مطالعہ پاکستان کےاستاد کا خط جنرل ضیا کے نام


عزت مآب جنرل صاحب! بندہ ناچیز گذشتہ ایک دہائی سے بچوں کو مطالعہ پاکستان پڑھا رہا ہے۔ رب کریم کی حمد و ثنا کے بعد مشکور وممنون ہوں اپنے مطالعہ پاکستان کے اس استاد کا جنھوں نے مجھے انسانیت و مذہب کے حوالے سے آپ کی تمام نصابی وہم نصابی خدمات ازبر کروائی تھیں اور ساتھ ساتھ اپنے معاشرے، دوستوں، نصابی کتابوں، محکمہ تعلیم اور دانشوروں کا بھی شکریہ جنھوں نے مجھے کبھی آپ کو بھولنے نہ دیا۔ مجھ سے پہلی نسل نے آپ کا دور دیکھا اور میں آج آپ کا عکس دیکھ رہا ہوں۔

گرانقدر جنرل صاحب! گذشتہ تین دنوں سے کلاس میں آپ کے حوالے سے پڑھا رہا تھا۔ یقین مانیے کہ ادارہ جاتی مجبوریوں اور قربتِ امتحانات کے باوجود کمرہ جماعت مسلسل تین دن تک آپ کی یادوں سے منوّر ہے۔ اس دوران میں نے بچوں کو جو بتایا اور جو چھپایا، سوچا آپ سے بھی شئیر کروں۔

جناب والا! آپ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ میں نے بچوں کو یہ بتادیا کہ عنان حکومت سنبھالتے ہی آپ نے 90 دنوں کے اندر انتخابات کروانے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کرنا بالکل ہی وعدہ خلافی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ آپ کا مقصد حکومت میں رہ کر خدمت کرنا تھا اور اچھے مقصد کی خاطر ”اصولوں“ سے روگردانی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سو آپ نے ایسا ہی کیا۔

جنرل صاحب! میں نے اپنے بچوں کو بالکل نہیں بتایا کہ 1985 کےغیر جماعتی انتخابات میں آپ نے دل و جان سے ایک مخصوص جماعت کی حمایت جاری رکھی اور پھر جونیجو کی منتخب حکومت کو اوجڑی کیمپ کی بھینٹ چڑھا دیا۔

اپنے بچوں سے جھوٹ بول کر بھی میں صرف اس لیے مطمئن ہوں کہ اچھے مقصد کی خاطر وعدہ خلافی بری بات نہیں تو جھوٹ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا میں نے مرد مومن کی ساکھ کی خاطر جھوٹ بول دیا۔

جناب والا! میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے طلباء کو بتادیا کہ اسلامی سزائیں آپ نے نہ صرف تجویز کیں بلکہ ”مجرموں“ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ”اتمام حجت“ کرانے کے بعد سزائیں دی۔ میرا جملہ مکمل ہی نہیں ہوا تھا کہ اچانک ایک ناہنجار طالبعلم نے ہاتھ اٹھایا اور جمہوری اقدار اور جدید تعلیمی تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسے سوال کرنے کا موقع دیا کیونکہ آپ کے جانے کے بعد کچھ لبرلز ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے“ کا ورد کر کے نوجوانوں کو باغی بنا چکے ہیں۔ بہرحال وہ ناخلف کہنے لگے کہ سر جی 13 مئی 1978 کو کوٹ لکھپت جیل میں جن تین بندوں کو کوڑے مارے گئے انھوں نے کونسے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کی تھی۔ سکتے میں آ گیا نا جناب!

جی بالکل ہمارے عہد کے بچے سوال بہت کرتے ہیں۔ مگر حضور ایسے سوالات کا جواب آپ کے مداحوں کے پاس بہت ہیں۔ سو الحمد اللہ میں نے اس گستاخ کو بتا دیا کہ امیر المومنین حضرت ضیا الحق کے عدل پر سوال اس لیے نہیں اٹھایا جا سکتا کہ ان تین ”مذہب دشمن“ اور ”مادر پدر آزاد“ صحافیوں میں سے اپاہج مسعود اللہ خان کو جنرل صاحب نے معاف کر دیا اور صرف ٹی بی کے معمولی مریض ناصر زیدی اور صحت مند خاور ہاشمی پر کوڑے برسائے گئےاور ہاں جنرل صاحب میں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر یہ بھی بتا دیا کہ ضیائی دور میں جہانگیر بدر کو کسی قسم کی سیاسی مخالفت کی بنا پر کوڑے نہیں مارے گئے تھے بلکہ اس لیے مارے گئے تھے کہ جہانگیر بدر ریاستی مسلمانی کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے۔

