں ٹاک شوز اور تبصروں کے ذریعے روزمرہ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali