اپنے کام سے کام رکھیں


میری ایک دوست ہے جو کہ جسمانی طور پر فربہی کا شکار ہے۔ شاید اس کو کھانا عام لوگوں سے زیادہ پسند ہو یا شائد اس کو کوئی عارضہ لاحق ہو جس کی وجہ سے وزن کی یہ زیادتی ہے۔ وہ انتہائی اچھے اخلاق کی اور مصیبت میں کام آنے والی خاتون ہے۔ اس کے میاں بہت چاق و چوبند اور اچھی شکل و صورت کے لائق فائق آدمی ہیں اور اعلی عہدے پر بھی فائز ہیں۔ کچھ دن قبل میری دوست تقریبا رو دینے والی حالت میں مجھے بتا رہی تھی کہ اکثر خواتین تقاریب میں اس سے یہ سوال کرتی ہیں کہ اس کے میاں نے اس سے کیسے شادی کی جب کہ وہ تو شکل و صورت کے پیمانوں کے مطابق اس سے بہت بہتر ہیں۔ اس کے میاں کا رویہ اس سے بہت اچھا ہے مگر تقریباً ہر محفل میں لوگ ان کے جسمانی خدوخال کے تفاوت پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ اس میں اور اس کے میاں میں بہت ہم مزاجی ہے اور وہ اس کے خاندان کی اخلاقیات کی بہت قدر کرتے ہیں مگر ان کے جسمانی خدوخال میں تضاد لوگوں کو بہت کھلتا ہے اور وہ اس کا اظہار ان سے ان کے منہ پر کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔

میری ایک عزیزہ کی بیٹی اسلام آباد چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئی کیونکہ تمام اقارب کا سوال تھا کہ اس کی شادی کیوں نہیں ہو رہی۔ اچھا رشتہ مل نہیں رہا تھا اور بچی ان طعنوں سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ ایک رشتہ دار کے ہاں دوسرے شہر منتقل ہو گئی کہ کم از کم اجنبی شہر میں لوگ زیادہ کرید تو نہیں کریں گے۔

جن لوگوں کی شادی نہیں ہو رہی ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ شادی کیوں نہیں ہو رہی، شادی ہے تو شادی شدہ جوڑا خدوخال، جسامت اور پڑھائی لکھائی میں لوگوں کے متوقع پیمانے کے مطابق کیوں نہیں، اب شادی ہو ہی گئی تو بچے کیوں نہیں ہو رہے۔ لڑکا پیدا ہو گیا تو لڑکی پیدا کیوں نہیں ہو رہی۔

میری ایک اور عزیزہ ہیں جن کی طلاق ہو گئی اور میں بذات خود گواہ ہوں کہ وہ بہت ہی نیک اور صالح خاتون تھیں اور شادی شدہ زندگی میں انہیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک رشتہ دار خاتون جو ان کی صورتحال کے سیاق و سباق سے بھی واقف نہ تھیں صرف یہ جانتی تھیں کہ انہوں نے طلاق لے لی ہے آ کر کہنے لگیں، تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ آپ کا بھی کوئی قصور ہو گا۔ آپ ہی سمجھوتہ کر لیتیں۔ کبھی بھی طلاق ایک فرد کی غلطی سے نہیں ہوتی۔ ایک شخص بھی جھک جائے تو طلاق نہیں ہوتی۔ وہ خاتون صدماتی کیفیت اور جذباتی انتشار کا پہلے ہی شکار تھیں اوراسی طرح کےبد لحاظ رویوں سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئیں کہ انہوں نے خود کو گھر میں مقید کر لیا اور لوگوں سے ملنا جلنا بالکل چھوڑ دیا۔ وہ ابھی تک کسی سے نہیں ملتیں۔

بات یہ ہے کہ یہ ہر فرد کو اپنی زندگی خود گزارنا ہوتی ہے۔ ہر انسان کی اپنی زندگی اور اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان کے نتائج بھی ہر انسان کو خود ہی اٹھانے ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے کچھ ذاتی معاملات ہوتے ہیں جن میں صرف اس ایک فرد اس کے شریک حیات یا بہت حد تک اس کے خاندان کےبہت قریبی افراد کو فرق پڑتا ہے۔ ان معاملات سے دوسروں کا نہ تو کوئی تعلق ہوتا ہےاور نہ ہی ان باتوں کے اثرات ان کی زندگیوں پر پڑتے ہیں۔ پھر ان باتوں کو پوچھنا، ان پر تبصرہ کرنا، ان کے متعلق درست یا غلط کے فیصلے کرنا کسی طور بھی شائستگی یا تہذیب کی رو سے درست نہیں اور بیشتر صورتوں میں ایسے ذاتی نوعیت کے سوالات اور تبصرے اس فرد کو شدید ترین تکلیف دینے کا باعث ہی بنتے ہیں۔

کچھ مسائل معاشرتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کوڑا پھینک دے جس سے محلے داروں کو تکلیف ہو یا اونچی آواز میں گانے لگا لے جس سے باقی ہمسائیوں کو تکلیف ہو تو ایسے میں ان کو ٹوکنا یا اپنی تکلیف ان سے بیان کرنا آپ کا حق ہے۔ لیکن کوئی اپنے گھر میں زندگی کیسے گزارتا ہے، وہ کیا اور کتنی مقدار میں کھاتا ہے، وہ کس سے بیاہ کرتا ہے یا کس طریقے سے عبادت کرتا ہے، اس کی ٹوہ میں رہنا یا اس پر تبصرہ کرنا کسی بھی فرد کا حق نہیں۔

خدا کے لئے حساسیت سے کسی کےجذبات کے بارے میں سوچنا اور ان کی تکالیف کو دل سے محسوس کرنا سیکھیے۔ جب تعلیم یافتہ لوگ اپنے رویوں سے لوگوں کو اتنی چوٹ دے سکتے ہیں تو پھر جب غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا ہجوم کسی پر لاٹھیوں سے حملہ آور ہو جاتا ہے تو اس پر تعجب کیوں کیا جاتا ہے؟

اس بارے میں پہلے بھی پہت سے مضامین میری نظر سے گزرے ہیں کہ نصاب میں اخلاقیات کا مضمون شامل ہونا چاہئے۔ میں بھی اس بات کی بالکل قائل ہوں کہ ضرور ہونا چاہئے تاکہ کم از کم سب لوگ اپنے کام سے کام رکھنا تو سیکھیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim