تین طرح کے ڈاکٹر


آج کچھ ڈاکٹروں کا ذکر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ تین طرح کے ڈاکٹروں سے آپ کو متعارف کروانا ہے۔ تینوں ہی اپنی صفات کے حساب سے منفرد ہیں۔ تینوں کے الگ الگ خواص، الگ الگ خواہشیں اور الگ الگ مسائل ہیں۔ یہ تین طرح کے ڈاکٹر نہیں، زندگی کے تین رخ ہیں۔

ڈاکٹروں کی پہلی قسم کو ہم ینگ ڈاکٹر کہتے ہیں۔ ہر موقع پر ہڑتال ان کا فرض اولین ہے۔ سیاسی رہنمائوں کے اشارے پر، ذاتی مفاد کے لئے ، تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کے لئے یہ کسی بھی وقت ہڑتال کر سکتے ہیں اینکروں کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات ہیں۔ میڈیا میں خبر لگوانے کا ہنر یہ جانتے ہیں۔ اہم شاہراہوں پر دھرنا دینا ان کی صفات میں شامل ہیں۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنا ان کو بہت اچھی طرح سے آتا ہے۔ ان کے دھڑے بہت مربوط ہیں۔ ایک شہر میں ہڑتال کی خبر ملتی ہے تو باقی شہروں میں بھی یہ مریضوں کو مرتا چھوڑ کر نعرے لگاتے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کہیں آگ لگے، کہیں سر پھوٹیں، کہیں گولی چلے یا پھر پولیس سے تصادم ہوتو پھر یہ گریبان پھاڑ کر سڑکوں پر نکلیں اور اپنی مسیحائی کے نام پر ہم سے انتقام لیں۔ ان کی اس جد و جہد میں مریض کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ مریض چاہے سسکتے رہیں، اسپتالوں کی ایمرجنسی میں بے شک تالے پڑ جائیں، او پی ڈی میں جالے لگ جائیں۔ بس ان کے مطالبات مان لئے جائیں۔ حکومتیں صحیح یا غلط کی بحث میں نہ پڑیں بس ان کو مان لیں۔ ان کے قدموں میں سرنگوں رہیں، ان کے خوف سے کانپتی رہیں۔

دوسری قسم کے ڈاکٹروں کو سمجھنے کے لئے قصہ ذرا تفصیل سے سننا پڑے گا۔ اسلام آباد کے معروف اسپتال پمز کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس میں ایک کارڈک سینٹر موجود ہے۔ جہاں دل کے مریضوں کے آپریشن ہوتے ہیں اور یہ اپنے علاج کے معیار کے لئے پاکستان بھر میں جانا اور مانا جاتا ہے۔ سن دو ہزار پانچ میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے تین سال کا وقت دیا گیا۔ شومئی قسمت یہ منصوبہ سن دو ہزار آٹھ میں مکمل نہیں ہو سکا اور اس کی تکمیل میں گیارہ سال لگ گئے۔ یہ تاخیر کسی دور افتادہ گائوں کا قصہ نہیں ہے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا ذکر ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں اس منصوبے کے لئے اکتیس لوگوں کے اسٹاف کی منظوری دی گئی۔ جنہوں نے سہولتیں نہ ہونے کے باوجود اپنا کام شروع کر دیا۔ ہر سال ان لوگوں کو ایک سالہ میعاد کا کنٹریکٹ دیا جاتا اور اگلے سال ان کے کنٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کر دی جاتی۔ جب ملازمت پکی ہونے کا مرحلہ آیا تو انہی ڈاکٹروں کو اوور ایج کہہ کر ان کی تنخواہ روک دی گئی۔ یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ ان دس برسوں میں اس کارڈک یونٹ نے بیت المال اور زکوۃ فنڈز کے تعاون سے قریبا چار ہزار بائی پاس کے مستحق مریضوں کے آپریشن کئے اور قریبا آٹھ ہزار لوگوں کی انجیو پلاسٹی کی۔ گزشتہ اکیس ماہ سے ان فرشتہ صفت ڈاکٹروں کے کارناموں پر حکومت نے ان کی تنخواہ روک کر اپنے فرائض کی زبردست ادائیگی کی ہے۔

