میری بیٹی اس وقت کیا کر رہی تھی، جج صاحب؟


پرانی فلموں میں ایک ڈائیلاگ ہوا کرتا تھا، مجھے میری زندگی کے وہ قیمتی دس سال لوٹا دیجیے جج صاحب۔ اسے ادا کرنے والے عموماً ہر دل عزیز اداکار محمد علی ہوا کرتے تھے جو اپنے مخصوص انداز میں اسے دہراتے تھے۔ یہ ایک جملہ آج بھی ہمارے سامنے آتا ہے، ہر ایسے عدالتی فیصلے پر کہ جس میں بعض اوقات مدعی کو فوت ہوئے بھی عمریں گزر جاتی ہیں اور پوتے پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں۔ ابھی چار چھ ماہ پہلے ایک ملزم مظہر حسین اس وقت بری ہوا جب اسے فوت ہوئے دو برس گزر چکے تھے، کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے! وہ شہاب نامے کا ایک باب بھی یوں شروع ہوتا تھا، “مجھے جب عفت سے محبت ہوئی تو اسے مرے ہوئے تین سال گزر چکے تھے۔”

تو جب محترم جج صاحب فیصلہ سنا رہے تھے، وہیں بیچ میں انہوں نے بھی اس ڈائیلاگ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ملزم کی زندگی میں جو انیس برس ضائع ہوئے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ نہ کوئی ذمہ تھا، نہ ذمہ داری تھی، نہ کوئی سامنے آیا، سالم بندہ رزق خاک ہوا اور اس کے لیے تو بہتر ہی ہوا۔ اخباروں نے خبریں لگائیں، ویب سائیٹس نے کلک بیٹس بنائیں، ٹی وی نے ٹکر چلائے، اگلے ہفتے وہی قافلہ پھر سے کسی اور مظہر حسین کی تلاش میں نکل پڑا۔

پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالب علم اس وقت ہتک عزت کا کیس جیتیں جب انہیں یہ کیس دائر کیے ہوئے سترہ برس گزر چکے تھے۔ انگریزی کا محاورہ کہتا ہے جسٹس ڈیلیئڈ از جسٹس ڈینائڈ، انصاف میں تاخیر عدم انصاف ہے، اور یہ واقعی ہے۔ جب مدعی نہ رہا، وہ وقت جب فیصلے کی ضرورت تھی، وہ نہ رہا تو منصفی چہ معنی، پھر یہ سب کچھ ان خاتون طالب علم کے ساتھ ہوا جن کے والد خود بھی ایک جج رہ چکے تھے۔ اندازہ کر لیجیے کہ اسی نظام کا ایک حصہ رہتے ہوئے بھی انہیں اور ان کی بیٹی کو سترہ برس وہ فیصلہ حاصل کرنے میں لگے جو اب بھی فائنل نہیں ہے، یعنی یونیورسٹی والے اسے مزید چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی نے انہیں ایم اے انگریزی کے ایک پرچے میں غلط طور پر غیر حاضر گردانتے ہوئے مکمل امتحان میں ناکام قرار دے دیا تھا۔ یہاں تک بات رہ جاتی تو معاملہ سرکاری نوعیت کا تھا، بات آئی گئی ہو جاتی۔ غلطیاں ہر سطح پر ہوتی ہیں، ان کا جائزہ لیا جاتا ہے، درست کر لی جاتی ہیں، انسان ہو یا مشین، غلطیوں سے مبرا کوئی نہیں ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ جب ان کے والد کلرک بادشاہ کے پاس گئے اور پوچھ تاچھ کی کہ بھئی بتائیے مسئلہ کیا ہے، کہاں ہے تو ان کا جواب یہ تھا، “آپ کو کیا معلوم کہ آپ کی بیٹی کیا کرتی رہی تھی۔”

الحمدللہ یہ کلرک شاہی ذہنیت آج بھی اسی شان کے ساتھ ہمارے آس پاس موجود ہے۔ یونیورسٹی کی ہی بات کریں تو کلرک رہے ایک طرف، نارسائی کا دکھ دلوں میں چھپائے کئی ساتھی طالب علم اور پروفیسر حضرات بھی یہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک لڑکی، اپنے گھر والوں کے علاوہ پورے معاشرے کو جواب دہ تصور کی جاتی ہے کہ وہ کس وقت، کہاں، کیوں موجود ہے۔ مقطع چقطع نصابی صورتیں آج بھی یونیورسٹیوں میں کونے جھانکتی پھرتی ہیں کہ کون کہاں کس کے ساتھ بیٹھا ہے۔ تو یہ کہنا ہر ایسے مرد کے لیے بہت آسان ہے، “آپ کو کیا معلوم کہ آپ کی بیٹی کیا کر رہی تھی۔”

ایک بیٹی جب یونیورسٹی یا کالج تک پہنچ جاتی ہے، تو وہ مکمل عاقل، بالغ اور خود مختار لڑکی ہوتی ہے، وہ ذہین ہے، وہ محنت کرتی ہے، وہ لڑکوں سے بہتر پرفارم کرتی ہے، تو اسے جنس کی بنیاد پر جانچنے والے آپ ہوتے کون ہیں۔ اس سوال کا مطلب ہی کیا ہے کہ وہ کہاں تھی یا کیا کر رہی تھی؟ بھئی وہ برابر کی ایک انسان ہے، کم از کم اسے انسانیت کی سطح پر آ کر دیکھیں گے تو شاید آپ درست عدسے بھی لگا لیں۔ اسی عمر کے، اسی کے برابر لڑکوں سے کبھی کسی نے پوچھا کہ وہ کہاں تھے یا وہ کیا کر رہے تھے؟