حضرت مرد مومن مرد حق صاحب! بدر کا نام آگیا تو اپنی معلومات کے باوجود میں چپ رہا اور طلباء کو یہ بھنک تک نہیں لگنے دی کہ آپ نے جماعتی انتخابات کا وقت بینظیر کی ڈیلیوری تاریخ پتہ لگانے کے بعد ہی رکھا تھا۔ آخر میں یہ کیسے برداشت کرتا کہ بچوں کو لگے کہ عالم اسلام کا ہیرو ایک نہتی لڑکی سے خوف زدہ تھا۔

اور ہاں جنرل صاحب! میں نے یہ بھی مخفی رکھا کہ آپ کا افغان جہاد امریکہ بہادر کی ایما پر ان کے ڈالروں کے ذریعے لڑا جا رہا تھا۔ میں نے کلاشنکوف کلچر، شدت پسندی، جہالت اور عدم برداشت کا ذکر تک نہ کیا۔ بلکہ سینہ تان کر کتاب سے یہ جملہ پڑھا ”کمیونسٹ اور کافر ملک کے افغانستان پر بلاجواز حملے نے عالم اسلام کے ہر دل عزیز رہنما کو افسردہ کردیا اور مرد حق نے باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا فیصلہ کرلیا ”۔ تاہم ایک منہ پھٹ طالبعلم نے باآواز بلند پوچھا کہ استاد جی! ذرا یہ وضاحت کیجیے کہ افغانستان میں اگر جہاد ہو رہا تھا تو خود جنرل ضیا کے بیٹے اعجاز الحق صاحب کابل جاکر کمیونسٹ کافروں سے نبرد آزما ہوکر شہادت کا اعلیٰ مرتبہ پانے کے بجائے افغان جہاد کے پورے دس سال بحرین کے بینک میں بیٹھ کر دنیا کیوں سنوار رہے تھے؟ یہ سننا تھا کہ میں آپے سے باہر ہوگیا اور اس ناہنجار طالب علم کو چاک مار کر بٹھا دیا۔ ورنہ وہ ظالم یہ بھی پوچھ بیٹھتا کہ عام آدمی کو مذہبی تعلیم کا درس دینے والے ضیا کا بیٹا امریکن یونیورسٹی سے کیوں پڑھ رہا تھا؟ افسوس میں اس گستاخ کا مزید کچھ نہیں کرسکا کہ آج کا دور تہذیب یافتہ انسانوں کا دور ہے جہاں سوال پر قدغن ہے اور نہ ذہن غلام۔ البتہ دل میں سوچا ضرور کہ کاش آپ نظریہ ضرورت کےتحت اوجڑی کیمپ نہ جلا چکے ہوتے تو میں ایسے طالبعلم کو اسٹنگر میزائل مار دیتا۔

اور ہاں امیر المومنین صاحب! میں نے کھلے لفظوں میں بتادیا کہ آپ اور خاتونِ اوّل نے تمام حج اور عمرے ذاتی خرچے پر کیے نہ کہ سرکاری۔ میں نے یہ بھی بتا دیا کہ ایوان صدر کے مختلف پروگراموں میں غرباء کے درمیان جو خیرات بٹتی تھی وہ واقعی میں حاجت مند ہوتے تھے نہ کہ آپ کے دوستوں کے اہل خانہ بھیس بدل کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کے منہ میں خاک جو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے ججز سے دوبارہ حلف اپنے فائدے کے لیے لیا تھا حالانکہ یہ سب کچھ عدل انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور میں نے نونہالوں کو یہی بتا دیا۔

جی جناب سابق صدر صاحب! آپ نے امیر المومنین کا کردار ادا کرتے ہوے جس طرح سے مخفل ناؤ نوش میں رچے ہوئے اس مست معاشرے کو برائی کے کنارے سے نکال کر ”نیک طنیت، صالح اور دیندار“ بنایا ہے۔ ”رواداری“ کو فروغ دیا ہے، ”منافقت“ کا قلع قمع کرکے ”راست گوئی“ کا جو بول بالا کیا ہے اُس کے لیے رہتی دنیا تک آپ کا نام یاد رکھا جائے گا۔ یقیناً اس نوع کے مومنین کے لیے آپ سے بہتر امیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ عزوجل ”جنت“ میں آپ کا ٹھکانہ سلامت رکھے۔ آمین ثمّہ آمین

تعارف: نور شمس الدّین جون ایلیا کے شعر ”جو دیکھتا ہوں وہی کہنے کا عادی ہوں“ کے مصداق دوسروں کے جذبات و احساسات پر اپنے خیالات کو قربان کرنے کا عادی نہیں اور وہی لکھتے ہیں جو اُن کو صحیح لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).