قانون کی عمل داری کیسے قائم ہو جب ۔۔۔


کامیاب معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں معاشرے کے لیے وضع کردہ قوانین پر عمل کیا جاتا ہو۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں قانون سے بالادست رہنے کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کے اس کے تمام نجی امور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر سر انجام پاجائیں۔ مثال کے طور پر ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر جب ٹریفک وارڈن کسی شہری کو گرفت میں لیتا ہے تو شہریوں کی اکثریت کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ کچھ لے دے کہ معاملے کو نمٹا لیا جائے۔ کون کورٹ، کچہری اور پولیس کے چکر میں پڑکر وقت برباد کرے جب ٹریفک وارڈن کو 100 یا 50 روپے دے کر معاملہ رفع ہوسکتا ہے۔ شہریوں میں قوانین پر عمل نہ کرنے کی شعوری کمی کی کئی وجوہات ہیں۔

اس میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی تعلیمی نصاب میں ابتدائی جماعتوں میں ’شہریت‘ بطور مضمون نہیں پڑھایا جاتا اور نہ شہری امور سے متعلق حکومتی ادارے، تعلیمی اداروں میں طلباء کو شہری امور و قوانین کے بارے میں آگاہی و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ چار دہائی قبل کراچی کے تعلیمی اداروں میں ’شہریت‘ بطور مضمون پڑھایا جاتا تھا لیکن نجانے کن وجوہ کی بناء پر یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔ تعلیم و ترقی یافتہ اقوام میں طلباء کو ابتداء سے ہی قانون کے احترام کا درس دیا جاتا ہے اور شہری کس طرح معاشرے میں میل جول اور ناگہانی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں، کی تربیت دی جاتی ہے۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بھی، اپنے ذاتی معاملات میں بھی انصاف کے حصول کے لیے بے بس نظر آتے ہیں۔ چند سال قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اعلی ا فسر کے بیٹے کا بے دردی سے قتل ہوتا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر قتل کی خوب تشہیر ہوتی ہے اور متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کا بھرپور اور پر زور مطالبہ کیا جاتا ہے۔ قانون بھی حرکت میں آتا ہے۔ ملزم گرفتار ہوتا ہے، کیس کی باقاعدہ سماعت بھی ہوتی ہے اور ملزم کے لیے سزا بھی تجویز کردی جاتی ہے۔ لیکن متاثرہ اعلی افسر بااثر افراد کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور صلح نامہ ہوجاتا ہے۔ گو کہ عدالت صلح نامہ کو رد کردیتی ہے لیکن سزا پر عمل درآمد ابھی بھی نہیں ہوسکا ہے۔ ملزم جیل میں رہتے ہوئے بھی تمام سہولیات سے بھرپور لطف انداز ہورہا ہے۔

رواں سال کی ابتداء میں طیّبہ تشدد کیس منظر عام پر آتا ہے۔ اس کیس میں بھی ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری ہوجاتی ہے اور ضمانت دینے والے ملزم کے سابقہ رفیق کار نکلتے ہیں۔ بعد ازاں طیّبہ کا باپ عدالت میں حلف نامہ داخل کراتا ہے کہ کیس غلط فہمی کی بناء پر درج ہوگیا ہے اور ہمارا راضی نامہ ہوگیا ہے۔ ملزمان کی ضمانت پر اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان دو کیسز سے پتا چلتا ہے کہ ملزمان اگر بااثر ہوں تو قانون ان کی مٹھی میں ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور اس کی راہ داری میں اراکین اسمبلی میاں جاوید لطیف اور مراد سعید میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہوئی۔ میاں جاوید لطیف نے بعد ازاں مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں پریس کانفرنس میں کیں جس سے سب کے سر شرم سے جھک گئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے 6 رکنی بااختیار تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی جس نے 16 مارچ تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔ کمیٹی نے میاں جاوید لطیف پر 8 دن اور مراد سعید پر 2 دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں داخلے پر پابندی لگائی لیکن سزا پر عمل درآمد سے قبل ہی جرگہ نے ممبران اسمبلی کے درمیان صلح کرادی اور مضحکہ خیز سزا کا مضحکہ، صلح کی صورت میں اڑایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ممبران اسمبلی کو قانون کے مطابق کڑی سزا دی جاتی۔ تاکہ اس طرح کے افسوس و شرم ناک واقعات کا اعادہ مستقبل میں نہ ہوتا۔

لیکن وطن عزیز میں ہمیشہ سے بااثر افراد ہی حکومت اور ایوان میں رہے ہیں۔ اس لیے کڑی سزا کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک کے بیشتر پسماندہ علاقوں میں بااثر افراد کا ہی قانون چلتا ہے مگر لاہور جیسے شہر میں بھی بااثر افراد متوازی قانون، حکومت کی سرپرستی میں چلارہے ہیں اور فیصلے صادر کررہے ہیں۔ اب تو قومی اسمبلی نے بھی جرگہ اور پنچایت سسٹم کو بذریعہ قرار داد قانونی تحفظ فراہم کردیا ہے۔ ایسی صورت میں تو بااثر افراد کا قانون ہی ملک میں چلے گااور وطن عزیز میں قانون کی عمل داری کیسے قائم ہوگی جب۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).