پاکستانی یونیورسٹی طالبات کی داعش میں شمولیت کی اطلاعات


گزشتہ دنوں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ویمن ایکشن فورم کی جانب سے خبر آئی کہ جامشورو کی لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی ایک انیس سالہ طالبہ نورین 10 فروری سے لاپتہ ہے۔ اس تنظیم کا وفد لڑکی کے والد ڈاکٹر جبار لغاری کے ساتھ حیدر آباد کے ڈی آئی جی خادم رند صاحب سے ملنے گیا تھا۔

خبر کے مطابق طالبہ کے والد ڈاکٹر جبار لغاری نے بتایا کہ 2016 کے اواخر میں اپنے میڈیکل کالج کے سال پہلے سال کے خاتمے پر نورین نے حجاب اوڑھنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا گھرانہ معتدل مذہبی رجحان رکھتا ہے اور مذہب پر عمل پیرا ہے مگر کسی کا رجحان شدت پسند گروہوں کی جانب نہیں ہے۔

حیدر آباد کے ڈی آئی جی خادم رند صاحب نے طالبہ کے شدت پسند گروہ میں شامل ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ ان کے مطابق تعلیمی اداروں کی صورت حال بہت زیادہ تشویشناک ہے اور جامشورو کے قرب و جوار میں کئی شدت پسند گروہ سرگرم عمل ہیں اور یہ گروہ خاموشی سے پروفیشنل یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر جبار لغاری نے ڈی آئی جی کو بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق کراچی سے جیکب آباد کے تعلیمی اداروں سے بیس سے زیادہ لڑکیاں 10 سے 20 فروری کے درمیان لاپتہ ہوئی ہیں۔ انہوں نے ایک ماہ تک بھرپور معلومات لینے کی کوششیں کی ہیں اس لئے ان کی اطلاعات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

خبر کا یہ پہلو ویمن ایکشن فورم کے سورسز نے فراہم کیا ہے۔ اس کے بعد مین سٹریم میڈیا پر جو خبریں آئی ہیں انہیں دیکھتے ہیں۔

18 مارچ کے ایکسپریس ٹریبیوں کی خبر میں اسی واقعے کی کوریج کی گئی ہے۔ اس خبر کے مطابق ڈاکٹر جبار لغاری نے کہا ہے کہ ’وہ دس فروری کو علی الصبح گھر سے نکلی۔ جب وہ شام پانچ بجے تک گھر واپس نہیں لوٹی تو میں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا‘۔ تلاش میں ناکام ہونے پر اسی دن ڈاکٹر لغاری نے پولیس میں رپورٹ درج کروا دی۔

حیدر آباد کے ایس ایس پی عرفان بلوچ صاحب نے بتایا کہ ’اس نے ڈائیوو سٹاپ سے بس لی اور لاہور چلی گئی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ وہ ایک مذہبی شدت پسند گروہوں سے متاثر لڑکی تھی۔ ’ہم نے تفتیش کی ہے۔ اس کے دوستوں اور اساتذہ سے بات کی ہے۔ وہ فیس بک کے ذریعے ایک دہشت گرد گروہ سے رابطے میں آئی۔ فیس بک نے انتہاپسندانہ مواد کی وجہ سے اس کے اکاؤنٹ بلاک کر دیے‘۔ انہوں نے بتایا۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ اس کے باوجود انہوں نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ سے تعاون کی درخواست نہیں کی۔

لیکن حیدر آباد کے ڈی آئی جی خادم رند صاحب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ کسی جہادی گروہ کے ساتھ چلی گئی ہے یا اغوا کی گئی ہے‘۔

ڈاکٹر لغاری کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی شدت پسند نہیں تھی۔ ’وہ نماز پڑھتی تھی اور حجاب لیتی تھی۔ لیکن سندھ یونیورسٹی اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی بیشتر طالبات حجاب لیتی ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے‘؟

دوسری جانب نورین کے بھائی افضل کو فیس بک پر نورین کے غائب ہونے کے چند دن بعد ایک نامعلوم اکاؤنٹ سے پیغام موصول ہوا ہے جس میں خود کو نورین کہنے والی شخصیت نے کہا ہے کہ ’بھائی میں نورین ہوں۔ امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ میں بھی الحمدللہ خیریت سے ہوں اور بہت خوش ہوں۔ میں نے صرف یہ بتانے کے لئے آپ کو میسیج کیا ہے کہ میں الحمدللہ اللہ کے فضل سے خلافت کی سرزمین میں ہجرت کر کے پہنچ چکی ہوں اور اللہ سے امید کرتی ہوں کہ آپ لوگ بھی کبھی نہ کبھی ضرور ہجرت کریں گے انشاء اللہ‘۔ اس کے بھائی نے بے بسی سے جواب دیا ’میری امی بے ہوش ہے۔ اس کی بیٹی چلی گئی‘۔

ڈی آئی جی خادم رند صاحب نے اس افواہ کی تردید کی کہ سندھ کی مختلف یونیورسٹیوں سے 20 طالبات فروری کے مہینے میں غائب ہوئی ہیں۔ ’ہمیں صرف ایک لڑکی (نورین) کے غائب ہونے کی رپورٹ ملی ہے‘۔

یہ تھا ویمن ایکشن فورم کی خبر کے چند دن بعد شائع ہونے والا پولیس اور نورین کے اقربا کا موقف۔ داعش اور شدت پسند تنظیمیں سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ وہ اس پر پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں اور اس کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات کو داعش میں شمولیت کے لئے قائل بھی کرتے ہیں تاکہ وہ عراق اور شام جا کر ان کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ کچھ عرصہ قبل تک وزارت داخلہ پاکستان میں داعش کے وجود سے بھی انکاری تھی۔ اب داعش کی جانب سے پاکستان میں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد وزارت داخلہ کا موقف غلط دکھائی دے رہا ہے۔

اسی طرح پاکستانی طالبات کے داعش میں شامل ہونے کو بھی محض افواہ قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تیونس، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے داعش طالبات اور نوجوانوں کو اس طرح اپنے ساتھ شامل کرتی رہی ہے تو پاکستان میں داعش کے اس حکمت عملی کو اختیار نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ ذہن میں نہیں آتی ہے۔

امیرہ عباس, شمیمہ بیگم اور خدیجہ سلطانہ

فروری 2015 میں خاص طور پر ایک معاملہ بہت مشہور ہوا تھا۔ پندرہ سالہ امیرہ عباس اور شمیمہ بیگم اور سولہ سالہ خدیجہ سلطانہ مشرقی لندن میں اپنے گھروں سے غائب ہو گئیں۔ یہ استنبول سے ہوتے ہوئے شام میں داعش کے علاقے میں چلی گئیں۔ جولائی میں ان میں سے دو لڑکیوں کے داعش کے لڑاکوں سے شادی کی خبریں آئیں۔ جولائی میں ہی ان کی داعش کے دارالحکومت رقہ شہر کی گلیوں میں مسلح گشت کرتے ہوئے تصویر منظر عام پر آئی۔ جنوری 2016 میں ان کا اپنے خاندانوں سے اس زمانے میں رابطہ ٹوٹ گیا جب برطانوی، امریکی اور روسی جہازوں نے رقہ پر شدید بمباری شروع کی اور ان کے متعلق یہی گمان ہے کہ وہ ماری جا چکی ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے رجحانات پر توجہ دیں۔ اپنے بیٹوں ہی نہیں بلکہ اپنی بیٹیوں کے شدت پسندانہ رجحانات اختیار کرنے پر محتاط ہوں۔ مذہب کی طرف یکلخت زیادہ غلبہ ہوتا دکھائی دے تو ان کے دوستوں اور استادوں سے رابطہ بڑھائیں اور ان کے سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی نظر رکھیں۔ ہم نے اپنے ملک میں عوام کے ہتھیار اٹھانے اور شدت پسند سوچ اختیار کرنے کے جس بیج کی آبیاری کی تھی، اب اس کا پھل کاٹنا پڑے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar