سابق صدر کی ڈائری


جب رات کی مہرباں ساعتیں چہار سو اپنے پَر پھیلاتی ہیں اور نیند سب کو اپنی نرم و گداز آغوش میں لے لیتی ہے تو میں سکوت کی ان سحر انگیز گھڑیوں میں یادوں کے دیپ جلا کر بیٹھ جاتا ہوں ۔ میں اور میری تنہائی خوب باتیں کرتے ہیں ۔ ایسی باتیں جو قوت گویائی کی محتاج ہیں نہ قوت سماعت کی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ” راتوں کو جو چھڑ گئی ہیں باتیں / باتوں میں گزر گئی ہیں راتیں “ ….تلخ و شیریں یادوں کو اپنی تنہائی کے ساتھ شیئر کرتے عدم کو داد دیتا ہوں ، جس نے کہا:

مدرسہ بلبلہ ہے پانی کا

میکدہ حوض ہے معانی کا

میں اپنی تنہائی کے سامنے کفِ افسوس ملتا ہوں کہ کاش مجھے ایم کیو ایم کے ”را“ کے ساتھ رابطوں کا علم ہوتا تو میں انہیں سیدھا کردیتا ۔ مجھے تو 12مئی 2007ءکو کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کا بھی علم نہیں تھا ورنہ میں انہیں الٹا کر دیتا۔ تنہائی کا وصف یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی، مسکرا کر کہتی ہے کہ دورانِ اقتدار کسی کو سیدھایا الٹا کرنا تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ البتہ افتخار محمد چوہدری کو آپ نے سیدھا کرنا چاہا تو ہاتھ الٹا پڑ گیا۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ اقتدار کی ویاگرا بڑی ظالم شے ہے کہ بصارت و بصیرت کا ستیا ناس کرنا جس کے مسلمہ سائیڈ افیکٹس ہیں ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ دستر خوانی برادری کے پیشہ ور باراتی جو غیر آئینی طریقے سے اقتدار میں آنے والے ہر حکمران کی راہ میں سرخ قالین بچھانے کو بے چین رہتے ہیں ، میری آنکھیں اور کان بن گئے ۔ میں نے جتنے صحیح فیصلے کیے ، خود کیے اور جتنے غلط کام میرے ہاتھوں انجام پائے، ان کے پیچھے اسی دسترخوانی گروپ کے مشورے کارفرما تھے ۔ شکم پرستی اور ہاضمے میں ان کا جواب نہیں تو شخصیت پرستی اور طوطا چشمی میں بھی ان کا ثانی نہیں ۔ وہ صاحب اقتداء کی ضیافت طبع کی خاطر خوشامد اور جھوٹ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ ان کی فنکاری کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ جب میں نے استاد حامد علی خان کی آواز میں آواز ملائی ” لاگی رے توسے لاگی ،نجر سیاں لاگی “….تو ان نابغوں نے مجھے سُر کا بھگوان اور موسیقی کا بے وردی بادشاہ جیسے القابات سے نوازتے ہوئے مجھے حامد علی خان سے بڑا گلوکار قرار دیا۔ پھر جب میں نے صدارت سے فراغت کے بعد لندن کی ایک تقریب میں یہی گیت گایا تو حاضرین میں سے ایک صاحب مسلسل روتے رہے ۔ میں گانا ختم کر کے ان کے پاس گیا اور انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی بھی غلطی نہیں صاحب ، ایک تو میری آواز میں بلا کا دردوسوز ہے اور ….وہ میری بات کاٹ کر بولے ” نہیں بھائی صاحب ! یہ بات نہیں ، دراصل میں موسیقار ہوں ، سازو آواز کی پرکھ رکھتا ہوں ، اس لیے روتا رہا ہوں “ ….میاں نواز شریف کو بھی محمد رفیع کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ ہے ۔ یقینا انہیں یہ بات ان کے مشیروں نے بتائی ہو گی ۔ میں کہتا ہوں کہ میاں صاحب اقتدار کے بعد گا کر دکھائیں تو انہیں لگ پتہ جائے گا۔ میری تنہائی مجھ سے پوچھتی ہے کہ میں نے طلبہ بجانا کہاں سے سیکھا؟ میں ہنس کر جواب دیتا ہوں کہ آٹھ سال تک طبلچیوں میں گھرا رہا ہوں ، سو مجھ سے بہتر کون طبلہ بجا سکتا ہے ۔ آج کل میں اپنی دوسری کتاب لکھ رہا ہوں ، جو عدلیہ تحریک اور 2007ء کے بعد کے واقعات پر مبنی ہے ۔ تنہائی پوچھتی ہے کہ کتاب کا نام کیا ہوگا؟ جواب دیتا ہوں ” یادوں کی بارات“ قہقہ لگا کر کہتی ہے ” یادوں کی خرافات مناسب رہے گا“۔

میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ ملک کی صدارت سنبھال لوں یا کم از کم وزیراعظم کا مشیر ہی بن جاﺅں ۔ صدارت اس لیے حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ان مشیروں کو سبق سکھا سکوں، جن کی وجہ سے آج تنہائی میری رفیق ہے ۔ دوسری صورت میں وزیراعظم کا مشیر اس لیے بننا چاہتا ہوں تاکہ میاں نواز شریف کو ایسے ہی مشورے دے کر ان کا سفر کھوٹا کر سکوں۔ اگرچہ میری تنہائی کا خیال مختلف ہے مگر مجھے پورا احساس ہے کہ میرے جانے سے ملک میں قیادت کا خلا پیدا ہو گیا ہے ۔عوام بے چین ہیں اور میری واپسی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ جیسے آج کل لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں ایم کیو ایم کا سربراہ بننے جا رہا ہوں؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ ایم کیو ایم تو ایک محدود لسانی جماعت ہے جبکہ میں اللہ کے فضل سے ایک بڑی قومی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا سربراہ ہوں( میری تنہائی اپنی سادگی کی بدولت اے پی ایم ایل کو آل پاکپتن مسلم لیگ کا مخفف سمجھتی ہے ) ایسے میں مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں ایک چھوٹی جماعت کی قیادت سنبھال لوں ؟ البتہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے متحد ہوکر اے پی ایم ایل کے ساتھ الحاق کر لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اگر تحریک انصاف بھی میرے ساتھ الحاق کرلے تو مجھے خوشی ہوگی۔ میری عمران خان کے ساتھ اچھی انڈر سٹینڈنگ رہی ہے ۔ میں نے انہیں قومی اسمبلی میںایک سیٹ دلوائی تھی اور انہوں نے میرے ریفرنڈم میں میری حمایت بھی کی تھی۔ سیٹیں تو خیر میں نے اکابرین ایم ایم اے کو بھی بہت دلائی تھیں اور انہوں نے بھی ریفرنڈم میں کافی محنت کی تھی لیکن میری صدارت کے خاتمے پر ان کا قبلہ تبدیل ہوگیا ، جیسا کہ ہر دفعہ ہوتا ہے ۔ میری تنہائی جو مرضی سمجھتی رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ میں ان جماعتوں کے ساتھ الحاق کر کے دوبارہ ملک کا صدر بننا چاہتا ہوں تاکہ ترقی کا سفر وہیں سے شروع ہو سکے ،جہاں سے ٹوٹا تھا۔ میں ملک کو ویسا ہی آٹھواں عجوبہ بنانا چاہتا ہوں جیسے برادر بزرگ ضیاءالحق نے آئین میں آٹھویں اور میں نے سترہویں ترمیم کے ذریعے اسے بنایا تھا۔ میں وطن لذیذ کو اتنا طاقتور دیکھنا چاہتا ہوں ، جیسے وہ میرے عہدِ صدارت میں تھا۔ ہم اتنے طاقتور تھے کہ کارگل میں بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا ۔ میری تنہائی کہتی ہے کہ جواب میں بھارت نے ہمیں جانے کس نازک مقام سے پکڑ لیا تھا کہ وزیراعظم کوہنگامی طور پر وائٹ ہاﺅس میں ناشتے کی میز پر امریکی صدرکے ترلے کرنے پڑے ۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں جمہوریت کا مخالف ہوں ۔ایسا ہر گز نہیں ، تاہم مجھے اس بات سے ضرور پر خاش ہے کہ اس نظام میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے ۔ اس کا کچھ حل کرنا چاہیے ۔ میں شخصی حکمرانی کی وکالت نہیں کررہا مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ حکمران جو حکم دیتا ہے ، وہی آئین اور قانون بن جاتا ہے جبکہ جمہوریت میں اپنی بات منوانے کے لیے دلیل اور عقل کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمیں تو ان اشیاء کی ویسے ہی قلت کا سامنا ہے ۔ اب موجودہ فوجی عدالتوں کے بل کی مثال ہی لے لیجئے ۔ اس ارجنٹ معاملے پر سیاسی جماعتوں کے نو مشاورتی اجلاسوں کے باوجود اختلافات برقرار ہیں اور بل قومی اسمبلی سے واپس پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے ۔میں اس بے جا التوا پر پریشان ہوتا ہوں تو تنہائی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں دوپٹہ منہ میں دیئے پوچھتی ہے کہ اگر آپ جیسا فردِ واحد حکمران ہوتا تو اس کارِ خیر کے لیے کتنے منٹ درکار ہوتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).