بنیادی طور پر ہمارا معاشرہ ججمینٹل لوگوں کا ہے۔ کوئی لڑکی سامنے جا رہی ہے، اس کے بال، کپڑے، اس کی چال ڈھال، اس کا بیگ، اس کے جوتے، اس کے لباس کی تراش، اس کا میک اپ، یہ سب کچھ ایک لحظے میں سکین کیا جائے گا اور اگلے سیکنڈ دماغ کا پرنٹر ایک نتیجہ نکال کر سامنے رکھ دے گا کہ یہ لڑکی “ویسی” ہے۔ ہاں اگر لڑکی باپردہ ہے، تو وہ اس ایکسرے سے بچ جائے گی، نتیجہ فوری طور پر نہیں آئے گا، صاحبان ذی کیمرہ نگاہ اسے نظر میں رکھیں گے اور ایک آدھ ہفتے میں وہ فیصلہ سنایا جائے گا جو تاعمر اس کی پشت پر سٹیکر بنا چسپاں رہے گا۔ یاد رہے یہ فیصلہ ظواہر کی بنیاد پر سناتے ہوئے لڑکے زیر بحث نہیں آتے، یہ پنچائیتیں بیٹھتی ہی صرف لڑکیوں کے لیے ہیں، فیصلے بھی انہیں کے لیے ہوتے ہیں اور بھگتتی بھی وہی ہیں۔ بیٹی باپردہ ہو یا بے پردہ ہو، “آپ کو کیا معلوم کہ آپ کی بیٹی کیا کر رہی تھی۔” یہ جملہ ایک روائتی باپ اور بیٹی کے تعلقات کا امتحان ہوتا ہے۔ اٹھارہ بیس برس گھر کے آنگن میں پلی اولاد کے لیے یہ جملہ کوئی انجان باہر والا بھی کہہ دے تو باپ اپنی جگہ سن ہو جاتا ہے، بیٹی اپنی جگہ، کجا ایک کلرک بادشاہ پرچوں کی پوچھ گچھ پر یہ جواب دیں، بندہ پوچھے، سرکار، آپ بہو بیٹیوں کے چال چلن پر نگران کب سے ہوئے، آپ کے ذمے تو فائلیں تھیں، مسلیں تھیں، انہیں بھگتا لیا تو کہیں اور خجل ہوں، بچوں کی زندگیاں کیوں خراب کرتے ہیں؟

اس ذومعنی بیان کے بعد وہ طالب علم کس عذاب سے گزریں، کیسے انہوں نے اپنے والد کا سامنا کیا، کتنی مرتبہ خودکشی کا سوچا، کون سے خواب خواب رہ گئے، کیا کرنا تھا، کیا کر گئیں، یہ سب کہانی خبروں میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ جو بچی زندگی میں کبھی فیل نہ ہوئی ہو، اسے پرچوں میں ناکامی کے ساتھ ساتھ کردار پر بھی الزام کا سامنا کرنا پڑے وہ کر بھی کیا سکی ہو گی؟ خود کشی سے باز رہ گئیں کہ خبر کے مطابق انہیں اپنی بیمار والدہ کا خیال تھا۔ تو یہ سب بھگتنے کے چار ماہ بعد ان کا پرچہ بھی کہیں سے برآمد ہو گیا، وہ پاس بھی ہو گئیں لیکن کردار پر اٹھایا گیا یہ سوال سترہ برس بعد آج بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں۔ سن دو ہزار میں کیا گیا یہ دعوی ہتک عزت، جس میں پچیس لاکھ جرمانے سے بات شروع کی گئی تھی، دو ہزار سولہ میں دیوانی عدالت سے فیصل ہوا، جرمانے کی رقم گھٹا کر آٹھ لاکھ کر دی گئی۔ یونیورسٹی نے اس فیصلے کو پھر سے اپیل کورٹ میں چیلنج کیا، فیصلہ اس ماہ دوبارہ ان کے خلاف آیا، لیکن اب بھی یونیورسٹی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق رکھتی ہے۔

ایک طرف پوری یونیورسٹی ہے، ایک طرف ایک نہتی لڑکی ہے، ایک طرف میڈیا ہے، ایک طرف ایک باپ ہے، ایک طرف سترہ برس ہیں، ایک طرف عدالت ہے، ایک طرف معاشرہ ہے، ایک طرف وہ کلرکی رویہ ہے، ایک طرف دقیانوسی سوچ ہے، ایک طرف کچھ خواب ہیں، ایک طرف پورا نظام ہے اور ایک طرف یہ سوال ہیں کہ عورت، اس ملک کی آدھی آبادی، برابر کی انسان کب سمجھی جائے گی؟ پسماندہ ذہنی رویے کب بدلیں گے؟ اگر کوئی باپ اپنی بیٹیوں کو بہتر تعلیم دلوا ہی رہا ہے تو اس قسم کے کلرک اور دیگر اجارہ پسند لوگ کب اپنے دماغ کشادہ کریں گے؟ اور وہ عالمی یوم خواتین کب تھا بھلا، سال میں ایک دن عورتوں کا دن منا کر باقی دن یہی پروگرام کب تک چلائیں گے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain