تخت لاہور، سکھا شاہی اور اورنج ٹرین


\"roshan\"ایک عرصہ تک تخت لاہور پر براجمان رہنے والے سکھ حکمرانوں کے دور حکومت کو اطمینان بخش تصور کرنے والوں کی یہاں کمی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس دور کو استعارے کے طور پر اس لیے ©”سکھا شاہی“ کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ زمانہ ظلم و جبر سے بھرپوراور تہذیب و تمدن کی اہمیت کے احساس سے عاری حکمرانوں کا دور تھا۔اس مﺅقف کے جواز کے طور پر دوسری باتوں کے علاوہ لاہور کی ان تاریخی عمارتوں کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے جن کی نگہداشت کرنے کی بجائے سکھ دور میں ان کی بالائی سطح پر آویزاں سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھرنوچ نوچ کر حضوری باغ کی بارہ دری جیسی عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کیے گئے۔اس سلسلے میں لاہورکی بادشاہی مسجد ، پشاور کی مسجد مہابت خان اور ملتان کی مسجد ولی محمد خان کو بڑی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان تاریخی مساجد کو سکھ دو ر حکومت میں اصطبل اور بارود خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

تخت لاہور پر مسلط رہ چکے حکمرانوں کی ” سکھا شاہی “ آج اس لیے یاد آرہی ہے کہ موجودہ دور کے تخت لاہور کے حاکموں کے طرز حکمرانی اور ان کے حضوری باغ جیسی یادگاروں کی تعمیر کے شوق کی وجہ سے لاہور شہر کی تاریخی عمارتیں دوبارہ سے شکست و ریخت کے خطرات سے دوچار نظر آرہی ہیں۔ آج کا حضوری باغ اس اورنج ٹرین کو کہا جارہا ہے جسے موجودہ والی تخت لاہور اپنے دور حکومت کی یادگار کے طور پر کسی قانون و ضابطے کی پرواہ کیے بغیر ہر حال میں تعمیر کروانا چاہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے لاہور کے سنگھاسن پر بیٹھے لوگوں کی حکمرانی کو ’ سکھا شاہی ‘ کے تسلسل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

\"govt312-1700\"1975 ءکے تحفظ آثار قدیمہ ایکٹ کی موجودگی کے باوجود اس قانون کو پاﺅں تلے روندھا جارہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحفظ آثار قدیمہ ایکٹ کی پامالی کرنے والے کوئی عام لوگ نہیں بلکہ اپنے حلف کے ذریعے ملک کے آئین و قانون کا تحفظ کرنے اور اس کے پابند رہنے کی قسم کھانے والے صوبہ پنجاب کے موجودہ حکمران ہیں۔ واضح رہے کہ 1975 ءکے تحفظ آثار قدیمہ ایکٹ کی شق نمبر 22 میں صاف طور پر یہ پابندی عاید کی گئی ہے کہ آثار قدیمہ (تاریخی ورثہ) میں شامل کسی بھی تاریخی عمارت کے 200 فٹ قریب تک نہ تو کوئی ترقیاتی منصوبہ یا سکیم شروع کی جاسکتی ہے اور نہ ہی نئے تعمیراتی کام کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اورنج لائن ٹرین کی تعمیر کے سلسلے میں جو کام جاری ہے اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ٹرین بین الاقوامی ورثہ قرار دیئے جاچکے شالامار باغ کے 30 سے 35 فٹ قریب اور اسی طرح قومی ورثے کی فہرست میں شامل دائی انگہ کا مقبرہ، بدھو کا آوا، چوبرجی اور مقبرہ شہزادی مہرالنسا جیسی تاریخی عمارتوں سے قانونی حد مقررکیے گئے 200 فٹ سے بہت کم فاصلے سے گذرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اورنج لائن ٹرین کی تعمیر کے لیے مذکورہ عمارتوں کے قریب بھاری مشینری کی آمدو رفت، زمین کی کھدائی اور ٹنوں وزنی پلروں کی تعمیر کا عمل 1975 ءکے تحفظ آثار قدیمہ ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔اورنج لائن ٹرین کے لیے جاری تعمیراتی کام سے صرف مغلیہ عہد کی تعمیرات ہی نہیں بلکہ انگریز دور میں بنائی گئیں لاہور ہائیکورٹ، جنرل پوسٹ آفس اورکپورتھلہ ہاﺅس جیسی تاریخی اہمیت کی حامل عمارات بھی متاثر ہورہی ہیں۔ یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ انگریز دور کی مذکورہ عمارتیں ان عمارتوں کی فہرست کا حصہ ہیں جن کو خود پنجاب حکومت نے 1985 میں اپنے جاری کردہ ایک آرڈیننس کے ذریعے جوں کا توں رکھنے کی پابندی عاید کرتے ہوئے ہر قسم کے کے ممکنہ نقصان سے تحفظ فراہم کیا تھا۔ ان دو قوانین کی موجودگی میں اگر ہمارے حکمران اورنج ٹرین کا تعمیراتی کام جاری رکھتے ہوئے مذکورہ تاریخی عمارتوں کے تحفظ سے پہلو تہی کر رہے ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کو آئین و قانون کی پاسداری کی حلفاً قبول کی گئی ذمہ داری کا کس قدر احساس ہے۔

