علم کا مقصد کیا ہے؟


پہلی بات تو یہ ہے کہ علم اپنی فطرت میں سراسر خیر ہے۔ علم کا مزاج ترقی پسند اور انسان دوست ہے۔ علم نئے امکانات کے در کھولتا اور ان کی تسخیر میں مدد کرتا ہے۔ علم ہر عہد کے چیلنجز کے رسپانس میں سب سے بہترین معاون ہے۔ مگر جب علم کا واسطہ سٹیٹس کو اور آزادی پسند سماجی اداروں سے پڑتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں علم کا مقصد اور استعمال کیا ہے؟ یعنی ریاست و سیاست میں اس کا استعمال کیا ہے۔ آیا اس سے آزادیوں کو فروغ ملتا ہے یا نہیں؟ کیا علم ریاست کے فاشسٹ عزائم میں اس کا مددگار ہے یا اس کی خاص مدد و حمایت آزادی مساوات اور انصاف کے لئے پرعزم سول سوسائٹی کے ساتھ ہوتی ہے؟

فرض کیا ایک بے جان چیز ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ کیا ہے، کیسے کام کرتی ہے اور کیوں ایسے کام کرتی ہے۔ وقت اور مقام (Time & Place) کے بدلنے سے اس کی خصوصیات میں تبدیلی تو واقع نہیں ہوتی؟ سوال یہ ہے کہ اس جاننے کا مقصد کیا ہے؟ اس سلسلے میں تین آراء ہیں۔

ایک رائے تو تجسس کے اس عمل کو سرے سے ہی فضول اور تخریبی سمجھتی ہے جس کے بقول جاننے کا یہ عمل فطری نظم میں گڑبڑ پیدا کرتا ہے کیوں کہ انسان اشیاء کی فطرت جان کر ان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خلل پیدا کرتا ہے۔ دور جدید کے شدت پسند Environmentalist بھی اسی رائے سے ملتے جلتے خیالات رکھتے ہیں۔

جبکہ باقی دو آراء میں سے جو جاننے کے اس عمل کو تعمیری اور بامقصد سمجھتی ہیں پہلی رائے کا کہنا ہے کہ علم کا مقصد کنٹرول ہے۔ جس چیز کو ہم جانتے ہیں ہمیں چاہیے کہ اس پر کنٹرول کریں اور اس سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کریں۔ دوسری بڑی رائے کے مطابق علم کا مقصد اشیاء پر کنٹرول نہیں بلکہ اس شے کی فطرت سے تطبیق (Compatibility) پیدا کرنا ہے تاکہ وہ شے بھی اپنی فطرت پر قائم رہے اور انسانیت کے لئے نفع بخشی کا حصول بھی آسان ہو۔

یہ اختلاف نیچرل یعنی طبعی سائنس میں کم ہے۔ سائنس دان جب اشیاء کی خصوصیات دریافت کر لیتے ہیں تو اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لئےنئی ٹیکنالوجی ایجاد کرتے ہیں۔ مگر یہ اختلاف سوشل سائنس میں وسیع تر ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس علم کا غیر مکمل اور غیر حتمی ہونا بھی ہے۔

ایک سوسائٹی میں ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں افراد پائے جا سکتے ہیں۔ ہر فرد اپنی فطرت میں لاثانی ہے۔ انسان بے جان اشیاء سے اس طرح مختلف ہے کہ بے جان اشیاء کی خصوصیات معلوم اور حتمی ہوتی ہیں۔ پانی کی خصوصیات پر وقت اور مقام (Time & Place) کا اثر نہیں اور پانی کی خصوصیات اس کے تمام ایٹموں میں مشترک ہیں۔ درجہ حرارت کے کم یا زیادہ ہونے سے ایک پانی کے مالیکیول میں جو تبدیلیاں ہوں گی وہی تبدیلیاں درجہ حرارت کے اسی طرح بدلنے کے سبب دنیا بھر کے تمام مالیکیولز میں بھی ہوں گی۔ مگر انسانی رویے جو ذہن و جبلت سے پھوٹتے ہیں ان میں انفرادیت ہے اور ان پر وقت و مقام کا اثر ہوتا ہے۔ اسی سبب سے ایک معاشرہ میں افراد کے درمیان بھی تنوع پایا جاتا ہے اور معاشروں کے درمیان بھی تنوع موجود ہے۔ فرد اور معاشرے پر ارتقاء کا مظبوط اثر بھی موجود ہے اور یہ ارتقاء وقت اور مقام کے اعتبار سے بھی مسلسل جاری ہے۔

اس سبب سے یہ سوال اہم ہے کہ کیا فرد و معاشرہ کا مکمل و حتمی علم حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اگر مکمل و حتمی علم ہو گا تب ہی کنٹرول ممکن ہے کیونکہ تب ہی آپ تمام اثرانداز ہونے والے عوامل کی شناخت کر سکیں گے اور ان کے اثرات کو کنٹرول کر سکیں گے۔ تطبیق کے لئے بھی لازمی شرط ہے کہ جس شے یا خصوصیت سے تطبیق پیدا کی جا رہی ہے اس کا مکمل و حتمی علم حاصل ہو۔

میری رائے میں فرد و سوسائٹی کا مکمل و حتمی علم ناممکن ہے۔ ہم ارتقائی عمل سے نامعلوم کی طرف بہے جا رہے ہیں (Voyage to unknown)۔ سیاست ہو معیشت یا معاشرت، آمریت کی ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ اسے سب کچھ اور صحیح صحیح حال میں بھی معلوم ہو اور آنے والے مستقبل کا بھی حتمی علم ہو تاکہ اس کا تمام عوامل پر کنٹرول قائم رہے۔ فرد و سماج میں آزادی کی ضمانت اس وقت تک موجود ہے جب تک فرد و سماج کی آرزوؤں اور سرگرمیوں کا علم غیر مکمل اور غیر حتمی رہتا ہے، دوسری صورت میں زیادہ طاقتور کم طاقتوروں کو کنٹرول کرنے کی بہترین پوزیشن میں ہو گا جس طرح ہم طبعی سائنس سے بے جان اشیاء کو کنٹرول کرتے ہیں۔

دور جدید میں سیاسی طور پر سب سے طاقتور ریاست ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ریاست کو نت نئے طریقے جیسے آن لائن ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، فون کالز کی جاسوسی، خفیہ کیمرے، ماڈرن بیوروکریسی، شہریوں کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لئے سوفٹویر وغیرہ فراہمکیے ہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی بھی زیادہ پیچیدہ اور اپنی خصوصیات میں متنوع و غیر معلوم ہوتی جا رہی ہے۔ یوں کنٹرول و آزادی میں مسابقت جاری ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا، علم میری ذاتی رائے میں سراسر خیر ہے جب تک یہ آزاد ہے اور خامیوں و خوبیوں کو نمایاں کرتا ہے یہ ہمیں بہتری کی طرف گامزن رکھتا ہے۔ علم کو سب سے بڑاخطرہ جہالت سے نہیں بلکہ کنٹرول پسند آمریت سے ہے۔ طبعی سائنس کا کنٹرول پسند مزاج یقینا بے ضرر ہے۔ مگر سوشل سائنسز کا کنٹرول پسند مزاج آمریت کے لئے مددگار بھی ہوتا ہے اور انسانی سماجی ارتقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔ سوشل سائنس میں علم کا رویہ تطبیق پسند (Compatible ) ہونا چاہیے۔ علم ہماری زندگی میں ہمارا مددگار ہو اور یہ ہمارے حق انتخاب کو وسیع کرے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan