23 مارچ: سرسوں کے کھیت میں کپاس کا پھول


موسمِ بہار کی دبے قدموں آمد اب گل پوش درختوں، معطر فضاﺅں اور جا بجا حسین پھولوں کی آرائش سے عیاں ہوئی جاتی ہے۔ موسم کیسا ہی سرد و سخت کیوں نہ ہو، ننھی کونپل دھرتی کا سینہ چیرکر بدلتے وقت کا اعلان ضرور کرتی ہے۔ بد قسمی سے ہم نے جب سے تبدیلی اور انقلاب کے لفظوں کو سیاسی نعروں سے مشروط کیا ہے ان لفظوں کے وسیع معنی منجمد ہو نے لگے ہیں۔ مارچ کا آخری عشرہ شروع ہو نے والا ہے جس کے ساتھ ہی وطنِ عزیز میں 23 مارچ کی تقاریب کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو جائیں گی۔ بچپن کی یادوں سے ذہن پہ نقش فوجی پریڈ سے لے کر یادگار تقاریب ،مکالموں اور مباحث کے عارضی سلسلوں کا انعقاد نہایت شان و شوکت سے کیا جائے گا۔ قرار دادِ پاکستان کے لباس میں ملبوس قرار دادِ لاہورکی بحث ایک بار پھر بہت سے سوالوں کو ذہن میں الجھتا چھوڑ کر تاریخ کے دھندلکوں میں لوٹ جائے گی اور ہم اپنی منزل کی طرف ایسے ہی رواں ہو جائیں گے جیسے اخترالایمان نے کہا تھا:

ہماری مضطرب روحیں

بدلتے موسموں کا جامہ پہنے شدتِ احساس کے دوزخ میں رقصاں ہیں

تاریخ میں 23 مارچ سے وابستہ جو بھی مباحث ہوں چاہے وہ اس قرار داد کی صحیح تاریخ کا تعین جو 23 یا 24 مارچ میں سے کوئی ایک ٹھہری ، 23 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ کی تقریبات ہوں جنھیں یومِ جمہوریہ کہہ کر منایا گیا اور بعد میں کسی آمر کی ایما پر اُنھیں آئین کے نفاذ کی بجائے 23 مارچ سے جوڑ دیا گیا، قرار دادِ لاہور ہو جس میں ریاستوں کی جگہ ریاست کی لفظی ترمیم کی گئی یا صوبوں کے مقررہ اختیار و اقتدار کی خود مختاری کی بات کی گئی ، ہم ایسی کسی بھی بحث سے کنی کترا کر نکلنا چاہیں بھی تو چند نکات ہمارے قدم ضرور روکتے ہیں۔ وہ نکات جن کی رو سے ہمیں مساوات اور سیاسی انصاف کے ساتھ ساتھ اظہارِ خیال، عقیدہ، دین ،عبادت اور جماعت کی آزادی دی گئی تھی۔ جہاں اقلیتوں کو اپنے عقائد کی پیروی کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کی آزادی اور ان کے پچھڑے ہوئے طبقات کو جائز حقوق اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ لیکن آج کا چمکتا سورج گواہ ہے کہ اس نے بار ہا وطن عزیز میں ان نکات کو اسی آزادی و ایمان کے پرچم تلے پائمال ہوتے دیکھا۔ اظہارِ خیال کی آزادی پہ لگنے والی قدغن نے بارہا حلقہ زنجیرکو زباں دی۔عقیدے کے نام پہ پھیلائی جانے والی شر انگیز نفرت اور تعصب نے جانے کتنی بار خون کی ہولی کھیلی، جماعت کے نام پہ ہم جتنے دھڑوں میں منقسم ہو سکتے تھے، ہوئے۔ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کا تو ذکر ہی کیا، معمولی جھگڑوں کو ہم نے اہانتِ مذہب کی مقدس تہمتوں میں لپیٹ کر فریقِ ثانی کے خون کا جواز تراشا۔ قاتلوں کو غازی اور حق بات کہنے والوں کو کافر کے خطاب سے نوازا۔

ایک ایسی ریاست جہاں کے عوام خود کو ایمان واخلاقیات کا علمبردار گردانتے ہوں، اور آئے روز ہونے والے سانحات کی ذمہ داریاں ایک دوسرے کے کاندھوں پہ ڈالنے کے خواہش مند ہوں، وہاں فرد کا انفرادی محاسبہ ضروری ہو جاتا ہے۔ ن م راشد نے پوچھا تھا آگہی سے ڈرتے ہو؟ اور ہم نے اس کا جواب اثبات میں ایسے دیا کہ آگہی و بصیرت پھیلانے والے سب اذہان کو کفر کے نعروں سے مقفل کرڈالا۔ خود اپنے گریبانوں میں جھانکے بغیرہر راہ چلتے سے تجدیدِ ایمان کا سرٹیفکیٹ ایک کلمے کی صورت طلب کیا۔ ویسے ہی جیسے اشفاق احمد کے افسانے گڈریا میں رانو نے داﺅ جی سے طلب کیا تھا :

”کلمہ پڑھ پنڈتا“، اور جب داﺅ جی آہستہ سے بولے ”کون سا“۔

تب رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا”سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں۔۔“

یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے مذہبی تکبر سے باہر نکل کریہ جاننا ہوگا کہ پر امن جمہوریت کا سنگِ بنیاد مساوات ہے۔ ریاست کی شہریت کے حقوق کسی بھی قسم کی مذہبی ترجیح سے مبرّا ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایسا نا قابلِ تنسیخ حق ہے جس پر عمل پیرا نہ ہو کر ہم اسلام اور جمہوریت کی نفی کرتے ہوئے ایک شائستہ سماج کی روایت کھو رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا شخصیت کی قامت تقویٰ اورپارسائی سے نہیں، سماجی اور انسانی فلاح سے بلند ہوا کرتی ہے۔ ہمارے قومی پرچم کا تقاضا ہے کہ سرسوں کے سبز لہلہاتے کھیت میں کپاس کے سفید پھولوں سے امن کا اعلان کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).