\"913766-shalimar-1435868804-590-640x480\"پنجاب کے حکمرانوں نے تاریخی عمارتوں کے نافذ قانون پر عملدرآمد سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں جاری ہونے ہوالے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کو بھی ہوا میں اڑا یا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے لاہور ہائیکورٹ میں اورنج لائن ٹرین کی تعمیر کے دفاع سے معذرت کرتے ہوئے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔ واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے اورنج لائن ٹرین کی تعمیر کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ایک عبوری حکم کے ذریعے تاریخی ورثے کی حامل عمارات سے دو سو فٹ کے فاصلے تک تمام قسم کے تعمیراتی کاموں پر تاحکم ثانی پابندی عاید کی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس واضح حکم کے باوجود کسی بھی تاریخی عمارت کے قریب توڑ پھوڑ ، کھدائی اور شکست و ریخت کا کام نہ روکا گیا۔ حکومت کا یہ عمل نہ صرف عدالتی حکم کی صریحاٍ ً خلاف ورزی ہے بلکہ توہین عدالت کے زمرے بھی آتا ہے۔ خواجہ حارث کیا کسی بھی دوسرے وکیل کے لیے اس حکومتی عمل کو عدالت میں قانونی جواز فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔ یقیناً اسی وجہ سے عدالت میں کسی ممکنہ ہزیمت سے بچنے کے لیے خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے نہ صرف اورنج ٹرین کی تعمیر کے لیے حکومتی مﺅقف کے دفاع سے معذرت کی بلکہ مقدمہ کی پیروی کرنے کی مد میں لی گئی فیس بھی واپس کردی ۔ اورنج ٹرین کے روٹ کو ہر حال میں تاریخی عمارتوں کے قریب ترین رکھنے کی جس حکومتی خواہش کے دفاع سے خواجہ حارث نے معذرت ظاہر کی ہے ، حکومت اسے ہر حال میں عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے۔پنجاب حکومت کی اس کوشش کو کامیاب کرانے کے لیے مرکز میں موجود بڑے بھائی کی حکومت صوبے میں قائم چھوٹے بھائی کی حمایت میں عدالتی کاروائی کا حصہ بن گئی ہے۔ خواجہ حارث کے مقدمے سے الگ ہونے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان کا دفتراب لاہور ہائیکورٹ میں صوبہ پنجاب کی وکالت کرنے کے لیے تیار دکھائی دے رہا ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر کی طرف سے پنجاب کے قانونی معاملات کے دفاع کی کوشش بذات خود ایک سوال ہے کہ کیا اس عمل کا قانونی جواز موجود ہے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں دیکھنا یہ ہو گا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کا دفتر صوبہ پنجاب کی حکومت کی طرف سے تاریخی عمارات کے تحفظ کے قانون کو نظر انداز کرنے کا دفاع کس قانونی جواز کے تحت کرے گا۔ اورنج لائن ٹرین کی تعمیر کے منصوبے کے ساتھ اس قانونی سوال کے علاوہ بھی کئی دوسرے سوال جڑے ہوئے ۔ وہ سوال براہ راست اس صوبے کے ان معاشی وسائل کے ساتھ وابستہ ہیں جن میں اضافہ کیے بغیر صرف ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اربوں کی سبسڈی دینے کے کئی منصوبے تیار کیے جارہے ہیں ۔ تخت لاہور والوں سے اس طرح کے سوال کیے جانے بھی ضروری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments