کتاب اور سکول کو سوچ کا آلہ بنانے کی ضرورت ہے


کسی بھی کتاب کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو لفظ بلفظ طوطے کی طرح رٹ لیا جائے اور آگے دوبارہ سنا دیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتابوں سے سبق حاصل کیا جائے اور اس کو آگے آنے والے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ بہت سارے سوالات ایسے ہیں جن کے بارے میں لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے جیسا کہ کمپیوٹرز۔ کمپیوٹر کی دنیا میں جو دائرے اور نوکریاں نکل آئی ہیں ان کے بارے میں پچھلی صدی تک کون جانتا تھا؟
دنیا کی کوئی بھی کتاب یا سکول آپ کو زندگی میں پیش آنے والے سارے سوالوں کے سارے جواب نہیں دے سکتے۔ کتابیں اور  سکول صرف سوچنا اور مسائل کا حل نکالنا ہی سکھا سکتے ہیں اور ان کو ایسے ہی دیکھنا بھی چاہئے۔
جس طرح قانون میں مختلف دائرے ہیں۔ ایک کریمنل لائر فیملی لا، ہیلتھ کیئر لا یا ایگریشن لا کے بارے میں یقین سے حتمی رائے نہیں دے سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح میڈیسن کی پوری فیلڈ اتنی وسیع ہے کہ ایک ڈاکٹر یا سرجن کو ساری میڈیسن نہیں آ سکتیں پھر جس طرح انفارمیشن تیزی سے پھیل رہی ہے کئی مضامین پر قابو پانا مشکل ہے۔ اسی لیے میں ہمیشہ سے اسپیشلٹی میں جانا چاہتی تھی۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کون سا مضمون چنا جائے۔ وہ آہستہ آہستہ بعد میں واضح ہوا۔ اکثر لوگ او بی یا دیگر فیلڈز سے متعلق سوال پوچھتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ان فیلڈز کے ماہرین سے رجوع کیا جائے۔
اس بات کی ایک مثال سمجھانے کے لیے آج آپ کو ایک مریضہ کا کیس بتاتی ہوں۔ مریضہ کی شناخت چھپانے کے لیے کچھ انفارمیشن حذف اور کچھ تبدیل کردی گئی ہیں کیونکہ مریضوں کی معلومات غیر متعلق لوگوں سے شیئر کرنا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے غیر مناسب ہے۔
کچھ سال پہلے ایک خاتون کو ہائی ٹرائی گلسرائڈ ہونے کی وجہ سے اینڈوکرائن کلینک میں بھیجا گیا۔ ان کی عمر 50 سال فرض کرتے ہیں۔ جب ہمارے پاس مریض ریفر کیے جاتے ہیں تو ہم لوگ صرف ان مریضوں کو دیکھنے کی ذمہ داری لیتے ہیں جو ہماری اسپیشلیٹی کے دائرے میں آتے ہوں۔ باقی مریضوں کے کاغذ واپس ان کے پرائمری کیئر کے پاس بھیجتے ہیں تا کہ وہ ان جگہوں پر ریفر کریں جہاں ان کا مناسب علاج ہو سکے۔
جب میں نے ان کو دیکھا اور پوچھا کہ آپ نے کولیسٹرول کا علاج کروانے کے لیے پہلے کون کون سی دوا لی ہے تو وہ بولیں کہ میں آپ کو زبان میں جلن کی شکایت کے لیے دکھانے آئی ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کا ریفرل ہائی ٹرائی گلسرائڈ کے لئے قبول کیا گیا تھا۔ زبان میں جلن کے لیے شاید آپ کا نیورالوجسٹ کو دکھانا زیادہ مناسب ہوتا۔ یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور وہ بولیں کہ مجھے دو سال سے یہ تکلیف ہے اور اس اپوائنٹمنٹ کا میں نے تین مہینے انتظار کیا ہے اور یہ بھی کہ آپ میری آخری امید ہیں ۔ یہ سن کر ظاہر ہے کہ میں پریشان ہوگئی کہ اب ان کی کس طرح مدد کروں ۔ میڈیکل سکول اور جنرل میڈیسن کیے اتنے سال ہو گئے ہیں کہ اب اپنی فیلڈ سے باہر کی چیزیں اتنی یاد بھی نہیں رہی ہیں اور ویسے بھی سب فیلڈز اپنے اپنے دائروں میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اینڈوکرائن کا فوکس ذیابیطس، کولیسٹرول، اوسٹیو پوروسس، تھائرائڈ ، پیراتھائرائڈ اور دیگر ہارمون کی بیماریوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے بعد کے دو مریض بھی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ جتنے زیادہ مریض انتظار کر رہے ہوں اتنی ہی ٹینشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔
میں نے سوچنا شروع کیا کہ کن کن وجوہات سے زبان میں جلن ہو سکتی ہے۔ ان کے پرانے ریکارڈ بھی پڑھے تو یہی دیکھا کہ زیادہ تر عام چیزیں جو ہو سکتی ہیں جیسے کہ فولاد کی کمی، زنک کی کمی اور وٹامن بی 12 کی کمی تو وہ سب ان کے گزشتہ ڈاکٹر چیک کر چکے ہیں اور سب لیب نارمل ہیں۔
پھر ان سے مزید سوالات پوچھنا شروع کئے کہ یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے اور اس سے پہلے کیا ہوا تھا۔ کہنے لگیں دو سال پہلے ایک سرجری کروائی تھی۔ سرجری کی نوعیت کی معلومات رہنے دیتے ہیں صرف یہ سمجھئے کہ منہ سے کافی دور تھی اور اس کے بعد ان کے ٹھیک ہونے میں کچھ ٹائم لگا۔ اس کے بعد منہ کے گرد چھالے سے ہوگئے اور تب سے یہ تکلیف نہیں گئی۔ یہ ہسٹری سن کر میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے سرجری کے بعد امیون سسٹم یعنی کہ مدافعتی نظام جو بیکٹیریا اور وائرس سے لڑتا ہے وہ ٹھیک سے کام نہ کر رہا ہو، اس سے ہو سکتا ہے کہ شنگلز کے چھالے ہو گئے ہوں جو کہ چکن پاکس کے وائرس سے ہو جاتی ہے۔ پھر یہ ہو سکتا ہے کہ وائرس کے نرو میں بیٹھ جانے سے ان کو پوسٹ ہرپیٹک نیورالجیا ہو گیا ہو۔ بظاہر دیکھنے میں کوئی علامت موجود نہیں تھی۔ منہ کے گرد کچھ نشان باقی نہیں رہے تھے۔
اب ان ساری قیاس آرائیوں کے بعد میں نے سوچا کہ ان کو کیا دوا دی جائے۔ تو جو بھی ذیابیطس کے نیوراپیتھی کے مریض ہیں ان کو زیادہ تر گابا پینٹن، لائریکا، سمبالٹا یا پھر میٹانیکس دیتی ہوں۔ گاباپینٹن سب سے زیادہ سستی ہے تو میں نے ان کو وہ لکھ دی۔ اور ہائی ٹرائی گلسرائڈ کے لیے فینوفائبریٹ۔ پھر وہ چلی گئیں۔
دو مہینے کے بعد ایک دن وہ پھر واپس آگئیں فالو اپ کے لیے۔ ان کا نام شیڈول پر دیکھ کر میں پریشان ہوئی کہ یہ پھر سے واپس آگئی ہیں اور آج ان کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ جب ان کی باری آئی اور میں نے ان کو دیکھا تو وہ بولیں کہ جو آپ نے دوا لکھ دی تھی اس سے 80 فیصد درد ختم ہو گیا ہے اور آپ اس دوا کو دن میں دو دفعہ لکھ دیں کیونکہ جب اثر ختم ہونے لگتا ہے تو درد واپس آنے لگتا ہے۔ یہ سن کر مجھے یقین ہی نہ آیا۔ اور ٹرائی گلسرائڈ کا لیول دیکھا تو وہ بھی ٹھیک ہو گیا تھا۔
اس تجربے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اور سکول کو سوچ کا آلہ بنانے کی ضرورت ہے تا کہ ان جگہوں پر جواب تلاش کیے جا سکیں جہاں کوئی نشانی تک نہ ہو۔ اسی طرح ہمیں نئی نسل کی سوچ تعمیر کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ وہ جن سوالوں کا سامنا کرنے والے ہیں، وہ سوال ہماری سوچ کی حد سے باہر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).