اپنی ہی تلاش میں ایک سفر ۔۔۔ ڈی این اے کی مدد سے


لبنیٰ اور مرزا۔ یہ دونوں نام امریکہ میں‌ عام نہیں‌ اور اکثر لوگ پوچھتے ہیں‌ کہ یہ کون سی زبان کے الفاظ ہیں یا ان کا مطلب کیا ہے۔ بہت سے لوگ درست طریقے سے کہہ نہیں‌ سکتے اس لئے لنڈا، لووبا، لوبینا، لبنانا، مارزا، مریزا اور مرسا وغیرہ سننے کی عادت ہی بن گئی ہے۔ اس سے کوئی بھی سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمارے نام کہاں‌ سے آئے اور کیسے؟ لبنیٰ عربی کا لفظ ہے اور مرزا فارسی کا۔ ہمارے ایک کزن نے اپنی مونچھیں کبھی صاف نہیں‌ کرائیں۔ کہتے تھے یہ اوریجنل مغل مونچھیں‌ ہیں۔ نانا صدیقی تھے اور نانی سید۔ نانی کی وفات ہوئی تو میری امی چار سال کی تھیں، اس حساب سے 1960 میں‌ ان کا انتقال ہوا ہوگا۔ نانی کے لئے بہت سی کہانیاں‌ خاندان میں‌ مقبول ہیں‌، ان میں‌ سے ایک یہ ہے کہ ان کے ہاتھ آگ سے نہیں‌ جلتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ انہوں‌ نے ساری زندگی میں‌ صرف ایک مرتبہ تصویر کھنچوائی اور وہ حج کے لئیے تھی۔ پردہ سخت کرتی تھیں اور پالکی میں‌ دو پتھر بھی رکھ لیتی تھیں‌ کہ اٹھانے والوں‌ کو وزن کا پتا نہ چلے۔

ساری زندگی پلان بنانے کے بعد 2015 میں انڈیا کا سفر کیا اور ابو کی طرف کی کافی ساری فیملی سے پہلی بار ملی۔ میرے بھائی کی سکھر میں‌ دوسری سالگرہ کی قریب 40 سال پرانی ایک دھندلی تصویر میں‌ ایک انڈین پھوپی سفید کپڑوں‌ میں‌ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب 2015 میں‌ ہم انڈیا جا کر ان سے ملے تو اس کے چند مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ میری کزن نے بتایا کہ ایک علی گڑھ کی فمیلی نے کراچی شفٹ‌ ہونے کے بعد ہماری فیملی کے ناموں‌ پر اپنے بچوں‌ کے نام رکھ لئیے۔ یعنی ایک دو نہیں‌ ساری فیملی کے نام چرا لئیے گئے۔ یہ بات سن کر پہلے مجھے یقین نہیں‌ آیا، پھر میں‌ نے ان سے مذاق میں‌ کہا کہ آپ لوگوں‌ کے ڈپلیکیٹ سے ملنے کے لئیے میں‌ کراچی ہی چلی جاتی وہ میرے لئیے آسان ہوتا۔ ہمیں‌ اپنے دل و دماغ سے یہ بات نکال دینی ہو گی کہ اپنا نام بدل کر ہم بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ انسان بہتر یا بڑا صرف اپنے کاموں‌ سے ہوتا ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے اپنے نام بھی نقلی تو نہیں؟

1989 میں‌ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے تحقیق دانوں‌ نے ہاواسوپائی ریڈ انڈین قبیلے پر ایک ذیابیطس کا ریسرچ پراجیکٹ شروع کیا جس میں‌ انہوں‌ نے لوگوں‌ کے خون کے سیمپل جمع کئیے۔ انہوں‌ نے آگے چل کر ان نمونوں‌ کو دیگر پراجیکٹس میں‌ بھی استعمال کرنا شروع کردیا جن میں‌ انسانی ہجرت اور جینیائی وراثت کی اسٹڈیز بھی شامل تھیں۔ یہ بات ریسرچ کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جب مریض‌ سے کنسنٹ (رضا مندی) لیا جاتا ہے تو اس میں‌ صاف بتانا ہوتا ہے کہ سیمپل کس چیز کے لئیے استعمال ہوں گے۔ اگر آگے چل کر مزید ریسرچ کرنی ہو یا ایسے سوال سامنے آجائیں جن کے لئیے کچھ نیا کرنا ہو تو واپس جا کر اجازت لینی ہوتی ہے۔ مریض اپنا دیا ہوا کنسنٹ کبھی بھی واپس بھی لے سکتے ہیں۔

2003 میں‌ یونیورسٹی میں‌ لیکچر ہورہا تھا جس میں اس‌ امریکی ریڈ انڈین کے قبیلے کی جینیات اور انسانی ہجرت کے موضوع پر کی گئی ریسرچ پیش کی جا رہی تھی۔ حاظرین میں‌ سے ایک لڑکی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کو یہ جان کر بہت برا محسوس ہوا کہ اس میں یہ ڈسکس کیا گیا کہ ریڈ انڈین دنیا میں‌ کہاں‌ سے امریکہ آئے۔ یہ خون کے سیمپل ان افراد سے یہ کہہ کر لئیے گئے تھے کہ ان کو ذیابیطس، کولیسٹرول اور میٹابولک سنڈروم کے بارے میں‌ ریسرچ پر استعمال کیا جائے گا۔ ان لوگوں‌ کو یہ نہیں‌ بتایا گیا تھا کہ انسانی ہجرت کے بارے میں‌ معلومات حاصل کی جائیں‌ گی۔ اس ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ ریڈ انڈین ایشیاء سے نارتھ امریکہ آئے ہیں۔ اس کے بارے میں‌ ایک تھیوری یہ ہے کہ ان دونوں بر اعظموں‌ کے مابین برف کا راستہ تھا جس پر لوگ چل کر چلے ‌گئے تھے۔ وہ راستہ بعد میں‌ پگھل کر ختم ہوگیا اور لوگ دنیا کے الگ الگ علاقوں‌ میں‌ تقسیم ہوگئے۔ اس کے بعد امریکہ تب دریافت ہوا جب انسانوں‌ نے پانی کے جہاز بنا لئیے اور لمبے سفر کی ہمت کی۔

یہ جان کر اس ریڈ انڈین قبیلے کے افراد دل برداشتہ بھی ہوئے اور انہوں‌ نے اپنے عقائد کی تذلیل محسوس کی کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ریڈ انڈین افراد گرینڈ کینین سے شروع ہوئے۔ انہوں‌ نے 2004 میں‌ یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور یونیورسٹی کو کئی ملین ڈالر کا جرمانہ ہوگیا۔ ریڈ انڈین اقوام پر ڈھائے گئے مظالم امریکہ کے ضمیر کا ایک گہرا حصہ ہیں۔ آج کے ریڈ انڈین لوگوں‌ کے لئیے مکمل طور پر مفت ہسپتال اور کلینک ہیں، ان کے آزاد علاقے ہیں اور کسینو اور سگریٹ وغیرہ کے جو بھی ان کے بزنس ہیں‌ ان پر کوئی ٹیکس نہیں۔ کئی ریڈ انڈین خاندانوں کو گھر بیٹھے وظائف ملتے ہیں۔

گرینڈ کینین ایریزونا میں‌ ہے اور وہ دیکھنے کے لائق ایک عجوبہ ہے۔ ایسے جیسے چلتے چلتے ایکدم سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوں۔ وہ بہت بڑی، بہت گہری ہے اور بہت پرانی بھی ہے۔ گرینڈ کینین ایک اندازے کے مطابق تقریباً 17 ملین سال پرانی ہے۔ کولوراڈو دریا کے بہتے ہوئے پانی نے اس کو لاکھوں‌ سال تراشا ہے اور ہر لمحے‌ سورج کے سفر کے ساتھ اس کے جادوئئ رنگ بدلتے ہیں۔ گرینڈ کینین کی وسعت اور عمر دیکھ کر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کائنات میں‌ اس کی اپنی زندگی کتنی مختصر ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں‌ کہ اس کو دیکھ کر ریڈ انڈین اس بات پر یقین کرنے لگے کہ وہ گرینڈ کینین سے آئے ہوں‌ گے۔

کافی وقت سے اپنا ڈی این اے چیک کرانے کے لئیے سوچ رہی تھی۔ اسپیکر ٹریننگ میں‌ ایک کیلیفورنیا کے افریقی نژاد اینڈوکرنالوجسٹ آئے ہوئے تھے۔ انہوں‌ نے بتایا کہ ان کے ڈی این اے میں‌ کون کون سی نسلوں‌ کے جین شامل ہیں۔ کہنے لگے زیادہ تر افریقی ہے، کچھ یورپی، کچھ ریڈ انڈین اور 13 فیصد ساؤتھ ایسٹ ایشین نکلا جو مجھے سمجھ نہیں‌ آیا۔ جی وہ چنگیز خان ہے! میں‌ نے ان کو کہا کیونکہ چنگیز خان کے جین آج کی دنیا کے 2% افراد یا تقریباً 30 ملین انسانوں‌ میں‌ پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دو سو میں‌ سے ایک آدمی میں‌ اس کا وائے کروموسوم موجود ہے۔ اس لئیے مذاق میں‌ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان دنیا میں‌ گذرے ہوئے لوگوں‌ میں‌ کامیاب ترین آدمی ہے۔ مجھے خود بھی یہی فکر ہے کہ میرے ڈی این اے میں‌ بھی تاتاری اینسسٹری نہ نکل آئے اس لئیے ابھی تک نہیں‌ بھیجا ہے۔ تو کیا ہوا، انہوں‌ نے کہا بس جسم ہی ہے ناں۔

بچپن سے بہت خوفناک تاریخ‌ پڑھی کہ تاتاری کتنے ظالم تھے۔ وہ کھوپڑیوں‌ کے مینار بناتے تھے اور اس میں‌ کھوپڑیوں‌ کا اضافہ کرنے کے لئیے حاملہ ماؤں‌ کا پیٹ کاٹ کر بچے تک نکال لیتے تھے۔ کسی مؤرخ نے لکھا کہ ہم ہر بات نہیں‌ لکھ رہے ہیں‌ کیونکہ آنے والی نسلیں‌ یقین نہیں‌ کریں‌ گی۔

ایک بیٹل کیڑا کمر کے بل فرش پر گرا ہوا تھا اور وہ ہوا میں‌ اپنے ننھے منے پاؤں‌ چلا رہا تھا تو میں‌ نے اس کے نیچے کاغذ کھسکا کر اس کو باہر پھینک دیا تو وہ سیدھا ہوگیا اور بھاگا چلا گیا۔ بغداد کو تہس نہس کرکے جب شاہی خاندان کے افراد کو پکڑ لیا تو تاتاریوں‌ کا خیال تھا کہ خون بہانے سے نحوست ہوتی ہے اس لئیے انہوں نے ان کو قالین میں‌ لپیٹا اور اس پر گھوڑے دوڑا کر مارا۔ تاریخ کو غیر جانبداری سے پڑھا جائے تو مغلوں‌ نے بھی کچھ کم ظلم نہیں‌ کئے۔

اس لئیے جب اینسسٹری ٹیسٹ کی کٹ آ بھی گئی تو دو مہینے رکھی رہی۔ آخر کار میں‌ نے سوچا کہ ایک سائنسدان ہونے کے ناطے ہمیں‌ آبجیکٹولی سوچنا چاہئیے۔ ریڈ انڈین قبیلے کو بھی نئی انفارمیشن کے ساتھ اپنے خیالات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کو ہماری انفرادی زندگی ایک معجزہ ہے۔ کس طرح‌ سمندر کی تہہ میں‌ چند خلئے جڑ گئے اور ارتقاء کے پروسس سے گذر کر کتنے انواع کی مخلوقات بن گئیں۔ ننانوے فیصد اسپی شیز ناپید ہوچکی ہیں۔ باکس کو کھولا، اس میں‌ دی گئی ہدایات کو غور سے پڑھا اور سفید پلاسٹک ٹیوب میں‌ تھوک ڈالا اور اس کو نیلے اسٹیبلائزنگ محلول میں‌ مکس کر کے واپسی کے لفافے میں‌ بند کرکے ڈاک میں‌ ڈال دیا۔

دو مہینے لگے لیکن نتائج وصول ہوگئے۔ میرے ڈی این اے میں‌ 83% جنوب ایشیائی، 10% سینٹرل ایشیائی، 4% مشرقی ایشیائی اور 3 فیصد میلانیشین جین نکلے۔ سینٹرل ایشیا میں‌ منگولیا اور کازخستان کے علاقے شامل ہیں۔ ان نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نہ تو ہمارے اندر فارسی خون ہے اور نہ ہی عربی۔ وہ صرف ہمارے نام ہیں۔

مجھے اپنے جنوب ایشیائی آبا ؤ اجداد پر فخر ہے کہ وہ عام انسان تھے اور انہوں‌ نے زندگی میں‌ دنیا کے اتار چڑھاؤ، دھکوں اور مشکل حالات کا سامنا کیا، زندہ رہے اور ان کی وجہ سے آج ہم بھی زندہ ہیں۔ نانی کے ہاتھ اس لئے نہیں‌ جلتے تھے کیونکہ وہ ہمارے جیسے نرم ہاتھ نہیں‌ تھے بلکہ محنتی اور کھردرے ہاتھ تھے۔ نانی ہمت والی خاتون تھیں‌ جو 1947 کے پارٹیشن میں‌ تین بچوں‌ کے ساتھ اکیلی ٹرین میں‌ بیٹھ کر سکھر پہنچ گئیں۔ انہوں‌ نے اپنے بچوں‌ کو تعلیم دلائی، سب وسائل استعمال کر کے بڑے ماموں‌ کو امریکہ پڑھنے بھیجا جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے پہلے آدمی بن گئے جنہوں نے انگریزی میں‌ پی ایچ ڈی کی۔ ان کی قربانی اور محنت کی وجہ سے آج ہم اچھے حالات میں‌ ہیں۔ نانی میں‌ کوئی جادوئی طاقت نہیں‌ تھی، ان کو بریسٹ کینسر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائی اور چھوٹے بچے چھوڑ کر مرگئیں اس لئیے مناسب ہے کہ میموگرام کروا لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments