سیاسی اختلاف رائے سے توہین مذہب نہیں ہوتی


گزشتہ ہفتے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ایک عجیب و غریب اعلان جاری کیا جس میں شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر مذہب کی اہانت کرنے والے افراد کے خلاف شواہد فراہم کریں۔ اس اشتہار میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے افراد اسلام کے دشمن ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں توہین مذہب کے قوانین کو ذاتی تنازعات نمٹانے کے لیے وسیع پیمانے پر غلط استعمال کیا گیا ہے اور جہاں یہ قوانین معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے ایک دھمکی میں تبدیل ہو چکے ہیں، کسی سرکاری ادارے کی طرف سے ایسا اقدام بہت خطرناک ہے۔ یہ بات مزید تشویش کا باعث ہے کہ ایک جمہوری حکومت میں اس طرح کا اعلان کیا گیا ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو توہین مذہب کے مباحث کو ہوا دینے کے مورچے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر مذہبی اہانت پر مبنی مواد روکنے کے بارے میں ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس طرح کی توہین میں ملوث افراد دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسے سوشل بک پیجز کے خلاف فوری اقدام نہ کیا گیا تو نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے پیروکاروں کا صبر جواب دے جائے گا اورکئی ممتاز قادری منظر عام پر نمودار ہو جائیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ انٹرنیٹ پر توہین مذہب کرنے والوں کے خلاف تحقیقات شروع کی جائیں۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ اگر سوشل میڈیا نیٹ ورک پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے قابل اعتراض سمجھے جانے والے مواد کو روکنے میں ناکام رہے تو سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی جائے۔ بعد ازاں ایف آئی اے نے ایک جج کی کردار کشی کے بارے میں شکایات کی تحقیق کرتے ہوئے وزیر داخلہ کو رپورٹ کیا کہ فیس بک کی انتظامیہ نے ایسی مبینہ مہم چلانے والے افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر متعلقہ وزیر نے ہدایت دی کہ اس معاملے پر حکمت عملی وضع کی جائے، مقبول عام سوشل میڈیا اداروں مثلاً فیس بک، ٹویٹر اور وٹس ایپ کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان ویب سائٹس کے پاکستان میں مقامی ورژن متعارف کرائے جا سکیں اور ان سوشل میڈیا سائٹس پر مبینہ جعلی، نفرت انگیز اور توہین آمیز مواد پر پابندی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

تاریخی طور پر پاکستان کی ریاست کا اختلاف رائے کرنے والے شہریوں کے ساتھ رویہ متنازع رہا ہے۔ حکومت نے بارہا ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے۔ ایسے افراد کو ڈرانے دھمکانے کی ایک روایت بھی ہمارے ہاں موجود رہی ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران ریاست نے نہ صرف اختلاف رائے کو کچلنے پر زور دیا بلکہ ایسے افراد کو دوسروں کے لیے عبرت ناک مثال بنانے کی بھی کوشش کی۔ اسے تاریخی اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کرنے کا یہ رجحان ملک میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ منطبق ہو گیا ہے۔ ریاست اور عسکریت پسند گروہوں نے مذہبی انتہاپسندی کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف منظم مہم چلائی ہے۔ ریاست اور مذہبی گروہوں میں غیر شفاف تعلقات پر تنقید کرنے والے بھی نشانہ بنائے گئے ہیں اور ایک خاص پہلو یہ کہ سیاست اور قومی سلامتی کے معاملات میں فوج کے کردار پر بات کرنے والوں کو دباﺅ کا سامنا رہا ہے۔

رواں برس جنوری میں پنجاب کے تین مختلف شہروں سے کم از کم پانچ بلاگر زکو اغوا کیا گیا۔ یہ پانچوں واقعات باہم مربوط تھے۔ کہا یہ گیا کہ یہ افراد گم ہو گئے ہیں۔ تین ہفتے تک غیر قانونی حراست میں رہنے کے بعد یہ لوگ واپس لوٹ آئے۔ اس دوران میں ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر گمشدہ بلاگرز کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دینے کی ایک منظم مہم چلائی گئی تاکہ رائے عامہ کی نظر میں ان افراد کو اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جا سکے۔ ان افراد کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے والے ہر شخص کو بھی غدار قرار دیا گیا اور توہین مذہب کا حامی قرار دے کر سخت اقدامات کی دھمکی دی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ان بلاگرز میں سے زیادہ تر سے فوج کی پالیسیوں پر تنقید کرنے اور مذہب کے غلط استعمال کی مخالفت کرنے کا گناہ کبیرہ سرزد ہوا ہے۔ ان افراد کی گمشدگی پر کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ اپنی رہائی کے کچھ ہفتے بعد ایسے ایک بلاگر وقاص گورایہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے مبینہ اغوا کاروں کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ ریاست نے ان الزامات کی تردید کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ ایک انتہائی قابل تشویش امر یہ ہے کہ اہانت مذہب کے مبینہ طور پر مرتکب افراد کے خلاف مہم میں لال مسجد والے عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 2007 ءمیں فوجی افسروں کو شہید کیا گیا تھا۔ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت کے جہاد کے بارے میں موقف تبدیل ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لال مسجد کو اب بھی کسی کی سرپرستی حاصل ہے؟

سوشل میڈیا ہم عصر دنیا کی ایک حقیقت ہے۔ اسے کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل کی طرح بند نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی سطح پر سوشل میڈیا شہری صحافت کے لیے شاہراہ کے طور پر کام کر رہا ہے اور ان مسائل کو سامنے لاتا ہے جنہیں باقاعدہ صحافتی ادارے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں مختلف طرح کی آرا کو سامنے آنے سے روکنا کیوں چاہتے ہیں۔ اگر ریاست کو اس طرح کے مو ¿قف سے اختلاف ہے تو اس کی تردید کی جانی چاہیے اور قابل مواخذہ معاملات پر قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسندوں کو سوشل میڈیا پر اپنا موقف پیش کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ٹیلی ویژن پر ان عناصر کے حامیوں کو پوری جگہ دی جاتی ہے لیکن انتہا پسندی کی مخالفت کرنے والوں کو خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ فیس بک کی انتظامیہ پر اس معاملے میں تعاون کرنے سے انکار کا الزام زور و شور سے عائد کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فیس بک قابل اعتراض مواد پر باقاعدگی کے ساتھ اقدامات کرتا رہا ہے2016ء کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی درخواست پر فیس بک نے کم از کم پچیس پیجز کو اس الزام میں بند کیا کہ وہ مبینہ طور پر توہین مذہب، قومی پرچم کی بے حرمتی اور قومی خودمختاری کے خلاف مواد شائع کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق فیس بک کی انتظامیہ نے پاکستانی حکومت کے خدشات پر بات چیت کے لیے اپنا ایک وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکے لیکن ریاست تو ان معاملات میں خود فریق بن رہی ہے۔ کیا توہین مذہب کے یہ الزامات خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کی حکمت عملی ہیں۔ معروف صحافی حامد میر نے حال ہی میں بتایا ہے کہ توہین مذہب کے الزامات عائد ہونے کے بعد سے انہوں نے انسانی حقوق کے معاملات پر تبصرہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ 2014 ءمیں حامد میر پر ایک قاتلانہ حملے کے بعد اٹھنے والے مباحث میں جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر بھی توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

ریاست اس طرح کا رویہ اختیار کر کے قوم کی خدمت نہیں کر رہی۔ توہین مذہب کا نقارہ بجاتے رہنے سے عوام میں تعصب پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی پیچیدہ تاریخ سے ناواقف نوجوان ذہنوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے سیاسی اور عسکری رہنما انتہا پسندی کے خلاف تواتر کے ساتھ بیانات جاری کرتے ہیں اور دوسری طرف انتہا پسندی کی دلدل کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف توہین مذہب کے قوانین پر دوٹوک موقف اختیار کریں۔ انہیں دائیں بازو کے مذہبی عناصر کی بالواسطہ حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں اب بھی مودی کا یار اور سکیورٹی رسک قرار دیا جا رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات وزیراعظم پر کیوں لگائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کو بھی جاننا چاہیے کہ توہین مذہب کی اصطلاح اچھالنے سے مشتعل ہجوم اور انتہا پسند عناصر کو قانون ہاتھ میں لینے کی تحریک ملتی ہے۔

پاکستان کو ایک قومی ریاست میں ڈھلنا چاہیے اور کسی ایک فرقے یا مسلک کے ہاتھوں یرغمالی نہیں بننا چاہیے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کو سیاسی دائرے میں گھسیٹنے کے بعد قومی ریاست کی بنیادیں غبار آلود ہو جاتی ہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ مذہبی پیشوا مختلف مسالک کے عقائد کے بارے میں اپنی ایک سوچ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کو اپنی حکومت پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایسی تنقید کو توہین مذہب قرار نہیں دینا چاہیے۔

(بشکریہ ڈیلی ٹائمز – ترجمہ: وجاہت مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).