پیدائشی درجوں میں بٹے سماج سے معاہدے کی مساوی اکائی بنتے فرد تک


اقتصادیات میں نوبل انعام یافتہ اور بیسویں صدی کے عظیم سیاسی مفکر ایف۔ اے۔ ہائک کا کہنا ہے حیات انسانی کا کئی لاکھ سال پر محیط ایک دور وہ تھا جسے ماہرین بشریات قبل از تہذیب کا زمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس اولین دور کو سیر و شکار کا نام دیا گیا ہے۔ اس زمانے کے لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ شکار اور جنگلی نباتات پر گزارا تھا، شب بسری درختوں پر یا پھر پہاڑوں کی غاروں میں ہوتی تھی۔ اس دور نے ان دو تصورات کو جنم دیا جو قریب قریب جبلت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں: عصبیت اور ایثار۔ عصبیت سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ہر حال میں اپنے گروہ کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے اور بلا شرط ہر معاملے میں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ گروہ سے باہر جو بھی ہے وہ بالقوة دشمن ہے، اس لیے اجنبیوں کے ساتھ راہ و رسم رکھنا اور ان کے ساتھ محبت و الفت کا تعلق استوار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رویہ انسانوں کی ایک بڑی اکثریت میں آج بھی پایا جاتا ہے۔ بچوں کو اجنبی شخص سے بات کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ حق و صداقت کے معیارات بھی زیادہ تر گروہی ہیں۔ یعنی صداقت صرف وہ ہے جس کو اپنا گروہ صداقت قرار دیتا ہو۔ گروہ سے وابستگی کے اس جذبے کو پنجابی زبان کا یہ اکھان بہت عمدہ طریقے سے بیان کرتا ہے: دھرم نالوں دھڑا چنگا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ مابعد زمانوں میں گروہ کا سائز بڑا ہو گیا ہے اور جدید زبان میں اسے بالعموم قوم یا ثقافت کہا جاتا ہے۔

ایثار کی قدر کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس کا دائرہ بھی دھڑے کے افراد تک محدود ہوتا ہے۔ جس کو آپ جانتے نہیں، اس کے لیے کسی قسم کا ایثار یا قربانی روا نہیں۔ جہاں گروہی وابستگی زیادہ مضبوط ہوتی ہے وہاں لوگ غیروں کو مالی ایثار میں شامل نہیں کرتے۔ وہ ان لوگوں کی مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے ہوں۔ اس دور میں تقسیم کار کا بھی کوئی اصول نہیں تھا اور نہ کوئی باضابطہ سرداری نظام تھا۔

اس دور کے بعد انسانیت تہذیب کے دور میں داخل ہوتی ہے۔ لگ بھگ بارہ ہزار سال قبل انسانی تاریخ میں وہ عظیم الشان تبدیلی رونما ہوئی جسے زرعی انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔ اس دور میں انسانوں نے زمین سے خود اناج پیدا کرنا شروع کیا اور وہ باقاعدہ گھر اور بستیاں بنا کر رہنے لگے۔ اس دور نے کئی نتائج پیدا کیے۔ پہلا اثر یہ تھا کہ انسانی گروہوں کا سائز بڑا ہو گیا اور وہ خاندانوں اور قبائل میں تقسیم ہو گئے۔ زرعی انقلاب نے تقسیم کار کا اصول وضع کیا، گھر کے کاموں اور باہر کے کاموں کی تفریق پیدا ہوئی۔ عورت اور مرد میں تقسیم کا ر ہوئی کہ عورت گھر کے کام کرے گی اور مرد باہر کے کام کرے گا۔

فصل کا تعلق چونکہ موسم سے ہوتا ہے اس لیے قابل ذخیرہ دولت وجود میں آ گئی۔ اس دولت میں وہ مویشی بھی شامل ہیں جو زراعت میں استعمال ہوتے تھے۔ عربی اور پنجابی زبان میں ان مویشیوں کے لیے مال کا لفظ مستعمل ہے۔ قابل ذخیرہ دولت کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ چوری کا فن بھی وجود میں آ گیا۔ کاشت کار کے لیے اب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کھیت کھلیان میں فصل اگائے اور مویشیوں کی پرورش کرے یا ان کی حفاظت پر کمر بستہ رہے۔ برٹرینڈ رسل کہا کرتا تھا کہ ہر معاشرے میں ایسے افراد موجود رہیں گے جو دیانت داری سے محنت کرنے کے بجائے چوری کو ترجیح دیں گے۔ اس صورت حال میں کچھ لوگ سامنے آئے ہوں گے جنہوں نے کسان کو یہ کہا ہو گا کہ ہم تمہیں چوروں سے تحفظ فراہم کریں گے اور اس کے عوض تم ہمیں معاوضہ ادا کرو۔ چنانچہ اس طور پر رفتہ رفتہ حکومت کا ادارہ وجود میں آ گیا۔

اب رفتہ رفتہ زرعی معاشروں میں انسان طبقات میں تقسیم ہونے لگے۔ ایک طبقہ حکمرانوں کا وجود میں آ گیا۔ ان کے ساتھ شمشیر بردار تھے، جو ان کے اشارے پر جنگ و جدل کے لیے تیار ہوتے تھے۔ تیسرا طبقہ نوشت و خواند کی صلاحیت رکھنے والوں کا وجود میں آ گیا۔ یہ تینوں طبقات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ کبھی دوسرے اور تیسرے طبقے کا کوئی حوصلہ مند پہلے درجے میں بھی داخل ہو جاتا تھا۔ مگر ان تینوں طبقات سے بہت نیچے پیداوری طبقہ تھا اور ان سے بھی نیچے ان کے مددگار تھے جنہیں پنجابی زبان میں کمی کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس معاشرتی تقسیم کے لیے دلائل تراشے جانے لگے اور اسے دیوتاؤں کی تقسیم قرار دیا جانے لگا۔ اعلیٰ طبقات نے اپنے لیے میلاد نامے تخلیق کرنا شروع کیے جن میں وہ خود کودیوتاؤں کی اولاد قرار دیتے تھے۔ زرعی سماج میں ہر انسان کا مقام و مرتبہ طے شدہ تھا جسے سٹیٹس کا نام دیا گیا اور سٹیٹس کا تعین پیدائش کے حادثے سے ہوتا تھا۔ یعنی بادشاہ کے گھر پیدا ہونے والا بادشاہ اور کسان کے گھر پیدا ہونے والا کسان ہو گا۔ اسے تقدیر الٰہی قرار دیا گیا۔

مذہبی اساطیر، لوک داستانوں اور زبان کے محاوروں میں یہ باتیں سرایت کر گئیں۔ ہمارے ہاں بہت عالم فاضل لوگ یہ بات بیان کرتے ہیں کہ عربی زبان میں ظلم کے یہ معنی ہیں: وضع الشی فی غیر محلہ۔ یعنی کسی شے کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنا ظلم ہے۔ اس کے برعکس اگر ہر شے اپنے صحیح مقام پر ہو گی تو یہ عدل ہو گا۔ بیان کرنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کا تعلق زبان کے ساتھ نہیں بلکہ اس تعریف سماج کا کے ایک خاص تصور پر مبنی ہے۔ سب زمانوں کا عظیم ترین فلسفی افلاطون اسی سماجی تفریق اور درجہ بندی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کرتا ہے کہ عدل پر مبنی معاشرہ وہ ہو گا جہاں حکمران حکمرانی کرے اور غلام غلامی۔ مراد یہ ہے کہ اگر غلام حکمران بننے کی کوشش کرے گا تو یہ ظلم ہو گا اور ضع الشی فی غیر محلہ کا مصداق ہو گا۔

ہماری زبان کا یہ محاورہ اسی تصور کو اجاگر کرتا ہے: جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ اسلامی تاریخ کے حوالے بیان کرنے والے بہت سے دانش ور اس بات کو کبھی حدیث کہہ کر اور کبھی حضرت عمرؓ کا قول کہہ کر بیان کرتے ہیں کہ کبھی کسی تاجر کو اپنا حکمران مت بنانا۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ بات اسلام کے دیے ہوئے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔ حضرت عمرؓ سے اس قول کو منسوب کرنا بڑی جسارت کی بات ہے۔ کاش وہ اتنا ہی سوچ لیتے کہ حضور نبی اکرمﷺ اور حضرت ابوبکر کا پیشہ تجارت ہی تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہ فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھا۔ یہ تصور تو میلاد ناموں کی جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔ یعنی سب کی اصل ایک ہے اور آدم کے مٹی سے ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدم کا تعلق اسی ارض کے ساتھ تھا۔ یہاں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ آسمانی دیوتاؤں کی اولاد ہے۔ اولاد آدم ہونے کے ناتے سب برابر اور یکساں لائق تکریم ہیں۔

تاہم یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ثقافت کی جڑیں بہت گہرائی میں ہوتی ہیں چنانچہ بہت جلد ثقافتی اثرات مذہبی تعلیمات پر غالب آ جاتے ہیں۔ زرعی ثقافت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقدار اونچ نیچ کے تصورات کو عقلی جواز فراہم کرتی ہیں۔ یونانی دیومالا میں ان کے ہیرو دیوتاؤں کی اولاد ہوتے ہیں اور ان کی رگوں میں خون کی جگہ ایک اور مادہ گردش کرتا ہے جسے Ichor کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے تصورات مختلف تہذیبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسی روایات بیان کی جاتی ہیں جن کے مطابق امام مہدی کی رگوں میں خون نہیں ہو گا۔

بحیثیت مسلمان ہم عجیب فکری کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایک طرف ہم خطبہء حجة الوداع کے حوالے ہماری زبانوں پر جاری ہوتے ہیں اور حسب نسب کی بنا پر کسی برتری کا انکار کرتے ہیں مگر دوسری ہی سانس میں انسانوں کی سماجی تقسیم کو فطرت کے مطابق قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے اخلاقی مفکرین اور مصلحین اونچ نیچ کا جواز یہ کہہ کر فراہم کرتے ہیں کہ خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد۔ یعنی اگر ایک ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہیں تو انسان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم تہذیب میں بھی بدنی تمثیل کا نظریہ فروغ پا گیا یعنی انسان سماج ایک بدن کے مانند ہے۔ کوئی سر کے مقام پر ہے تو کوئی ہاتھ کے اور پاؤں کے مقام پر۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے مقام کی معرفت حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے اور اس مرتبے پر قانع رہے۔

