چاکیواڑہ میں خانہ بدوش


مولانا چراغ حسن حسرت نے 1937ءمیں “شیرازہ “کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا ۔ چند شمارے ہی نکل پائے تھے کہ شیرازہ بکھر گیا ۔ اس شعلہ مستعجل کی راکھ سے اردو ادب کو محمد خالد اختر ملا۔ اردو ادب کے معدودے چند مکمل ادیبوں میں سے ایک ۔ جسے لفظ دُرِ تابدار کی طرح عزیز ہو ۔ جسے جملوں کی ٹوٹتی بنتی موجوں کی روانی زنجیر ہو ۔ عصر ی شعور کی ذمہ داری جس کے رگ وریشے میں جبلت کی طرح اتر گئی ہو۔ جسے کسی بھی رنگ میں موجود کے احترام سے مفر نہ ہو ۔ حرفِ انکار کی کشش جسے اس طور باندھ لے جیسے برہمن زادے کو بھجن کی لَے ۔ سترہ برس کا یہ کم عمر لڑکا اس وقت ریاست بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج میں طالب علم تھا۔

رحیم یار خان کے قصبے الٰہ آباد میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر کا آبائی خطہ گجرات تھا جہاں سے خالد کے دادا مولوی عبدالمالک بہاولپور آن بسے تھے۔ مولوی صاحب عربی، فارسی اور اردو کے صاحبِ تصنیف عالم تھے۔ والد مولوی اختر علی وہاڑی میں تحصیل دار نوآبادی تھے۔ گویا گہوارے میں علمی تربیت کا اہتمام تھا ۔ 1939ءمیں میکلیگن انجنیرنگ کالج ،لاہور چلے آئے۔ مزاح نگار شفیق الرحمان سے مکتب میں ملاقات ہوئی تھی ۔ یہاں دوستی ہو گئی۔ دونوں کا رنگِ تحریر جدا مگر رنگِ طبیعت ایسا ملاکہ تاعمرِ رواں دوستی کے بعد گویا رنگِ گل و بوئے گل کی طرح ہوا ہوئے۔

محمد خالد اختر 1946ءمیں تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ چناب کے عشق پرور حباب اور ستلج کی سنسناتی بالو سے جو خمیر اٹھا تھا ، راوی کی سرمست لہروں نے اسے ہلکورے دے کر نوخیز کیا۔ خالد نے اب تکمیل اکتساب کے طور پر اس میں ٹیمز کی موج ایزاد کی۔ برقیاتی انجنیئر تھے۔ ان کے قلم کی برق پاشی اردو ادب کو تاباںکر گئی۔

محمد خالد اختر نے ایوانِ ادب میں مزاح کا دریچہ چُنا تھا۔ ریاکاری کی شناخت اور انسانی حمق کی تفہیم کے دو پلڑوں میں خالد کا کسی قدر جھکاﺅ طنز کی طرف رہا ۔ نثر میں خالد کے طرزِاحساس پر رنگِ تغرب غالب ہے۔ وہ انگریزی بیانیے کے بظاہر ناتراشیدہ ترجمے سے دراصل اس نمرتا کا اظہار کرتا ہے جو جدید فکر کاخاصہ ہے۔ خالد اختر کو پڑھنا جدید آدمی سے نہیں، خود جدیدیت سے ملاقات ہے۔ یوں خالد اختر جہاں برخود غلط منافقت کی عبا چاک کرتا ہے ، اِسی الھڑ نثر میں تعلیم یافتہ چھب کاسا بانک پن جھلکنے لگتا ہے-نثر کا یہ ذائقہ محمد خالد اختر کے بعد عبداللہ حسین کو نصیب ہوا۔ دونوں کے رنگِ بیان ، پیشہ وارانہ پس منظر اور اجتماعی نقطہ نظر کے کتنے بہت سے زاویے ایک ہیں۔ اور پڑھنے والا یہ تو دیکھ ہی لیتا ہے کہ انکسار اور عجزِ بیان کی سرحدیں کہاں جدا ہوتی ہیں۔

محمد خالد اختر کے مزاح کو ٹھٹھے سے واسطہ نہیں۔ اسے شفیق الرحمن اور مشتاق یوسفی کی درمیانی کڑی کہنا چاہیے جہاں مزاح چٹکلے سے سفر کرتا ہوا اجتماعی فریضے کے منصب کو پہنچتا ہے۔ “کھویا ہوا افق “، “زندگی کی کہانی “اور ابنِ جبیر کا سفر نامہ “کے قاری محمد خالد اختر کی ہنرمند بنت سے آشنا ہیں ۔ وہ فہم اور مضحک کے دیالُو میل سے ایسی بیر بہوٹیاں تراشتا ہے جو اس نے کسی حیرت زدہ بچے کی طرح چولستان سے اٹھا کر شلوکے کی جیب میں رکھ لی تھیں۔ وہ اپنے کرداروں کو محبت اور تحیر کی ایسی فراواں دھنک میں بٹھا دیتا ہے کہ جبلت، محبت اور حماقت کی سہ جہتی تصویر انمٹ ہو جاتی ہے۔

ادب سے وابستگی ہو توبیان کی وسعت صنف کی تنگنائے کو خاطر میں نہیں لاتی ۔ خالد اختر کسی گھر بند نہیں تھے۔ برسوں کتابوں پر تبصرہ کیا ۔ ایسی سنجیدگی سے بزعم خود شہ پاروں کی دھجیاں بکھیرتے تھے کہ یار لوگوں نے تنگ آ کر محمد خالد اختر کو ادب کے منظر نامے ہی سے غائب کرنے کی ٹھانی۔ برسوں مزاح کے نام پر گرہست سے اکتائی عورتوں کی ریختی اور مکتبی لڑکوں کی ضلع جگت کا سکہ چلایا گیا۔

خالد اختر کی ادبی دین پر کئی رنگوں کی چُھوٹ ہے۔ زمین اور زمین پر بسنے والوں کے رنگ اور بندو بستِ سیاسی کے ڈھنگ۔ اسے ریاکاری سے نفرت تھی۔ “مکاتیبِ خضر “میں اس نے کیسے کیسے آہن پوش جنگجو ﺅں پرحرفِ حق کی تیغ کڑکائی ۔ اس کی زبان میں اہل تعزز کو جو فی نظر آتی ہے ، کچھ بے سبب نہیں ۔ بالغوں کے بھنگڑ خانے میں ڈاکٹر غریب محمد، قربان علی کٹار،چچا عبدالباقی اور بابا غلام محمد جیسے کردار ڈھونڈ نکالنے والا خالد اختر “ننھا مانجھی” اور “چھوٹا لڑکا یعقوب “تراشتے ہوئے مریم مقدس کی اتھاہ معصومیت کی خبر لاتا ہے۔ فن کار معصوم ہوتا ہے، لاعلم نہیں۔

چاکیواڑہ اور مٹھن کوٹ اداس ہیں کہ محمد خالد اختر چلا گیا ، کہانیاں کہتا ہوا ، ایک زود بصر گیانی کی سی وسعتِ قلب سے گاہے مسکراتا، گاہے ہنستا – گیا کی ترائیوں میں برگد کے پیڑ بہت ہیں … اور رات ابھی باقی ہے ۔

محمد خالد اختر

پیدائش: 23 جنوری 1920

وفات: 2 فروری 2002


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).