نوبل انعام یافتہ شاعر ڈیرک والکوٹ کے انتقال پر تعزیتی نوٹ


”مرجانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں تھا، لیکن جینے کا بھی یہ کوئی ڈھنگ نہیں تھا“

”میں ایک لاطینی امریکی ناول میں ہوں، ایسا ناول جس میں ایک بگلے جیسے سفید بالوں والا بوڑھا کسی ان دیکھے دکھ سے، کسی حدردجہ ناگوار آزار سے کانپ کر رہ جاتا ہے“

”کس نے میری میز سے ٹائپ رائٹر ہٹا دیا ہے

پس میں اپنے پیانوکے بغیر موسیقار ہوں

 ایک خالی پن میرا منتظر ہے، اتنا ہی واضح اور مضحکہ خیز، جیسی ایک نئی بہار؟

میری رگیں، شگوفے ہیں اور میں نظموں سے یوں لبریز ہوں، جیسے کالی تاروں سے بھرا کوڑا دان“

یہ سطریں ڈیرک والکوٹ کی ایک نظم ”ایک گاﺅں میں “ سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ ڈیرک والکوٹ کا نواسی برس کی عمر میں 17 مارچ کو ان کے گھر سینٹ لوشیا میں انتقال ہوا ہے۔ ایک شاعر کے لیے تعزیت نامے کاآغاز اس کی شاعری کے ذکر ہی سے ہونا چاہیے۔ آدمی چلا جاتا ہے، شاعری باقی رہ جاتی ہے! ایک ایسی حقیقت کے ذکر سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے جسے آدمی کا فنا پذیر وجود، اپنے تخیل کی طاقت سے ابدی بنا دیتا ہے!

1992ء میں ادب کا نوبیل انعام جیتنے والے ڈیرک والکوٹ کا آبائی وطن کریبین جزائر (جنھیں ہم زیادہ تر ویسٹ انڈیز کے نام سے جانتے ہیں) میں سے ایک جزیرے سینٹ لوشیا تھا، مگر ان کے آباﺅ اجداد میں مقامی، ولندیزی اور انگریزی خون کی آمیزش تھی۔ یہی صورت سینٹ لوشیا کی تھی۔ سینٹ لوشیا بجائے خود فرانسییی لفظ ہے۔ سترھویں صدی میں، جب یورپی نوآبادکار ایشیا و افریقا میں اپنی نوآبادیاں قائم کرنے کے لیے اپنے ملکوں سے نکل رہے تھے، بحیرہ کریبین کے اس جزیرے پر بھی پہنچے،اور اسے نوجوان شہید عیسائی خاتون کے نام پر، ایک نئی شناخت دی۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ شہروں کی مذہبی شناختوں کے کھیل کواستعمارکاروں نے بڑی مہارت سے کھیلا، جسے ایشیا کے پس نو آبادیاتی ملکوں نے کہیں زیادہ ولولے اور جوش سے تاحال جاری رکھا ہے۔ کیسا دل چسپ اتفاق ہے کہ آج ہی ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ دیوبند سے منتخب ہونے بی جے پی کے رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس شہر کو دیو ورند کا مہابھارت میں مذکور پرانا تاریخی نام واپس دلوانے کی جدوجہد کریں گے۔ یوں بھی گزشتہ دوصدیوں سے” اصل “جنگیں ناموں، کلامیوں اور بیانیوں کی ہیں۔ فرانسیسوں نے اس جزیرے کو مقدس مذہبی شناخت ہی نہیں دی، زبان بھی مسلط کی۔ بعد میں برطانوی پہنچے۔ سینٹ لوشیا دونوں میں ایک گیند بنا رہا۔ کبھی فرانسیسوں کے پاس، کبھی برطانیہ کے پاس۔ شاید اسی لیے اسے ایک ستم ظریف نے اسے ویسٹ انڈیز کی ”ہیلن “ کا نام دیا۔ جب ڈیرک والکوٹ 1930ء میں پیدا ہوئے، تب یہ برطانیہ کی نوآبادی تھ ا(1997ء میں یہ خود مختار ریاست بنا)۔ ڈیرک والکوٹ کی ابتدائی تعلیم اس خالص انگلش طریقے پر ہوئی، جسے برطانیہ نے باقی نو آبادیوں میں اپنے ثقافتی امپیریل ازم کے تحت رائج کیا تھا۔ ایک شاعر اور استانی کے بیٹے ڈیرک والکوٹ (جس کا جڑواں بھائی روڈرک والکوٹ تھا) نے شیکسپیئر، ایلیٹ اور ایذرا پاﺅنڈ کے مطالعے سے اپنی بالغ ذہنی زندگی کا آغاز کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کی والدہ اسے کریبین کہانیاں نہیں، شیکسپیئر کی شاعری اور ڈرامے سنایا کرتی تھیں۔ اس امر کا آگے چل کر ڈیرک والکوٹ کے ادبی تصورات پر گہر ااثر پڑا۔ دوسری طرف ڈیرک والکوٹ نے اپنی تعلیم سینٹ لوشیا اور یونیورسٹی آف ویسٹ انڈیز سے مکمل کی، اور یہ تعلیم انگریزی زبان اور انگریزی طرز پر ہوئی۔ایک انٹرویو میں وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ شیکسپیئر ان کی اسی طرح ثقافتی و ادبی وراثت کا حصہ ہے، جس طرح کسی بھی دوسرے یورپی کا۔ تھیٹر سے وابستگی، ایک طرف ان کے والد (جن کا انتقال ڈیرک والکوٹ کے بچپن میں ہوگیا تھا) کا اثر ہے، جو شوقیہ تھیٹر کرتے تھے، اور جس میں ان کی والدہ اداکاری کیا کرتی تھیں،اور دوسری طرف شیکسپیئر کا اثر بھی کہا جا سکتا ہے۔

اگرچہ انھوں نے اپنی شاعری اور ڈراموں میں افریقہ کی نو آبادیاتی اور پس نو آبادیاتی دنیا کے مسائل، پیچیدگیوں اورتضادات پر لکھا ہے، لیکن ان کے یہاں افریقا کے قبل نو آبادیاتی کلچر کی ناستلجیائی کربناک یاد کم سے کم ہے،جس طرح یہ ہمیں افریقی چنیو ااچیبے یا لاطینی امریکی ناول نگاروں خصوصاً مارکیز کے یہاں نظر آتی ہے۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ وہ کریبین کی تاریخ کو اپنا موضوع نہیں بناتے۔ وہ اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ تاریخ و کلچر کی بازیافت، جس مﺅثر انداز میں ناول میں ممکن ہے، شاعری میں نہیں۔ان کی طویل نظمیں، کسی حد تک انھی تاریخی وثقافتی مسائل و موضوعات کو وسیع تناظر میں پیش کرنے کا ذریعہ کہی جا سکتی ہیں۔ ڈیرک والکوٹ کریبین تاریخ کو یورپی تاریخ کی بعض اہم ترین علامتوں کی مدد سے واضح کرتے ہیں۔ خصوصاً اوڈیسی، ان کے لیے کافی کشش انگیز متن رہا ہے۔ اگرچہ وہ اس خیال سے اختلاف کرتے تھے کہ انھوں نے اپنی طویل نظم Omerosمیں ہومر کی اوڈیسی اور ایلیڈ کو نئے سرے سے پیش کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کریبین مچھیرے کی سمندروں میں مسلسل جدوجہد کو بیسیویں صدی کی اوڈیسی ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ڈیرک نے اپنی شاعری کے لیے جس آہنگ کو اختیار کیا، وہ خالص کریبین ہے،اور جن فطری مناظر کو وہ زیادہ تر کریبین ہیں۔ کریبین لینڈ سکیپ انھیں اس لیے بھی زیادہ مسحو رکرتا ہے کہ وہ وقت و تاریخ سے آزاد ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے انگزیزی زبان اور اس کی شاعری کو ’ڈی کولونائز‘ کرنے کا ایک اپنا طریقہ کہا جا سکتا ہے!

 ڈیرک والکوٹ نے کم عمری ہی میں شاعری لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کی پہلی کتاب انیس برس میں چھپی اور خود چھاپی اور خود ہی گلیوں میں کھڑے ہو کر اسے تقسیم کیا۔ یہ عام لوگوں کے ساتھ شاعری کا تعلق قائم کرنے کی کوشش کی، مگر جب ان سے 2006 ءمیں پوچھا گیا کہ ”کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی شاعری قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچ رہی ہے؟ یا آپ کا کیا خیال ہے کہ شاعری کی محفلیں بڑے پیمانے پر لوگوں کی توجہ نہیں کھینچتیں؟“ تو ڈیرک والکوٹ نے لگی لپٹی بغیر جواب دیا کہ نہیں، شاعری ہرگز عام شاہراﺅں تک نہیں پہنچتی۔ نیویارک میں چارسو سے پانچ سو لوگ شاعری کی بڑی سے بڑی محفل میں اکٹھے ہوتے ہیں اور سینٹ لوشیا میں سو لوگ۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ ان کے آبائی وطن میں شاعری کے لیے جمع ہونے والوں کی شرح نیویارک سے زیادہ ہے۔ اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے زمانے کی شاعری قاری کو مسرت نہیں دیتی، ذمہ داری دیتی ہے۔ شاعری کو سمجھنے کی ذمہ داری داری، اور یہ ذمہ داری کم ہی قارئین قبول کرتے ہیں۔عام قارئین شاعری سے مسرت و تفریح کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیا ڈیرک والکوٹ بین السطور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاعری کا زمانہ لد گیا؟ اور اس کی جگہ ثقافت کی صنعت نے لے لی ہے، جس میں ٹی وی اور ہالی ووڈ پیش پیش ہیں؟اس ملال کا اظہار اس تحریر کے آغاز میں درج شعری سطروں سے بھی ہورہا ہے۔ شاعری کے حوالے سے یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس وقت جب ہم ایک سابق نو آبادی کے نوبیل لاریٹ شاعرکے انتقال کے بعد انھیں یا د کررہے ہیں تواس تلخ حقیقت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یورپ وامریکا میں بھی شاعری کی کتابیں زیادہ تر شاعر خود ہی محدود تعداد میں چھاپتے ہیں، اور انیس سالہ ڈیرک والکوٹ کی مانند اپنے دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں،ا س فرق کے ساتھ کہ اب شاعر گلیوں کے نکڑوں پر نہیں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں تقریب کرکے اپنی کتاب تقسیم کرتے ہیں۔

اگر شاعری کی محفلوں کو دیکھیں تو وہ شاعری زیادہ پسند کی جانے لگی ہے، جس میں تفریح کا عنصر ہو، یعنی جو لوگوں کو ہنسائے، خواہ وہ مزاح کی صورت میں ہو، عشق و سیاست کے لیے زبان کا ذومعنی استعمال ہو۔ وہ شاعری جو انسانی روح سے مخاطب ہوتی ہے، یا انسان کو احساس کی ایک ارفع سطح تک لے جاتی ہے، یا انسانی ہستی کی پیچیدگیوں اور تضادات کو انتہائی مﺅثر جمالیاتی پیرائے میں سامنے لاتی ہے، وہ بس چند لوگوں تک محدود ہو۔ اردو میں صورت حال بھی خاصی پریشان کن ہے۔ چند دن پہلے امجد اسلام امجد سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ان کی کتاب ذرا پھر سے کہنا، پروین شاکر کی خوشبو کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی، تین سے چار ہزار سالانہ فروخت ہوتی تھی، جو اب زیادہ سے زیادہ ہزار کی تعداد میں بکتی ہے۔ اگر یہ حال مقبول شاعری کا ہے تو سنجیدہ، مشکل شاعری کا حال کیا ہوگا؟ ڈیرک والکوٹ کو یاد کرتے ہوئے ہمیں اس سوال پر ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم دن رات دہشت پسندی کے مقابل جس متبادل بیانیے کی ضرورت اور اس کی تشکیل پر مغز کھپا رہے ہیں،اس کا کوئی تعلق شاعری و آرٹ کے محدود ہوتے ہوئے سماجی اثر سے بھی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).