اس سماجی تقسیم کا عبرت ناک مظاہرہ وہ بحث ہے جو ہمارے ہاں امام غزالی کے نام پر ہوئی ہے۔ یہ لفظ ز پر شد کے ساتھ ہے۔ چونکہ امام صاحب کا تعلق پارچہ بافوں کے خاندان کے ساتھ تھا اس لیے یہ لفظ ان کی خاندانی نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ بعد میں یہ دقت پیش آئی کہ ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کو اتنا بڑا امام کس طرح قرار دیا جائے۔ چنانچہ نکتہ آفرینی کی گئی کہ یہ لفظ ز پر شد کے بغیر ہے۔ غزال نام کا ایران میں گاؤں تھا جہاں امام صاحب پیدا ہوئے تھے اور اس نسبت سے غزالی کہلاتے تھے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی جغرافیہ دان اس گاؤں کا محل وقوع بیان نہیں کر سکا، نہ کسی کتاب میں اس گاؤں کا کوئی تذکرہ ملتا ہے۔

یہ سب تصورات اس دور ماضی سے تعلق رکھتے ہیں جو مٹ رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ چند سو سال میں انسانی تاریخ ایک اور کروٹ بدل چکی ہے۔ انسانی سماج زرعی دور سے صنعتی دور میں داخل ہو گیا ہے جس کی سماجی ساخت بالکل مختلف اصولوں پر قائم ہوتی ہے۔اس تبدیلی کو انگریزی کی اس ترکیب میں بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے: From status to contract۔ انقلاب فرانس میں حریت، اخوت اور مساوات کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اس دور میں انسانوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ انسان ایک ذمہ دار اور خود مختار مخلوق ہے۔ اس کے پاس خدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ ہے عقل ہے جس کی مدد سے وہ اپنی زندگی کے خوب و زشت کو جان سکتا ہے اور اپنی مرضی سے زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دے سکتا ہے۔ سماجی درجہ بندی خدا کی بنائی ہوئی تقدیر نہیں ہے بلکہ انسانوں کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہے۔ اس دور میں انسان کے سماجی مقام و مرتبہ کا تعین اس کی پیدائش کے حادثے سے نہیں بلکہ اس کی تعلیمی قابلیت اور ذاتی سعی و جہد سے ہوتا ہے۔

کرہ ارض پر آج مختلف معاشروں میں جو کشمکش نظر آتی ہے اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ اگرچہ ہم ایک ہی زمانے میں موجود ہیں مگر معاشرے تاریخ کے مختلف ادوار میں زندہ ہیں۔ ایک طرف اس زمانے کی اقدار ہیں جو لاکھوں برس پر محیط تھا، دوسری طرف زرعی معاشرے کے عطا کردہ رویے ہیں جو چند ہزار سال پرانے ہیں۔ یہ تیسرا دور چونکہ ابھی چند سو سال پرانا ہے اس لیے ایشیا اور افریقا کے زیادہ تر انسانوں کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہے۔ زیادہ ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ نیا دور اور اس کی اقدار دانش وروں کی بڑی تعداد کو بھی پسند نہیں۔ اس لیے وہ مجرد اصولوں کی پیروی کو رد کرکے، جدید دور کو برابھلا کہہ کر، حسین ماضی کی طرف لوٹ جانے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ انیسویں صدی میں خود مغرب میں پیدا ہونے والی رومانی تحریک اسے رویے کی ترجمانی کرتی ہے اور جڑوں کی تلاش پر اصرار کرتی ہے۔ عالمی ادب کا ایک بڑا حصہ دور جدید کی زندگی، بالخصوص شہری زندگی، کی مذمت کرتا ہے۔

اس جدید دور میں فرد سماج کی مشین کا محض ایک پرزہ نہیں بلکہ ایک آزاد اور خود مختار اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دور فرد کی پبلک اور پرائیویٹ زندگی کی علیحدگی کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ ہر فرد کی نجی زندگی کا ایک محفوظ دائرہ ایسا ہونا چاہیے جہاں وہ ریاستی اور معاشرتی جبر سے آزاد اپنی پسند ناپسند پر عمل کر سکے۔ اس نئے دور میں داخلے کا دروازہ تعلیم سے کھلتا ہے۔ وہ تعلیم جو فرد کی آزادی کے اصول کو تسلیم کرتی ہو۔ اس لیے معاشرے میں تعلیم کا یکساں نظام ناگزیر ہے تا کہ ہر کوئی اپنی استعداد کے مطابق اس سے مستفید ہو سکے۔ اس کو اقبال نے کیا خوب بیان کیا ہے: اپنی دنیا آپ پیدا کر، اگر زندوں میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).