جاوید احمد غامدی کی متنازعہ کتابوں کا رد الفساد کر دیا گیا


آپ جانتے ہی ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف رد الفساد کیا جا رہا ہے۔ اسی ماحول میں پاکستان کی سب سے زیادہ روادار، عدم تشدد کی داعی، محب وطن اور رد الفساد کے لئے مشہور طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے پشاور یونیورسٹی میں تین روزہ کتاب میلے کا بندوست کیا۔

آپ نے ایک صالح شخص ہونے کی وجہ سے گمراہی سے بچنے کی خاطر جاوید احمد غامدی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا۔ ہم نے بھی نہیں کیا ہے۔ مگر سب ایکسٹرا صالح مسلمان جانتے ہیں کہ جاوید احمد غامدی صاحب کی کتابیں نہایت باعث فساد ہیں کیونکہ وہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متاثر کرتی ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون نے میلے کے متعلق ایک خبر لگائی ہے کہ رواداری اور برداشت کی اس عظیم داعی تنظیم نے جاوید احمد غامدی صاحب کی کتابوں کو متنازعہ قرار دے کر کتاب میلے سے بین کر دیا اور پہلے دعوت جاری کرنے کے باوجود عین وقت پر غامدی صاحب کی کتابیں شائع کرنے والے ادارے المورد کو سٹال لگانے سے منع کر دیا۔

حالانکہ آگے چل کر خبر میں خود لکھا ہے کہ جمعیت، جاوید غامدی صاحب کی کتابوں کو متنازعہ نہیں سمجھتی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس نے خیبر پختونخوا کے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم جناب شاہکار عزیز سے موقف جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ جمعیت غامدی صاحب کی کتابوں کو متنازعہ نہیں سمجھتی ہے، لیکن کتاب میلے کے منتظم کو یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا تھا کہ میلے میں متنازعہ کتابوں والا کوئی سٹال نہ رکھا جائے۔

لیکن جمعیت تو جرات و بہادری کی علامت ہے اور جبر و استبداد سے نہیں گھبراتی تو وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اس سکھا شاہی کو کیسے مان لیتی۔ متنازعہ کتابوں کو بین کرنے کا آمرانہ حکم ماننا ہوتا تو اسلامی جمعیت طلبہ سید مودودی اور سید قطب کی کتابیں اسی طرح بین کر دیتی جس طرح سعودیوں نے کر رکھی ہیں۔

ہمارے تجزیے کے مطابق یونیورسٹی اتنظامیہ کے متنازعہ کتابوں پر پابندی لگانے کے اس آمرانہ حکم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کی خاطر جمعیت نے سید مودودی کی سعودیوں کی نظر میں متنازعہ قرار پانے والی کتابوں کا سٹال لگاتے ہوئے جاوید احمد غامدی کی غیر متنازعہ کتابوں کو ہی بین کر دیا اور واشگاف الفاظ میں پیغام دیا کہ پشاور یونیورسٹی میں انتظامیہ کا حکم نہیں چلے گا بلکہ اس تنظیم کا چلے گا جو کہ اپنے حلم و انکساری اور اساتذہ کی تابعداری کے اوصاف کی وجہ سے مشہور ہے اور جس کی جرات و بہادری کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کی دشمنی میں لوگ کس طرح آگے بڑھ جاتے ہیں اس کی مثال دیکھنی ہو تو پنجاب یونیورسٹی ہی کو دیکھ لیں۔ ادھر پروگریسو یوتھ الائنس اور پختون ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ موومنٹ کے نام سے شرپسندوں کا کوئی گروہ سرگرم عمل ہو گیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس میں بڑی تعداد میں بلوچ اور پختون طلبہ شامل ہیں۔ یہ سال میں دو چار مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ کے عدم تشدد کے داعی طلبہ پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ گروہ ایک ننھی سی اقلیت ہے۔ جب وہ عدم تشدد کے داعی اراکین جمعیت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ان گاندھی گیری کرنے والے بھگتوں کو اتنی بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے مارتے ہیں کہ مار مار کر خود ان کا اپنا جسم درد کرنے لگتا ہے۔ بلکہ درد کیا کرتا ہے، ان کی تو اپنی ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور ایسے ہر حملے کے بعد ان میں سے کئی حملہ آور اتنے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں کہ خود ہی ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف جمعیت کے نہایت اعلی تربیت یافتہ اور مجسم اخلاق اراکین کے صبر کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے کوئی اکا دکا ہی ہسپتال گیا ہو تو گیا ہو کہ ناحق ان کی وجہ سے پختون ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ موومنٹ کے طلبہ کی بدنامی ہو گی۔ بچارے گھر پر ہی ٹکور کر لیتے ہوں گے۔ اب اگر اراکین جمعیت عدم تشدد کے داعی نہ ہوتے اور غنڈہ گردی کے شائق ہوتے تو بلوچ اور پختون شرپسندوں کے اس محدود سے گروہ کی ہڈی پسلی توڑ کر انہیں ہسپتال پہنچا دیتے اور اگلے دن اخباروں میں خبر آتی کہ پختون ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ موومنٹ والے طلبہ ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک طرف یہ پختون ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ موومنٹ والے طلبہ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کے معصوم اراکین کو اتنا پیٹتے ہیں اور پھر اگلے دن اخباروں میں خبر بھی لگوا دیتے ہیں کہ جمعیت کے طلبہ نے ان کو پیٹا ہے۔ ہم نے ذاتی طور پر پروپیگنڈے کی یہ مثال دیکھی ہے۔ مگر شکر ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس کا توڑ کر دیا ہے۔ مار پیٹ پر موقف بیان کرتے ہوئے پہلے تو اس نے یہ بتایا کہ یونیورسٹی کے خلاف سازش کے تحت کچھ طلبہ دشمن بیرونی عناصر آتے ہیں اور دنگا فساد کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر پھر غالباً مزید تحقیق کے بعد انہوں نے بتایا کہ یہ بیرونی عناصر نہیں بلکہ یونیورسٹی میں موجود پختون اور بلوچ طلبہ ہیں جو یہ ساری مار پیٹ کرتے ہیں۔ لیکن اخبار کی اطلاع پڑھ کر ہمیں اطمینان ہوا کہ یہ غنڈہ گردی مزید نہیں چل سکی کیونکہ یہ بدمعاش پختون اور بلوچ عناصر یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر چار میں پرامن کارکنان جمعیت کے گھیرے میں تھے اور جان کے خوف سے باہر نہیں آ سکتے تھے (بحوالہ ایکسپریس ٹریبیون مورخہ 12 فروری 2017)۔

اس منفی پراپیگنڈے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ پشتون اور بلوچ طلبہ کی سال میں چار مرتبہ دھلائی کی باتصویر خبریں پلانٹ کیے جانے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جمعیت پورے دھڑلے سے پختونوں کے گڑھ پشاور کی یونیورسٹی میں موجود ہے اور وہاں بیٹھ کر جاوید احمد غامدی صاحب کے خلاف رد الفساد کر رہی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar