مرد، عورت اور طوائف


زرا پرانی بات ہے، ایک دوست سے مکالمہ کرتے میں نے کہا، ”مرد بھی طوائف ہو سکتا ہے۔“ میری سنجیدگی سے کہی اس بات پر وہ خوب ہنسا۔ معروف معنوں میں پیسوں کے عوض اپنا جسم پیش کرنے والی کو طوائف کہا جاتا ہے۔ بیچا کیا جا رہا ہے؟ جسم۔ خریدنے والا بیچنے والے سے بھاؤ تاؤ کرے یا منہ مانگی قیمت ادا کرے، یہ سوال اس مضمون کا موضوع نہیں۔ جسم فروشی ہر معاشرے میں معیوب سمجھی جاتی ہے۔ میرے علم میں‌ نہیں کہ اسے مستحسن عمل قرار دیا جاتا ہو۔ بہ ہر حال جسم فروشی کا دھندا اتنا ہی قدیم ہے، جتنا بنی آدم کے ریاست بنانے کی تواریخ کا علم۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل ہو، یا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر ادارے، سبھی اس بات پہ زور دیتے ہیں، کہ ”کسبی“ کے حقوق ہیں، گر چہ یہ ادارے اس پیشے کے فروغ کے حامی نہیں، بل کہ حوصلہ شکنی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیشہ کرنے والیاں، والے؛ انھیں مخلتف طرح‌ کے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ جیسے ریپ۔ (یعنی طوائف کی رضا مندی کے بہ غیر، اس سے مباشرت کرنا) ”طوائف کی رضا مندی“ یہ ہے، اس تحریر کا موجب۔

ہندُستانی سینما اچھی کمرشل فلمیں ہی نہیں، بل کہ غیر روایتی موضوعات پہ بھی کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ”پِنک“ فلم میں عدالت کا منظر ہے، وکیل استغاثہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ملزم کے طور پہ پیش ہونے والی لڑکیاں طوائف ہیں، جرح کرتے وہ ایک ملزمہ فلک کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ سچ اُگل دے۔  وہ جذباتی انداز میں کہتی ہے، کہ ”ہاں ہم نے پیسے لیے۔۔ پیسے مانگے بھی اور پیسے لیے بھی۔ پیسے لینے کے بعد ہمارا من بدل  گیا. اس وقت ہمارا ارادہ بدل گیا؛ ہم نے اسے (گاہک کو) نہ بولا، لگا تار نہ بولا،اس کے باوجود وہ چھوتا رہا۔“ اس مکالمے پر تالیاں‌ پیٹنے والوں کی کمی نہ ہوگی، یہاں دلیل یہ ہے، کہ ”میرا حق ہے، کہ میں‌ ارادہ بدل لوں۔“ کیا کسی دکان دار کا یہ حق ہے، کہ وہ جس شے کی قیمت لے، یعنی بیچ دے، پھر کہے کہ یہ شے واپس کرو، میرا ارادہ تبدیل ہو گیا ہے؟ اب اس کے ارادے کے کیا معنی؟ یہاں معترضین کہ سکتے ہیں، کہ طوائف ”جنس“ نہیں۔ ”جنس“ نہیں تو کیا ہے؟ کیا طوائف کی کوئی اور تعریف بھی ہے؟ اوپر طوائف کی جو تعریف بیان ہوئی، ”مال کے عوض جسم پیش کرنے والی۔“ جسم کا سودا وہ کر چکی۔ یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہے، کہ خریدنے والا اس کے جسم خریدنے کا یہ مطلب نہیں لے گا، کہ طوائف کے گردے بیچ کھائے۔ جس مقصد کے حصول کے لیے قیمت دی ہے، اسی مقصد تک محدود رہے گا۔ گاہک نے جنس خریدی، دکان دار قیمت لے کر لوٹائے، کہ میرا ارادہ بدل گیا، تو اب اختیار گاہک کا، کہ وہ خریدی ہوئی شئے واپس کرے، یا نہیں۔ ایسی صورت میں دکان دار خریدار پہ ڈکیتی کا مقدمہ بنا دے، اور کہے میں بیچ چکا تھا، لیکن قیمت لوٹا رہا تھا، کہ میرا ارادہ بدل گیا تھا، اس لیے یہ ڈکیتی ہے۔ یہ فلم ”پنکی“ کی تمثیل ہے۔ ہاں ”طوائف“ کو اتنی چھوٹ ہے، کہ وہ سودا نہ کرے، اور کہے میرے دھندے کا وقت ختم ہو گیا، یا آج دھندے کا موڈ نہیں، دکان بند کی جاتی ہے۔ جیسے کسی دکان دار کے گھر جا کر اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا، کہ وہ دکان کھولے، تا کہ خریداری کی جا سکے، ایسے طوائف کو بھی مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

ایک اور تمثیل لیتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور ٹیکسی اسٹینڈ پر اس ارادے سے کھڑا ہے، کہ سواری ملے اور کسی سواری کو اس لیے نہ سوار کرے، کہ تمھاری شکل مجھے پسند نہیں، میرا موڈ نہیں بن رہا۔ یا سواری سے مطلوبہ مقام کا کرایہ طے کر لے، اتنے میں ایک اور گاہک اسی جگہ جانے کی دُگنی قیمت دینے کو تیار ہو، تو ٹیکسی والا پہلے سے کہے میرا ارادہ بدل گیا ہے، یہ میرا استحقاق ہے، کہ میں ارادہ بدلوں۔ ایسے میں ارادہ بدلنے کا استحقاق ہے؟ اسے کیا کہیں گے؟ کاروبار؟ جن ممالک کا قانون ‘جسم فروشی’ کے کاروبار کو تحفظ دیتا ہے، وہاں گاہک کے بھی کچھ حقوق ہیں؛ ”کنزیومر رائٹس۔“ ہاں اگر گاہک بیمار ہے، اندیشہ ہے، کہ طوائف کو بیماری لگ جائے گی۔ اسی طرح کی کوئی دوسری صورت ہو، تو اس کا حق ہے، انکار کرے، لیکن ”ارادہ“ بدل گیا، یہ بنیادی  نکتہ ہے، جسے زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایک نکتہ طوائف کے موڈ کا ہے، سوال یہ ہے کہ اس نے اپنا ”موڈ“ فروخت کیا ہے، یا ”جسم؟“ گاہک نے اس کی روح نہیں خریدی۔  طوائف کی محبت کا سودا نہیں‌ ہوا۔ گاہک نے اپنے موڈ کی قیمت دی ہے، ایک مخصوص مدت کے لیے اس کے جسم پر قبضہ حاصل کیا ہے۔ یہ عارضی غلامی کا منظر ہی سہی، لیکن یہاں غلامی یا جسم فروشی کی مخالفت یا حق کی بحث بھی نہیں۔ گاہک اپنے موڈ کی تسکین کے لیے آیا ہے۔ جب طوائف دھندے کے لیے کھڑی ہو گئی ہے، تو ظاہر بات ہے وہ کمائی کا ارادہ لے کر آئی ہے، مرد کی شکل و صورت، قد کاٹھ، رنگت، یا مرد کی قربت اس کا مطمع نظر نہیں۔ اس کی نظر رقم پر ہے۔ اگر وہ اس لیے آئی ہے، کہ لذت بھی کشید کرے، اور مال بھی بنائے، تو بھی طوائف ہی ہے۔ اگر بھنگی اس کے جسم کی قیمت ادا کر سکتا ہے، تو اس کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ شہنشاہ وہ قیمت نہ دے تو شرط پوری نہیں ہوتی۔ گاہک اپنی پسند دیکھتا ہے کہ اس طوائف کے لیے اس کا موڈ ہے یا نہیں۔ اسی لیے میری نظر میں یہ غلامی کا سودا ہے۔ ایک عورت جس کا ارادہ ہے، کہ وہ مباشرت سے لذت کشید کرنے آئی ہے، مال بنانے نہیں، رُپیا کمانے نہیں، تو ایسی عورت کو کچھ بھی کہیے، ہرگز طوائف مت سمجھیے گا۔ ایسی عورت کو ”طوائف“ کہنا زیادتی کے مترادف ہے۔ کوئی کہتا ہے تو کہے، ایسی عورت کو طوائف نہیں تسلیم کیا جا سکتا۔  یہ عورت اپنی مرضی کا مرد چننے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ بدلے میں رقم کا، قیمت کا مطالبہ نہیں کرتی۔

کسی مکالمے کو پٹری سے اتارنے کے لیے یہی بہت ہے، کہ مظلومیت کا رونا  رویا جائے۔ یہاں بھی اسی بات کا اندیشہ ہے، کہ کچھ کہیں گے، طوائف بہ ہر حال عورت ہے، اور عورت کے حقوق یہ ہوتے ہیں، عورت کے حقوق وہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے اوپر عرض کیا، کہ ”طوائف ایک رویے کا نام ہے۔“ یہ رویہ مرد کا ہے تو وہ بھی طوائف کہلائے گا۔ اگر جسم فروشی کو کاروبار سمجھ لیا گیا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ حرام ہے، یا حلال۔ جیسا کہ منشیات کی تجارت کو حرام کہا جا سکتا ہے، تو کیا منشیات فروشی کے اصول نہیں ہوتے؟

بعضوں کے نزدیک میاں بیوی کے تعلق میں عورت کی رضا مندی نہ ہو، تو وہ بھی ”ریپ“ کی تعریف میں‌ آتا ہے، لیکن انھی ”بعضوں“ کی گئی تعریف میں مرد کی مرضی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں بیوی ہی ریپ کا شکار ہوتی ہے، یا شوہر بھی ریپ ہوتا ہے؟ ”بعضے“ خاموش ہیں۔ کیا کوئی بیوی بھی ”طوائف“ ہو سکتی ہے؟ ایسا شوہر جو حق زوجیت ادا نہ کرے، تو حقوق نسواں کے علم برداروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کوئی عورت حق زوجیت ادا نہ کرنا چاہتی ہو، تو اسے مجبور نہ کیا جائے، کہ یہ ریپ پے۔  وائے حیف! ایسی عورت جو شوہر سے عیش و آرام کی توقع رکھے، شوہر یہ قیمت نہ دے پائے، تو ”موڈ“ کی چادر تان کر سو جایا کرے، طوائفانہ رویہ ظاہر ہے، تو ایسی بیوی کو طوائف کہنے میں کیا امر مانع ہے؟ اگر میاں بیوی کے تعلق میں دراڑ آ گئی ہے، تو علاحدگی کا دریچہ کھلا ہے۔ بیوی یہ چاہے کہ شوہر سب سہولیات مہیا کرے، لیکن مباشرت کے لیے میرا موڈ ہی نہیں بنتا، ایسے میں مرد چھو لے تو ریپ؟ اور نہ چھوئے، طلاق دے کر، یا پہلی پر دوسری لے آئے، تو ظلم؟ ازدواجی رشتہ ان رشتوں میں سے ایک ہے، جو معاہدوں سے بنتے ہیں۔ شراکت داروں میں اختلاف ہے، تو الگ ہو جائیں، ایسے میں یہ کہنا کہ ایک فریق اس لیے ظالم ہے کہ وہ مرد ہے، تو عرض یہ ہے، کہ مرد اس عورت کی ذمہ داری کیوں اٹھائے، جو مرد کی ذمہ داری اٹھانے سے معذور ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments