سمی: سات گز کپڑے کی قیمت ایک جیتی جاگتی عورت


ونی – ایک ایسا معاشرتی جرم جس کی زد میں پاکستان کی کئی معصوم لڑکیاں آ چکی ہیں اور مسلسل آ رہی ہیں۔

تعزیرات پاکستان میں دفعہ تین سو دس کے تحت ونی بالکل غیر قانونی عمل ہے اور اس کی سزا موجود ہے اور یہ قانون کئی سال پہلے ہی آ چکا تھا لیکن کیا ہی ستم کی بات ہے کہ مارچ 2017 کی ہی کسی تاریخ میں خبر پڑھنے کو موصول ہوئی کہ ایک 11 سال کی بچی کو بہاولپور میں ونی کر دیا گیا ہے۔ مقامی ایس ایچ او کا انصاف اس پر سونے پہ سہاگہ تھا۔ اس نے دونوں خاندانوں سے حلف نامہ لے لیا کہ نکاح نہیں ہوا ہے بس منگنی ہوئی ہے اور اس میں رضامندی شامل ہے۔ اول تو یہ کہ 11 سال کی بچی کی منگنی ہونا بھی سوالیہ نشان سے کم نہیں۔ دوسرا یہ کہ بھلا 11 سال کی بچی کی رضامندی کیسی؟ ویسے بھی جس ملک میں چھوٹی بچیوں کو آلو پیاز کی طرح تولہ جا رہا ہو وہاں پولیس اہلکاروں کو مزید چوکنا رہنا چاہیے اور خاندان والوں کو بھی چوکس کر دینا چاہئے نہ کہ ان سے اس طرح کے قانون کی گرفت سے بچنے والے حلف نامے لکھوائے جائیں۔

‘سمی’ ایک ایسا ڈرامہ سیریل ہے جو ونی کے ہولناک روایت پہ روشنی ڈالتا ہے۔ ماورا حسین، جو کہ سمی کا کردار ادا کر رہی ہیں، رحیم یار خان کی ایک نوجوان لڑکی ہیں جو اپنے بھائی سے سرزد ہوئے گناہ کی وجہ سے ‘ونی’ کر دی گئی ہیں۔ چوہدری رب نواز (ریحان شیخ) نامی ایک آدمی جو کہ جرگے/پنچایت کا سربراہ ہے اور اپنے ‘بزرگوں کی عزت’ اور ان کی ‘پگ’ کی شان کی خاطر بجائے قانون کے دروازے کو کھٹکھٹانے کے، خود ہی فیصلہ صادر کرتا ہے کہ معاملہ سلجھانے کے لئے لڑکی ونی کر دی جائے گی۔

ڈرامے کی تقریباً 7 اقساط مکمل ہو چکی ہیں اور فی الحال ہم نے دیکھا ہے کہ سمی اپنی جان بچا کے شہر پہنچ گئی ہے اور وہاں اس کی ملاقات چاندنی سے ہوتی ہے جس کا کردار ثانیہ سعید کر رہی ہیں اور جو اسے جینے کے گر سکھاتا ہے۔ ثانیہ سعید کے فرزند کا رول احد رضا میر نے ادا کیا ہے جن کے ساتھ سمی کا ایک مکالمہ ہوتا ہے جس میں وہ ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کی والدہ نے سمی کو اپنے گھر میں پناہ دے کے کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ دیکھنے والوں اور نظر رکھنے والوں کے لئے سمی کی پچھلی زندگی اور موجودہ زندگی میں یہ تفریق ہی سب سے بڑا سبق ہے کہ کیسے عزت کا تعلق 7 گز کے کپڑے کے ٹکڑے میں نہیں بلکہ انسان کے ساتھ انسانیت برتنے میں ہے۔

اس قسط میں سمی کے بھائی کو خبر مل جاتی ہے کہ سمی فرار ہوگئی ہے اور سمی کے بھائی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اب معاملہ ان کی ‘غیرت’ کا ہے اور اب وہ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے اور ان کو جان سے مار دیں گے۔ حارث وحید نے یہ کردار ادا کیا ہے اور رول کو انہوں نے خاصی مہارت سے ادا کیا ہے کیونکہ اس سین میں وہ بہت سنگ دلی سے یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ وہ سمی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس سین سے قندیل بلوچ کے بھائی کے بیان کی یاد آتی ہے کہ کس قدر آرام سے انہوں نے پولیس اور میڈیا کو یہ بتا دیا تھا کہ وہ بہن جو ان کو کما کے کھلا رہی تھی – اس کا گلا انہوں نے صرف اس لئے گھونٹ دیا کیونکہ یہ ایک بھائی کی غیرت کا سوال تھا۔

ساتھ ہی ساتھ ایک اور بہت ضروری مرکزی خیال جو ثانوی طور پہ ڈرامے میں چل رہا ہے وہ ہے ‘بیٹا’ پیدا کرنے کی ضد۔ سیمی راحیل کا کردار، اماں زرینہ اپنی بہو کو دھمکی دیتی ہیں کہ اس کا بیٹا دوسری شادی کر لے گا اور بیٹوں کی لائین لگا دے گا۔ اس کی بہو اپنے خاوند سے کہتی ہے کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں اسکول کی لیبارٹری میں پڑے کسی مینڈک جیسی ہوں جس پہ بیٹا پیدا کرنے کے لئے تجربے ہو رہے ہوں۔ یہ بھی پاکستانی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے جس کا مشاہدہ جہلا اور شرفا دونوں میں برابر کیا جاسکتا ہے۔

افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ آج کے زمانے میں لڑکیاں پہاڑوں کی چوٹیاں سر کر رہی ہیں اور ہم نے ان کے بالوں کی چوٹیوں کو ہی ان کی شناخت بنا رکھا ہے۔ لڑکیاں ٹرک بھی چلا رہی ہیں اور رکشے بھی، بلکہ اوبر تک بھی۔ اور ہم نے ان کی زندگی کی گاڑیوں کے رخ کو محض مرد پیدا کرنے کے لئے مخصوص کیا ہوا ہے۔ لڑکیاں ڈاکٹر ہیں، استاد ہیں، لکھاری ہیں، کھلاڑی ہیں مگر ہم نے ابھی تک ان کو بھینس بکری کی طرح حیوانوں والا درجہ دیا ہوا ہے۔

سمی کی ساتویں قسط پر مہوش بدر کا ریویو دیکھئے:

سمی کے تمام ریویوز پٹاری پر سنئے:


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).