ننھا مانجھی (1)


میں نے اپنے ننھے مانجھی کو پہلی بار چھوٹی گھونگھے جیسی کشتی کے پاس جون 1938ء کی ایک سہ پہر کو دیکھا۔ دریا اپنے پاٹ میں چار دریائوں ستلج، سندھ، جہلم اور راوی کے پانی لیے، بل کھاتی اور پھنکارتی موجوں اور بھنوروں کا سمندر ہو رہا تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی، پانی ہی پانی اور تم پرلا کنارہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چھوٹی دم کٹی سی ریل نے ایک گھنٹا پہلے مجھے گنبدوں اور کھجوروں والے ٹرمینس ریلوے اسٹیشن پر اتارا تھا اور میں وہاں سے اپنا تھیلا کندھے پر رکھے اور ایک سوٹ کیس اٹھائے ایک دیہاتی باتونی لڑکے کی راہنمائی میں ریلوے لائن کی پٹڑی پر چلتا ہوا (کیونکہ اردگرد طغیانی کی وجہ سے پانی تھا اور پٹڑی ہی سب سے اونچی جگہ تھی) پی ڈبلیو ڈی کی فیری لانچ کو پکڑنے دریا کے کنارے پہنچا تھا۔ میری بدقسمتی کہ میں فیری لانچ کو نہ پکڑ سکا۔ ابھی ہم پتن سے دو فرلانگ دور تھے کہ کنارے سے ایک ہانک سنائی دی اور ایک سبز اور سفید مکان نما چیز حرکت کرتی نظر آئی۔

’’سائیں!‘‘ الجھے ہوئے بالوں والے دیہاتی لڑکے نے، جس کا نام گامن تھا، کہا ’’بیڑی ویندی پئی اے۔ تساں ہُن کل فجر ای وَنج سکدے او۔ ‘‘

میں نے خواہ مخواہ غصے میں سارا الزام اس پر دھرا کہ اس نے اپنی باتوں میں مجھے دیر کرا دی ورنہ میں فیری کو پکڑ لیتا۔ ہم کنارے پہنچے۔ فیری لانچ اب کافی دور جا چکی تھی۔ میں اس کے انجنوں کی چگ چگ کی آواز سن سکتا تھا۔ مچھیروں کی مستولوں والی دو تین کشتیاں سورج میں چمکتے پانیوں پر اچھل رہی تھیں اور ٹوکریاں بننے والے خانہ بدوش اپنی سرکنڈوں کی جھونپڑیوں میں کنارے پر پڑائو ڈالے بیٹھے تھے۔ موسم زدہ جھرّیوں والے بوڑھے اور چمکیلے سیاہ جسموں والے بے پروا نوجوان اور رنگ دار پھٹی ہوئی چھینٹ کے گھگھروں میں صحت مند جسموں اور کھرے پیتل کی سی رنگت والی عورتیں، جن کو دیکھنے سے دل میں گویا ایک پھانس سی اٹک جاتی تھی اور لاتعداد الجھے ہوئے بالوں والے چھوٹے بچے جو اپنے بڑوں کی مصروفیات اور دھندوں سے بے خبر، شور مچاتے، پانی میں کھیل رہے تھے۔

مجھے اس شام اپنے دریائی چچا احمد یار کے پاس پہنچنا تھا۔ اس گھر میں سب میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میں واپس اس سبزگنبدوں اور کھجور کے جھنڈوں والے گائوں چاچڑاں میں رات بسر کرنے نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر فیری لانچ جا چکی تھی اور دریا کے دوسرے کنارے پر جانے کی کوئی صورت نہ تھی۔

’’سائیاں! ‘‘ گامن نے کہا ’’رات اساڈے گھر رہو۔ تساڈی خدمت کریساں تے مٹھ مروڑے دیساں۔ میرا بابا فرید سائیں دیاں کافیاں خوب لَے نال گاندا اے۔ تے ساڈی ہک بکری اے۔ سائیں کوں اودا کھیر پویساں۔ ڈھاڈا مٹھا اے۔ فجر ہن ٹال میں سائیں کوں بیڑی تے چڑھا دیساں۔ ‘‘

  میں نے مستولوں والی کشتی کے ایک لمبی مونچھوں اور پٹوں والے بوڑھے مچھیرے سے دریافت کیا کہ آیا وہ مجھے دوسرے کنارے پر مِٹھن کوٹ لے جائے گا۔ اس نے اپنا سر ہلایا اور دریا کے سمت اشارہ کیا جو اپنی ناچتی شوریدہ لہروں سے واقعی خطرناک اور جان لیوا نظر آرہا تھا۔ اس نے کہا ’’پندھ بھی بہت زیادہ ہے اور ہوا اُلٹے رخ کی ہے۔ اس وقت کوئی تمھیں مٹھن کوٹ نہیں لے جائے گا۔ ‘‘

میں مایوس ہو گیا۔ میرے چچا نے میرے آنے کی خوشی میں اپنی ضرب المثل دریا دلی سے بڑا تکلف کر رکھا ہو گا اور اسے مایوسی ہو گی۔

تب میں نے اپنے ننھے ما نجھی کو دیکھا۔

وہ اپنی اچھلتی ہوئی گھونگھے نما کشتی کے پاس ایک لمبا بانس لیے کھڑا تھا۔ بمشکل بارہ تیرہ برس کا لڑکا،صرف لنگوٹی پہنے، اس کے بال گھنے گھنگھریالے اوربدن چمکیلا،لچکیلا اور سنہری تھا۔ وہ اپنے بانس کے ساتھ ایسی بے پروائی اور ایسے بانکپن سے کھڑا تھا جیسے وہ ایک چھوٹا سا دیوتا ہو۔ اس کی آنکھوں میں دلیری اور خوداعتمادی تھی اور اس کا چہرہ خوبصورت اور مسکراتا ہوا تھا۔ جنگلوں، دریائوں اور کھلے خطوں کی ایک مخلوق!

ایک لحظے کے لیے میں نے تاسف سے اپنے ناقص خوراک پر پلے ہوئے، پلپلے، توندیلے، آرام کے عادی جسم کے بارے میں سوچا۔ شہروں میں رہتے ہوئے، انسان نے خود کو غالباً خدا کی بدصورت ترین مخلوق بنا لیا تھا۔ آہ! یہ تہذیب کی نت نئی بڑھتی ہوئی آسائشیں! شہری آدمی کو آخر کس بات کا ناز تھا؟

ننھے مانجھی نے خود یہ مجھ سے پوچھا ’’سائیاں، پار جا سیں؟‘‘

’’تمھاری کشتی کمزور ہے۔ یہ ڈوب جائے گی چھوٹے لڑکے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

وہ ہنسا۔ اس کی ہنسی لوک گیتوں کا سُر تھی۔ اس کے موتیوں کی لڑی جیسے سفید دانت چمکے۔ اپنے تمباکو سے میلے کچیلے پیلے دانتوں کا سوچ کر حسرت کی چھری سی میری سینے میں اتر گئی۔

’’واہ سائیاں واہ!‘‘ وہ بولا ’’میری بیڑی نہیں بُڈدی۔ ایہہ پانی دی مچھلی اے۔ دریا دی چھل تے اُتوں پکھی وانگوں اُڈ جاندی اے۔ ‘‘

اس نے بتایا کہ وہ ہر روز پرلے ساحل سے مچھلیاں پکڑتے پکڑتے اس کشتی میں یہاں آتا ہے اور سرِ شام لوٹتا ہے۔

’’دریا میرا گھر ہے‘‘ اس نے سادگی سے کہا ’’سائیاں میں دریا وچ پڑھیا ہویا آں۔ دریا میرا سنگتی ہے۔ وہ میری اور میری کشتی کی حفاظت کرتا ہے۔ ‘‘

ایک جنگلی وحشی لڑکے سے اتنی عقل کی باتیں سن کر میں حیران رہ گیا۔ کس نے اس کو یہ باتیں سکھائی تھیں؟

’’تم اسکول میں پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا… یہ سوچتے ہوئے کہ ایسی دانائی صرف اسکول میں سیکھی جا سکتی ہے، یہ بھولتے ہوئے کہ مادرِ فطرت خود بہترین اُستاد ہے۔

وہ پھر ہنسا اور اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا ’’میرا اسکول، سائیاں! زمین ہے اور دریا ہے۔ ‘‘

گامن مجھ سے چمٹا ہوا تھا۔ وہ کبھی میرے کوٹ کو اور کبھی میرے بازوئوں کو کھینچتا۔ وہ خلوص سے چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ شہر میں اس کے کچے مکان میں رات گزاروں، اس کی بکری کا تازہ سجرا دودھ پیوں اور اس کے بابا سے فرید کی کافیاں سنوں۔

’’سائیاں! دریا ایک دم خطرناک ہے۔ میرے ساتھ آئو…‘‘ گامن بولا۔

اس پر ننھا مانجھی زور سے ہنسا ’’خطرناک!‘‘ اور چھلانگ لگا کر اپنی کشتی میں سوار ہو گیا۔ ’’میں اب جا رہا ہوں۔ تم آنا چاہتے ہو، توآ سکتے ہو۔ ‘‘

میں نہیں جانتا کہ اس وقت میرے دل میں کیا آئی۔ نہ جانے یہ اپنے ہنس مکھ، شکرے کی آنکھ والے چچا کی میرے نہ پہنچنے پر مایوسی کی فکر تھی اور اس بھنے ہوئے مرغ کا خیال تھا جو وہ اپنی خاص نگرانی میں پکوا رہا ہو گا یا یہ دریا کا وسیع حسن و جمال تھا یا پھر یہ اس جنگلی لڑکے کی خوداعتمادی سے بھری ہنسی تھی۔ میں نے یکلخت اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی میں ایسے بہادر لمحے آتے ہیں، جب آدمی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔

’’ٹھہرو! میں تمھارے ساتھ آ رہا ہوں۔ ‘‘

’’نہ نہ سائیاں! کملا نہ بنو ہا۔ ایہہ چھوکرا چوڑا ہے۔ کشتی بُڈ ویسی۔ ‘‘ مگر میں تو اب اپنے تھیلے اور سوٹ کیس کے ساتھ کشتی میں تھا اور کنارے پر حواس باختہ گامن کو احتجاج کرتے چھوڑ کر ننھا مانجھی اپنی مچھلی جیسی کشتی کو بھنوریلے، لپٹتے پانیوں میں لے جارہا تھا۔ وہ ایک یونانی دیوتا کی طرح حسین لگ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے میں اس کے اس دم سادھ دینے والے انسانی حسن میں کھو گیا اور اس خطرے کوبھول گیا جس میں کود پڑا تھا۔

جب میں نے اچھی طرح اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا تو خوف نے مجھ جکڑ لیا۔ پانی کی لہریں غصیلے سانپوں کی طرح کشتی کے کناروں پر شوکتی ہوئی آتی تھیں۔ میں پانچ منٹ کے اندر سر تا پا بھیگ گیا۔ کشتی میں بھی پانی بھرنا شروع ہو گیا۔ مگر ننھا ما نجھی صرف مسکراتا رہا۔ اس کے چہرے پر فکر یا خطرے کی کوئی علامت نہ تھی۔ کشتی ایک نازک گھونگھے کی طرح کبھی ادھر لڑھکتی جاتی کبھی ادھر اور کبھی سر کے بل اپنی دو سواریوں سمیت پانی کی گہرائیوں میں غوطہ لگاتی معلوم ہوتی۔ لیکن پھر یہ صحیح سلامت لہروں پر سوار نکل آتی۔ پہلے پندرہ بیس منٹ تک میرا سانس اوپر کااوپر اور نیچے کا نیچے رہا اور میری ہڈیوں کا گودا تک ڈر اور سہم سے گویا جم گیا۔ پھر لڑکے کی خوداعتمادی اور مسکراہٹ اور اس عجیب و غریب کشتی کی خطرے کے مقابلے میں چستی کو دیکھ کر مجھے کچھ اطمینان ہونے لگا۔ میں نے اس عرصے میں ایک لفظ نہیں کہا تھا اور نہ ہی لڑکا کچھ بولا۔ اپنے مطمئن انداز کے باوجود اس کی رگ رگ چوکنا تھی آنے والے خطرے کی بو وہ ایک جنگلی جانور کی طرح پا لیتا اور اپنے چپو کی مناسب جنبش سے اس پر قابو حاصل کر لیتا۔ اپنے خوف سے کچھ خلاصی پا کر میں نے دریا کے منظر کو دیکھا۔ یہ ایک پُر تجمل، ہولناک اور بے حد خوبصورت منظر تھا… سہ پہر کے سونے سے رنگے،اچھلتے، بپھرتے اور شوکتے پانی۔ ہم ایک دو ’جزیروں‘ کے پاس سے گزرے۔ سیلاب میں آدھی ڈوبی ہوئی بستیاں، لوگ ڈھکیوں پرچارپائیوں پر لیٹے ہوئے کھجوروں کی چوٹیاں پانی پر جھومتی ہوئی۔ میں نے سوہنے (یہ اس ننھے مانجھی کا نام تھا، اور کتنا مناسب!) سے پوچھا کہ یہ لوگ ڈرتے نہیں؟ اس نے کہا ’’نہیں! یہ لوگ دریائی ہیں اور دریا پر وہ اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے زمین پر۔‘‘

اس وقت دریا میں سوائے سوہنے کی چھوٹی کشتی کے اور کوئی کشتی نہیں تھی۔ ہم کبھی بانس اور کبھی چپو کی مدد سے پہلے ہوا اور بہائو کی مخالف سمت گئے، پھر ننھے مانجھی نے کشتی کے پیندے میں ایک مخصوص جگہ اپنا بانس گاڑ دیا اور سرکنڈوں سے بنا ہوا ایک بادبان، جو اس نے کہیں تختوں کے نیچے رکھا تھا، نکال کر اسے مہارت سے اس بانس پر باندھ دیا۔ اس نے یہ سب کچھ مکمل اطمینان اور بے پروائی سے کیا جیسے یہ دنیا کی آسان ترین چیز ہو، محض بچے کا کھیل۔ اس کے لیے واقعی یہ کھیل تھا۔ اس کے بعد وہ چین سے بیٹھ گیا ۔ میں نے اسے ایک سگریٹ سلگا کر دیا۔ وہ بڑا خوش ہوا اور اسے ایک جوان کی طرح پینے لگا۔

’’اب کوئی فکر کی بات نہیں، بیڑی ہمیں خود بخود دریا پار لے جائے گی سائیاں۔ دریا میرا بھی سنگتی ہے اور میری بیڑی کا بھی۔ سائیاں، تم اب تک تو سمجھ گئے ہو گے۔ ‘‘

اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس ملک سے آیا ہوں اور مٹھن کوٹ کس کے پاس جا رہا ہوں۔ میں نے اسے اپنے چچا کا نام بتایا، تو اس کے چہرے پر ایک سایہ سا آیا، لیکن پھر اس پر پہلی سی چمک عودآئی۔ ’’اساں سوہنے سائیں دی رعیت ہاں۔ میں تینکوں اُتھے لے جاساں۔ ‘‘

شام پڑنے لگی تھی اور پرلا کنارہ جس کی طرف ہم جا رہے تھے، کھجوروں اور گنبدوں کی ایک دھند سا بن رہا تھا۔ دریا کے بہائو کی سمت ایک دو میل دور۔ سوہنا کبھی کبھی اپنے گھونگھے کو سیدھی سمت پر رکھنے کے لیے چپو چلا دیتا اور بس۔

وہ گانے لگا۔ اس کی آواز میں ایک وحشیانہ تموج تھا، ایک آزاد الاپ تھی… اپنے دریا سے مستعار لی ہوئی الاپ۔ یہ اس کے دیس کا نغمہ تھا جہاں آدمی قدرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتا تھا اور تنومند اور دلیر اور جیالا ہو کر پروان چڑھتا تھا:

میری بیڑی ویندی پئی اے

نچدی کِھلدی ویندی پئی اے

دریاواں دی مچھی اے

سوہنی اے تے سسی اے

میری بیڑی ویندی پئی اے

بھلّن تے سنسار دریا دے

تر کندے سنگھاڑ دریا دے

بیڑی دے ہن یار سبھانے

’’یہ بڑا اچھا گیت ہے سوہنا۔ یہ گیت کس کا ہے؟‘‘

میرے یہ کہنے سے وہ بڑا خوش ہوا ’’یہ گیت میں نے خود بنایا ہے۔ میں نے اور کئی گیت بنائے ہیں۔ جب میں مچھلی کے شکار پر آتا ہوں تو گیت خودبخود میری زبان پرآجاتے ہیں۔ بہت سے تو مجھے بھول بھی گئے ہیں۔ مگر کیا ہوا، نئے گیت میں آسانی سے بنا لیتا ہوں۔ ‘‘

سوہنے میں ایک شاعر کی روح تھی اور جب شام گہری ہوئی، تو میں نے اپنے خوف کو بالکل بھلا کر اس سے مختلف سوال پوچھنے شروع کیے۔ اس سے زیادہ پرکشش اور حیران کن لڑکا میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک چوہڑے کا بیٹا ہے اور اس کا باپ مرچکا ہے۔ اس کی ماں ٹوکریاں بن کر پیٹ پالتی ہے اور وہ اپنی چھوٹی کشتی میں مچھلیاں پکڑتا ہے۔ وہ بہت غریب ہیں اور دنوں تک ان کی خوراک میں ابلی ہوئی مچھلی اور بھنے ہوئے باجرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ انھیں ہفتوں تک کھانا نصیب نہیں ہوتا۔

یہ کشتی جس میں ہم اس غصیلے پانی پر سفرکر رہے تھے، سوہنے نے خود اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے تنے کو کھوکھلا کر کے اور کچھ تختے جوڑ کربنائی تھی۔ اس میں بیٹھ کر وہ اکیلا مچھلی پکڑنے جاتا… کانٹے اور ڈور کے بغیر۔ اس کے پاس ایک پھٹا پرانا جال تھا جو ایک شناسا مچھیرے نے اسے دیا تھا۔ اسے ایسی آوازیں نکالنی آتی تھیں، خاص قسم کی سیٹیاں اور کلکاریاں اور لوریاں، کہ جن کو سن کر مچھلیاں خود بخود کشتی کی طرف کھنچی چلی آتی تھیں۔

’’سائیاں! میکوں مچھی آون دا آپے آپ پتا چل ویندا اے۔ ‘‘ اس نے کہا۔

سوہنے میں وہ چھٹی حس تھی جو قدرت کے سب جنگلی جانوروں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی حس سے ہوا کے پرندے طوفان کے آنے سے گھنٹوں پہلے خبردار ہو جاتے ہیں اور شکاری کتے خرگوش کے قدموں سے اس کی بوپا کر اپنے کان کھڑے کر لیتے ہیں اور چمگادڑ اپنی آنکھوں کے بغیر سب رکاوٹوں سے بچتی بچاتی اڑتی ہے۔ ابھی روہی میں ایسے لوگ ہیں جو زمین کے نیچے پانی کو سونگھ لیتے ہیں اور کبھی ایسے ریڈ انڈین بھی ہوتے تھے جو ایک ٹہنی کی ہلکی سی چٹخ سے یہ بتا سکتے تھے کہ ان کی کھوج میں کون دشمن آرہا ہے۔ سب مخلوقات جو قدرت کے ساتھ یکجان ہو کر رہتی ہیں، اس چھٹی حس کی مالک ہوتی ہیں اور یہ باعث حیرت نہیں کہ ننھے مانجھی کو یہ پتا چل جاتا تھا کہ مچھلی آ رہی ہے۔

جب مچھلی نزدیک آ جاتی، تو وہ اپنے منہ میں چاقو اور ہاتھ میں جال لیے دریا میں چھلانگ لگا دیتا۔ وہ کبھی کشتی میں سے جال نہیں پھینکتا تھا کیونکہ جال پھٹا پرانا تھا اور اس میں سے مچھلی کے نکل جانے کا خطرہ تھا۔ پانی میں وہ مچھلی کو جال میں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ یہ کوشش اکثر بار آور ہوتی، لیکن اگر مچھلی جال میں کسی وجہ سے نہ آتی، تو وہ اپنے ہاتھ استعمال کرتا۔

اس نے مجھے بتایا کہ وہ مچھلی کے شکار کے وقت منہ میں چاقو کیوں دابے رکھتا ہے؟ اس نے کہا، دریا میں ایک بڑی مچھلی بھلّن ہوتی ہے۔ جب مچھلیاں اس کی کشتی کی طرف آتی ہیں ، تو بعض دفعہ یہ بھلّن ان کے پیچھے پیچھے آ پہنچتی ہے۔ یہ گدھے جتنی بڑی ہوتی ہے اور بہت طاقتور ہوتی ہے۔

’’ایہہ چاقو، سائیاں! بھلّن کو مارنے کے لیے ہے۔ میں بھلّن کے پیٹ کے نیچے تیر کر جاتا ہوں اور دو تین بار اس کے پیٹ میں چاقو گھونپتا ہوں۔ اپنے قدو قامت کے باوجود یہ آسانی سے مرجاتی ہے۔ ‘‘

سوہنے نے مجھے اپنی بائیں ٹانگ دکھائی۔ یہاں گھٹنے سے لے کر ایڑی تک ایک ایک گھائو کا نشان تھا۔ ’’سائیاں، بوجھو یہ کیسے ہوا؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).