ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟


لندن یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم نے سات سال کی عمر کے گیارہ ہزار بچوں سے دریافت کیا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں بارہ شعبے سب سے زیادہ مقبول نکلے ٹیچر، کھلاڑی، سائنسدان، ہئیر ڈریسر، فائر فائٹر، پولیس افسر، آرٹسٹ، شو بزنس آرٹسٹ، جانوروں کے ماہر، حیوانات کے ڈاکٹر، ڈاکٹر اور معمار۔

لڑکیاں ان شعبہ جات میں زیادہ دلچسپی رکھتی دکھائی دیں جن میں وہ دوسرے انسانوں یا حیوانات کی دیکھ بھال کر سکیں۔ جبکہ لڑکوں کی خواہش زیادہ طاقتور، مقبول اور دولت مند بننے کی تھی۔

لڑکوں میں خوابوں کی ترتیب یوں تھی۔ 32 فیصد کھلاڑی بننا چاہتے تھے، 12 فیصد پولیس افسر، ساڑھے 4 فیصد فائر فائٹر، 4 فیصد سائنسدان، پونے 4 فیصد معمار، سوا 3 فیصد گلوکار، اداکار یا شوبز کا دوسرا شعبہ، 3 فیصد استاد، ڈھائی فیصد ڈاکٹر، ڈھائی فیصد آرٹسٹ، 2 فیصد جانوروں سے متعلقہ شعبہ جات اور ڈیڑھ فیصد جانوروں کے ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔

لڑکیوں میں یہ ترتیب یوں قرار پائی۔ 23 فیصد ٹیچر، 12 فیصد جانوروں کی ڈاکٹر، سوا 9 فیصد ہئیر ڈریسر، 8 فیصد گلوکار، اداکار یا شوبز کا دوسرا شعبہ، سوا 6 فیصد ڈاکٹر، پونے 6 فیصد آرٹسٹ، ساڑھے 4 فیصد کھلاڑی، پونے 4 فیصد حیوانات کی ماہر، 3 فیصد پولیس افسر اور 23 فیصد نے مختلف دوسرے شعبہ جات کا انتخاب کیا۔

کینیڈا کی ایک کمپنی کا سروے بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس میں دو ہزار لوگوں سے پوچھا گیا ہے کہ سکول کے زمانے میں وہ کیا بننا چاہتے تھے اور اب ان کے بچے بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں۔

اس سروے کے مطابق پرائمری سکول کے بچوں میں بالترتیب یہ شعبے مقبول تھے: کھلاڑی، ٹیچر، ڈاکٹر، خلاباز، سائنسدان، آرٹسٹ، اداکار، گلوکار یا موسیقار اور پولیس افسر۔

مڈل سکول کے بچوں کے خواب بالترتیب سائنسدان، پیشہ ور کھلاڑی، ٹیچر، ڈاکٹر، مصنف، آرٹسٹ، وکیل، حیوانات کا ڈاکٹر، موسیقار یا گلوکار اور انجینئیر بننے کے ہیں۔

ہائی سکول کے طلبہ میں سب سے مقبول پیشہ تصنیف و تالیف ہے۔ پھر انجینئیر، سائنسدان، ٹیچر، ڈاکٹر، آرٹسٹ، وکیل، موسیقار یا گلوکار، پیشہ ور کھلاڑی اور کمپیوٹر کا ماہر بننے کے شعبہ جات آتے ہیں۔

نیچے موجود چارٹ میں تفصیلی اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔

نوٹ کریں کہ برطانیہ اور کینیڈا کے بچوں کو جنگ و جدل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہتھیار والا صرف ایک شعبہ ہے، پولیس کا۔ اس شعبے کو غالباً امن و امان کی بحالی اور لوگوں کی مدد کرنے کے پیش نظر پسند کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں سڑک پر گشت کرنے والا سپاہی غیر مسلح ہوتا ہے۔ کینیڈا میں اس کے پاس پستول ہوتی ہے مگر ہولسٹر سے پستول نکالنے پر اسے رپورٹ لکھنی پڑتی ہے کہ کس وجہ سے پستول نکالی گئی تھی۔

اس کے باوجود ان ممالک کی فوج طاقتور ہے۔ ان کی معیشت ان کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ اور علوم و فنون کی دنیا پر ایسی ہی ولایتی قوموں کی حکمرانی ہے۔

تو خواتین و حضرات۔ اپنے بچوں کے ہیرو سے ان ولایتی بچوں کے ہیرو کا تقابل کریں اور سوچیں کہ کیا ہمیں اپنے ہیرو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی خوشحال ہو سکیں اور دنیا میں ایک اہم ملک کے طور پر ہمارا شمار کیا جانے لگے؟

Mar 17, 2017 

پہلا حصہ: ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں

ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments