مذہبی انتہا پسندی کی ممکنہ بنیادیں


منطقی مطائبات میں سے ہے کہ ارے صاحب ہم نے مان لیا کہ زید کے باپ کی ڈاڑھی ہے، لیکن ہم یہ کیسے مان لیں کہ ہر ڈاڑھی والا زید کا باپ ہے۔

اور یہ کہ

تین اور چار طاق اور جفت ہیں

سات تین اور چار ہی تو ہے

لہذا سات طاق بھی ہے اور جفت بھی۔

 ہماری اس تحریر کا پس منظر علمِ منطق کی بابت ایک مباحثہ ہے جس میں ہمارے دو اہلِ مطالعہ فاضل دوست جمشید اقبال اور عاصم بخشی شریک ہیں۔ بحث کا آغاز جمشید اقبال کے مضمون “انتہا پسندی کی منطقی بنیادیں” سے ہوا۔ ادبی چاشنی کے حامل اس مضمون میں جمشید اقبال نے نیک نیتی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انتہا پسندی دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے ارسطو کے علمِ منطق پر استوار ہے۔ اور شاہد کے طور پر ارسطو کے فکری اصول ‘خارج الاوسط’ (Law of excluded middle)کو پیش کیا اور کہا کہ قاعدۂ خارج الاوسط سیاہ و سفید میں دیکھتا ہے اور ان کے مابین سرمئی مناطق (grey areas) کا انکار کرتا ہے لہذا ہمیں ارسطو کی مغربی منطق کو رد کر کے مشرقی منطق کو اپنا لینا چاہیے جو سیاہ و سفید کے ساتھ سرمئی مناطق کی بھی قائل ہے۔

ہماری دانست میں ان کا استدلال ایک بنیادی سقم کا شکار ہے اور ہم اس کی نشاندہی کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک دوست کی وساطت پتا چلا کہ عاصم بخشی نے جمشید اقبال کے مضمون کے جواب میں “ارسطو کے دفاع میں” لکھا ہے تو ہم نے سوچا کہ اب معاملہ روشن ہو جائے گا لہذا ہمیں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن تاحال دونوں گرامی قدر دوستوں کے دو دو مضمون سامنے آ چکے ہیں اور بحث وسیع مطالعات اور اصطلاحات کی بھول بھلیوں میں سرگرداں ہے۔

لہذا بحث کے آغاز میں سرزد سقم کی نشاندہی از حد ناگزیر ہے تا کہ مرکز گریز بحث واپس اپنے فکری جادے پر آکر آگے بڑھے اور ہمیں اپنے فاضل دوستوں سے مربوط انداز میں فکری تغذیے اور استفادے کا موقع مل سکے۔

دھڑکتے دل مجھے دل سے پسند ہیں لیکن

میں سوچتے ہوئے اذہان کا پجاری ہوں

 اب ہم مضمون “انتہا پسندی کی منطقی بنیادیں” میں موجود سقم جو خلطِ مبحث سے عبارت ہے، کی نشاندہی کی طرف آتے ہیں۔ جمشید اقبال مذکورہ بالا مضمون میں لکھتے ہیں:

” ارسطو کی منطق میں خاص طور پر انتہا پسندی کا بیج سمجھا جانے والا فکری قانون ’خارج الاوسط ‘ (law of excluded middle) ہے اور اس مضمون میں ہم صرف اس قانون پر بات کریں گے۔ یہ قانون انتہا پسندی کا باعث اس لئے بنتا ہے کیونکہ یہ دو انتہاؤں کے درمیان لازمی طور پر پائے جانے والے گرے ایریاز ( جہاں نہ سفید ہے اور نہ سیاہ) کے وجود سے انکار کرتا ہے”۔

موردِ بحث مضمون کی درج بالا عبارت بتا رہی ہے کہ جمشید اقبال نقیضین (contradictories) اور ضدین (Contraries) کی منطقی بحث میں خلطِ مبحث کا شکار ہوئے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ قاعدۂ خارج الاوسط نقیضین کے بارے میں ہے ضدین کے بارے میں نہیں۔ جب کہ فاضل مضمون نگار نقیضین کے مابین واسطے یا تیسری صورت کی نفی کرنے والے اصول ‌خارج الاوسط کا ذکر کر کے ضدین (سفید و سیاہ) کو بطور مثال پیش کر رہے ہیں کہ جن کے مابین علمِ منطق واسطے یا دیگر صورتوں کے امکان کا قائل ہے۔

ہم اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ اصولِ خاج الاوسط درسِ نظامی کی زبان میں ملاحظہ فرمائیے:

(تقابل النقيضين) أو السلب والإيجاب ، مثل : إنسان ولا إنسان ، سواد ولا سواد.

والنقيضان : أمران وجودي وعدمي ، أي عدم لذلك الوجودي ، وهما لا يجتمعان ولا يرتفعان ببديهة العقل ، ولا واسطة بينهما.

 تقابلِ نقیضین: یہ نقیضین یا سلب و ایجاب کہہ لیجیے، کے مابین تقابل ہے۔ جیسے انسان اور لا انسان، سیاہی اور لا سیاہی۔

نقیضین: یہ ایک وجودی اور ایک عدمی امر سے عبارت ہیں مراد اسی وجودی امر کا عدم، اور یہ دونوں درست بھی نہیں ہوتے اور دونوں غلط بھی نہیں ہوتے اور ان دونوں کے مابین کوئی واسطہ یا تیسری صورت ممکن نہیں۔ اصولِ خارج الاوسط (law of excluded middle )۔

واضح ہے کہ جن کے مابین واسطہ نہیں ہے (excluded middle)، وہ نقیضین ہیں۔

جب کہ ضدین میں واسطے یا تیسری صورت کا امکان موجود ہے. بقول جمشید اقبال (included middle)۔

ضدین کا احوال بھی درسِ نظامی کی زبان میں ملاحظہ فرمائیے:

(تقابل الضدين) فالضدان أمران وجوديان، إن شئت قلت «صفتان» و لا يتصور اجتماعهما فى موضوع واحد و من ناحية الارتفاع فالامر يختلف تماما فيمكن ان يرتفعا لامكان واسطة بينهما.

 یعنی تقابلِ ضدین میں دونوں امر وجودی ہوتے ہیں آپ چاہیں تو انھیں صفتیں کہہ لیں۔ اور موضوعِ واحد میں ان دونوں کا بیک وقت موجود ہونا درست نہیں (یعنی ایک چیز بیک وقت سفید اور سیاہ نہیں ہو سکتی)، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ایک موضوع میں ضدین میں سے کوئی بھی نہ ہو کیونکہ ان کے مابین واسطہ یا تیسری صورت ممکن ہے (included middle)۔ جیسے سفیدی اور سیاہی۔ پس یہ دونوں (سفیدی اور سیاہی) سبز، سرخ اور سرمئی چیزوں میں نہیں پائی جاتیں۔

قصہ مختصر اصول خارج الاوسط کا قلمرو تناقض (Contradiction) اور نقیضین ہیں نہ کہ تضاد (Contrariety) اور ضدین کیونکہ موخر الذکر کے باب میں علمِ منطق واسطے یا تیسری صورت کا قائل ہے۔

اور ویسے بھی علمِ منطق کی سیاہ و سفید کی طرح مشرقی اور مغربی منطق میں تقسیم بندی، اور ایک کو مکمل طور پر رد اور دوسری کو مکمل طور پر قبول کرتے ہوئے، آپ ان دونوں منطقوں کے مابین سرمئی مناطق (grey areas) کے اسی انکار کے مرتکب تو نہیں ہو رہے جس کے آپ خود مخالف ہیں۔

بالفاظِ دیگر آپ اصولِ خارج الاوسط کو رد کرتے ہوئے مغربی منطق کی تردید اور مشرقی منطق کا استقبال کر کے کیا اصولِ خارج الاوسط ہی کی پیروی نہیں کر رہے ہیں!؟۔

گویا آپ کا یہ مضمون اصولِ خارج الاوسط کا لفظی انکار لیکن عملی اقرار ہے۔ ہم تو ہر منطق سے اخذ و استفادے کے قائل ہیں۔

آخر میں ہم اپنے مضمون کے عنوان “مذہبی انتہا پسندی کی ممکنہ بنیادیں” پر بات کرتے چلیں۔ ہماری دانست میں دینی مدارس میں اکثر و بیشتر موضوعیت کا راج ہے اسی لیے عقل (منطق و فلسفہ) و نقل (قرآن و حدیث) کے مابین درکار توازن کا فقدان ہے، جس کی بنا پر غیر علمی رویے جیسے تنگ نظری اور انتہا پسندی وغیرہ فروغ پا جاتے ہیں۔ اگر مدارس میں منطق اور تاریخی تسلسل کی روشنی میں معروضی فکر و نظر کو فروغ دیا جائے تو انتہا پسندی قصۂ پارینہ بن سکتی ہے اور معاشرہ امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).