اپنے والد کے جوتوں میں


 یہ 1971 کا ذکر ہے۔ میں نے اپنے کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں حصہ لینے فیصلہ کیا تو پاپا نے سختی سے یہ ارادہ ترک کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے میری پڑھائی میں بہت حرج ہو گا۔ انہیں یہ بھی تشویش تھی کہ ملکی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے تعلیمی درسگاہوں میں بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث میں کسی جھمیلے میں نہ الجھ جاﺅں۔ لیکن میں بوجوہ اپنی ضد پہ اڑا رہا۔ سال کا آخر آ گیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران مجھے ہوسٹل سے واپسی پہ اکثر دیر ہو جاتی جس پہ باجی (ہم اپنی والدہ کو باجی کہتے تھے)، پاپا اور چچا سے، جو بھی پہلے ملتا، ڈانٹ سننا پڑتی۔ جب تک میں خیریت سے گھر نہ آ جاتا گھر میں کوئی بھی سو نہ سکتا۔ پاپا کو اپنا زمانہ یاد آتا جب وہ بوجوہ گریجویشن مکمل نہیں کر سکے تھے۔ ایک دن مجھے کچھ زیادہ ہی دیر ہوگئی۔ یہ سوچتا ہوا گھر جا رہا تھا کہ آج تو پٹائی ہی ہو جائے گی۔ اپنی گلی کا موڑ مڑا تو پاپا کو باہر، سردی میں، ٹہلتا پایا۔ مجھے دیکھ کے تیزی سے میری طرف آئے۔ میں نے انہیں اتنا پریشان اور ناراض کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان دنوں ان کی طبیعت بھی بہت خراب رہتی تھی۔ چند روز قبل ہی وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوکے گھر آئے تھے۔ وہ چاہتے تو یہ تھے کہ وہیں میری پٹائی کر دیں۔ سٹریٹ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے گلی میں گھر جیسی پرائیویسی تھی۔ لیکن وہ میرے قریب پہنچ کے رک گئے اور غصے سے دانت پیستے ہوئے بولے: ”اندر چلو۔“ میں نے بھاگ کے باجی کے پاس پناہ لی۔ گرجنے برسنے سے تشفی نہ ہوئی تو پاپا نے میرے سر پہ ایک زوردار چپت رسید کی۔ میں تو، بقول ان کے، ڈھیٹ ہڈی تھا البتہ انہیں ہاتھ میں تکلیف ہوئی۔ اس سے ان کا غصہ بڑھ گیا؛ اپنا جوتا اتار لیا لیکن پھر فرش پہ پٹخ دیا۔ باجی بیچ میں آ گئیں اور وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ باجی رونے لگیں۔ میں بھی رو پڑا۔ پاپا کے جانے کے بعد بولیں: ’بیٹا وہ تمہارے ہی بھلے کو کہتے ہیں۔ انہوں نے کونسا بیٹھے رہنا ہے، کونسا تمہاری کمائی کھانی ہے۔‘ پتا نہیں ان کے منہ سے یہ جملہ کیوں نکلا۔ پاپا کے سرطان کی تشخیص تو دو ماہ بعد ہوئی۔

جوتا خریدتے وقت پاپا بہت اہتمام کرتے تھے۔ انارکلی بازار میں کرنال شاپ ان کی پسندیدہ دکان تھی۔ کہا کرتے تھے جوتا ایسا ہونا چاہئے کہ مٹھی میں آجائے۔ آخری بار انہوں نے بہت شوق سے وہی براﺅن مکییشن لیا تھا جس سے میری پٹائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ انہیں یہ جوتا پہننے کا موقع کم کم ہی ملتا، یہاں تک کہ وہ دوبارہ ہسپتال داخل ہوگئے۔ ایک روز مجھے کہا کہ اسے ٹرائی کرو۔ میں نے پہنا تو نہ صرف فٹ آیا بلکہ بہت اچھا بھی لگا۔ کہا کہ یہ تم لے لو۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا پہنیں گے تو بولے :”میں باہر تو جاتا نہیں، ہسپتال میں یہ سلیپر کافی ہیں۔ چلو ایسا کرو ، اپنا جوتا یہیں چھوڑ جاﺅ، ضرورت پڑنے پہ کام آجائے گا۔“

آخر الیکشن کا دن ( 10فروری 1972) بھی آ گیا۔ محمد اشرف عظیم صدر اور میں سیکرٹری منتخب ہو گیا۔ ہمارے ہاں ایک روایت رہی تھی کہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے حامی انہیں کندھوں پہ اٹھا کے ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرتے ہوئے داتا دربار تک لے جاتے اور وہاں پھول چڑھاتے۔ ایسا اُس دن بھی کیا گیا۔ اس کے بعد جلوس کے ایک بڑے حصے نے پاپا کو یہ خوشخبری سنانے کا پروگرام بنایا۔ ہم میو ہسپتال پہنچے تو اس ہجوم کو دیکھ کے وہاں کا عملہ گھبرا گیا۔ وہ سمجھے کہ شاید کوئی سانحہ ہو گیا تھا جس پہ احتجاج کے لئے یہ طلبہ اکٹھے ہو گئے تھے۔ البرٹ وکٹر وارڈ کے کوریڈور طلبہ سے بھر گئے۔ پاپا بہت خوش تھے۔ رات کو انہوں نے ڈائری میں لکھا: ” باصِر سیکرٹری (گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹس یونین ) ہو گیا۔ شام کو ایک جلوس کی شکل میں میری عیادت کو آیا۔۔۔۔ مطلع ابر آلود۔ انتظار اور احسن آئے۔“

ہماری خواہش تھی کہ ہماری یونین کی تقریب حلف برداری میں بھٹو صاحب آتے۔ میں اور اشرف انہیں مدعو کرنے راولپنڈی گئے اور اپنے دوست رفعت پاشا کے گھر ٹھہرے جو ہمیں اپنی فوکس ویگن میں ایوانِ صدر لے کے گئے۔ صدر کے سیکریٹری تک رسائی ہوئی۔ ہماری دعوت کے جواب میں بھٹو صاحب نے شکریے کے ساتھ پیغام بھیجا کہ وہ بہت مصروف تھے اور تجویز دی کہ ہم عبدالحفیظ پیرزادہ کو مدعو کریں۔ وزیرِ تعلیم ہونے کے ناتے سب سے زیادہ متعلقہ شخص بھی وہی تھے۔ پیرزادہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ میں لاہور واپس آیا تو پاپا کی طبیعت کو مزید خراب پایا۔ چند روز بعد، 2مارچ کو، وہ انتقال کر گئے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے سر پہ سے چھت ہی نہیں ہٹ گئی بلکہ پاﺅں تلے سے زمین بھی نکل گئی تھی۔ لیکن ہم بھرپور کوشش کر کے دنیا کے سامنے خود کو قائم رکھتے اور معمول کی زندگی گزارتے۔

 ہماری تقریب حلف برداری 18 مارچ 1972 کو ہوئی۔ پیرزادہ صاحب نے ہم سے حلف لیا۔ سابق صدر میر اعجاز الحق نے اشرف کو اور سیکرٹری پرویز صالح نے مجھے چارج دیا۔ اشرف نے اپنی تقریر میں حکومت پر کڑی تنقید کی۔ بائیں بازو کے طلبا نے تقریباً ہنگامے کی سی صورت پیدا کر دی لیکن ان میں جو میرے حامی تھے انہوں نے ’بچ بچاﺅ‘ کرا دیا۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا۔ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ دنوں میں سارے مسائل حل کر دے۔ پیرزادہ صاحب کو کچھ ڈھارس ہوئی۔ انہوں نے خیال کیا ہو گا کہ یہ ’اپنا بندہ‘ ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے میرا حوالہ دے کے میرا جملہ دہرایا۔

اس دن میں نے وہی جوتا پہن رکھا تھا، جو اب مجھے کہیں زیادہ عزیز ہو چکا تھا۔ تقریب کے بعد فوٹوگرافر نے کالج کے لاجیا میں میری ایک قد آدم تصویر بنائی۔ میں نے وہاں موجود دوستوں کو بتایا کہ میں نے اپنے والد کا جوتا پہن رکھا تھا تو ان میں سے ایک نے کہا: So you’re literally in your father’s shoes

(زیرِ اشاعت کتاب، ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).