یہ لوگ مستحق مریضوں کے آپریشن کرتے ہیں ، خدا کی رضا اور اپنے ہنر سے قریب المرگ مریضوں کو شفا دیتے ہیں مگر ان مسیحائوں کے گھروں میں ماتم ہے۔ ان کی اپنی جیب خالی ہے۔ ان میں سے بیشتر قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔ کچھ نے بچوں کوا سکولوں سے اٹھا لیا ہے۔ کچھ کے گھر وں میں فاقہ مستی کا عالم ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان بھر سے دل کے مستحق مریض علاج کے لئے اسی ادارے کا رخ کرتے ہیں اور یہی بے تنخواہ ڈاکٹر ان مریضوں کا علاج پوری تندہی سے کرتے ہیں۔ پمزاسپتال کے کارڈک سینٹرکے یہ بد نصیب ڈاکٹر مریض کا دل تو ٹھیک کر دیتے ہیں مگر اپنا گریبان چاک کر کے اپنا دل دنیا کو نہیں دکھا سکتے۔ اس مسئلے کے بارے میں جب حکام سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو جواب یہی ملا کہ فائل وزیر اعظم کے پاس ہے اور وزیر اعظم کا یہ حال ہے سڑکیں بنا سکتے ہیں، بجلی کے دور افتادہ منصوبوں کا افتتاح کر سکتے ہیں، میٹرو بس اور اورنج ٹرین پر نعرے تو لگوا سکتے ہیں مگر اپنے دارالحکومت میں موجود ان ڈاکٹروں کی تنخواہ نہیں دے سکتے۔ کسی دن یہ ڈاکٹر جو گیارہ سال سے یہ نیک کام کر رہے ہیں وہ یہ کام چھوڑ دیں گے۔ پمزاسپتال کا یہ کارڈک یونٹ بند ہو جائے گا۔ اس سے نہ ایوانوں کو کوئی گزند پہنچے گی نہ حکام کی زندگی میں کوئی فرق پڑے گا بس ہزاروں مستحق مریض علاج سے محروم ہو جائیں۔ یہ ڈاکٹر مریضوں کو شفا دینے میں اتنے غرق ہیں کہ نہ ان کے پاس ہڑتال کا وقت ہے، نہ ان کے پاس دھرنے کے وسائل ہیںاور نہ ہی ان کی تنخواہ کی ادائیگی سے حکومت کو کوئی غرض ہے۔

ڈاکٹروں کی تیسری قسم ڈاکٹر محمد انور خان قسم کے لوگ ہیں جو اس معاشرے سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر انور پاکستان کے مایہ ناز ماہر چشم ہیں۔ ہزاروں افراد کی آنکھوں کے سفید موتیا کے آپریشن مفت کر چکے ہیں۔ یہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وطن کی محبت ان کے دل میں دھڑکتی ہے۔ انسانیت کا درد ان کے سینے میں سمایا ہوا ہے۔ قابلیت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے بڑے اسپتالوں میں آنکھوں کے امراض کے ڈپارٹمنٹ انہوں نے ہی شروع کئے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر سویرا خان بھی الٹرا سائونڈ کی اسپیشلسٹ ہیں اور فلاحی کام کرتی ہیں۔ بیٹی لندن میں گائناکالوجسٹ ہے، ایک بیٹا عمان میں ماہر امراض چشم ہے اور ایک بیٹا ایم بی اے کر چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سابقہ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے معالج بھی رہے، شہباز شریف بھی ان کے مریض رہے، سابق صدر رفیق تارڑ بھی ان کے زیر علاج رہے۔ نواز شریف بھی ان کو اپنی آنکھیں دکھا چکے ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں انہوں نے لاتعداد فری آئی کیمپ لگائے اور ہزاروں لوگوں کے مفت آپریشن کئے۔ انیس سو اٹھانوے میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر انور ریٹائر ہونے کے بعد فارغ نہیں رہے۔ انہوں نے راولپنڈی آئی ڈونر آرگنائزیشن ریڈو کو جوائن کر لیا۔ ریڈو ایک ایسا ادارہ ہے جس نے آنکھوں کے امراض پر بہت قابل قدر کام کیا ہے۔ اب اس کے کمیٹی چوک کے اسپتال میں فری ڈائلسز سینٹر کا بھی آغاز ہو گیا ہے جس سے سینکڑوں مریض روزانہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر انور نے سفید موتیے کے فری آپریشن شروع کر دیئے۔ اب ہر ماہ اپنے خرچ پر کراچی سے اسلام آباد آتے ہیں چھوٹے سے ہوٹل میں رہتے ہیں اور مریضوں کی بینائی لوٹاتے ہیں۔ جب ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم تھے تو ڈاکٹر صاحب نے حکومت پاکستان کی موجودہ سہولتوں کی مدد سے ملک سے سفید موتیے کے اختتام کی ٹھانی۔ ایک مربوط منصوبہ جمالی صاحب کو پیش کیا گیاجس میں حکومت کا ایک پیسہ خرچ کئے بغیر اس مرض کے تمام مریضوں کا علاج ممکن تھا۔ اس منصوبے پر کسی نے کان نہ دھرا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کچھ عرصے کے بعد مشرف دور کے وزیر صحت نے اپنی طرف سے اسی منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے لئے ڈھائی ارب روپے کی رقم مختص کر دی گئی۔ وہ رقم غائب اور وہ منصوبہ فلاپ ہو گیا۔

ڈاکٹر انور آج بھی پر عزم ہیں کہ اس ملک میں سفید موتیے کی وجہ سے ہونے والی نابینائی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرانور کا فرمانا ہے کہ حکومت کا ایک روپیہ بھی نہیں لگے گا بس انہیں سہولتوں کو زیادہ منظم طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ ایک بار پھر پہلے کی طر ح فائلوں کی نذر ہوگا پھر کسی طالع آزما وزیر یا بیوروکریٹ کی نظر اس پر پڑے گی اور وہ لوگوں کی بینائی سے کھیلتا ہوا اپنی دولت کی ہوس کی تسکین کرے گا۔ یہ ڈاکٹروں کی تیسری قسم ہے۔ جو نیکی ، انسانیت اور مسیحائی کے ہر میزان پر پورا اترتی ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar