جنسی تعلق چائے کا کپ نہیں


ٹارگٹ ریڈرز کے ٹیبوز کو نظر انداز کرتے اگر لکھنے والا یہ سمجھ لے کہ اس نے اشاروں، استعاروں ،تشبیہات کو واضح کر دیا ہے، اور ایسا نہ ہوا ہو تو تحریر میں خامیاں رہ جاتی ہیں۔ مجھے شبہ ہے اختصار کی چاہ میں میری گزشتہ تحریر ’مرد، عورت اور طوائف‘ میں یہ خامیاں رہ گئی ہوں گی۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آج کا ذہین قاری بین السطور میں کہی بات نہ سمجھے۔

کچھ ’ٹیبوز‘ ہوتے ہیں، جن کے خلاف بات کرنا ویسے ہی خطرناک ہوتا ہے، جیسے مذہب کے معاملات پر سوال اٹھانا۔ ایک ٹیبو یہ ہے کہ ’عورت مظلومیت کا دوسرا نام ہے‘ اس معاشرے میں دیکھا جائے تو بہت حد تک ایسا ہی دکھائی دے گا، لیکن ہر واقعے کو اسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے ہم اس ٹیبو کا سہارا لیتے ہیں، ’عورت تو مظلومیت کا دوسرا نام ہے۔‘ آدم کی مادہ کو عورت کا نام دیا جاتا ہے۔ جب لفظ ’عورت‘ کہا جائے، تو بہن، ماں، بیوی، بھابھی، خالہ، پھپھو اور اسی طرح کے دیگر رشتوں کی بات نہیں کی جا رہی ہوتی۔ گزشتہ تحریر ’مرد، عورت اور طوائف‘ کا موضوع یہ تھا کہ ’طوائف‘ عورت یا مرد کا نام نہیں۔ یہ ایک رویے کا نام ہے؛ دکان داری ہے؛ تجارت ہے۔ اسے تاجرانہ اصولوں سے پرکھا جائے گا۔ یہ بات بہت سے قارئین کو ہضم نہیں ہوئی۔ مجھے اس پر کیا اعتراض، ہر کوئی اپنی فکر میں آزاد ہے۔

یہ نکتہ بھی اٹھانے کی کوشش کی کہ دکان دار سودا طے کرنے کے بعد اس سودے سے منکر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی پڑھنے والوں کو ناگوار ہوئی کیوں کہ وہ ’طوائف‘ کو جنس ماننے پر تیار نہیں۔ یہاں واضح کر دوں کہ ’عورت‘ جنس نہیں، میرا زور اس نکتے پر ہے کہ ’طوائف‘ جنس ہے۔ ان دونوں کو خلط ملط کر دیں گے، تو ’رضامندی‘ یا Consent کی بحث کو الجھا دیں گے۔ اگر کسی کو اس نکتے سے اتفاق نہیں ہے کہ طوائف’ جنس‘ ہے تو وہ اس بحث سے باہر ہے۔

’مرد، عورت اور طوائف‘ کے آخری بند میں جو بات چند لفظوں میں نمٹانے کی کوشش کی اس کو یہاں تفصیل سے بیان کر دیتا ہوں، تا کہ ابہام دور ہو۔ عورت ’بیوی‘ کے روپ میں ہو، اور ’شوہر‘ سے مالی آسودگی کی متمنی ہو، اور وہ مجامعت کے عمل کو اپنی فرمائشوں سے نتھی کرے، تو یہ عمل طوائفانہ عمل ہے۔ اسی طرح شوہر، بیوی سے اصرار کرے کہ وہ اپنے میکے سے کچھ لے آئے تبھی تعلق کی نیا پار اترے گی، تو یہ بھی مرد کا طوائفانہ عمل کہلائے گا۔ حق ہے کہ مرد عورت کا یہ تعلق ’موڈ‘ سے مشروط ہے۔ کوئی کہے ’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘، اسے کیا نام دیا جائے، یہ فیصلہ آپ پر چھوڑا۔ اسی پیرائے کی ایک سطر میں یہ بات بھی نمٹائی تھی، کہ فریقین کا ایک دوسرے سے جی بھر گیا ہے، تو وہ الگ ہو جائیں، نہ کہ ایک دوسرے کے خاندان کو چھاننی سے گزاریں۔ دونوں کے لیے انتخاب کا در کھلا ہے، وہ اپنے من چاہے سے ناتا استوار کر لے۔ فریقین ایک دوسرے پر جبر کریں یہ مناسب نہیں۔ بات اس سماج کی ہے تو کہا جاتا ہے، شوہر بیوی کو طلاق دے گا تو وہ ’بے چاری‘ کہاں جائے گی! پاکستانی سماج آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مثال ہے، جہاں اکثریت مذہب اسلام کی بات کرتی ہے، لیکن کئی معاملوں میں مذہب اسلام سے کوئی رہنمائی نہیں لیتے۔

شادی کے بندھن، نکاح کے معاہدے میں بھی اسلام کو دور سے سلام کرتے ہیں۔ نکاح نامے کی کئی شقوں پر بے حسی سے لکیر پھیر دیتے ہیں، کہ جیسے منکوحہ کا کوئی حق ہی نہیں۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ طلاق کی صورت میں اس عورت کے نان نفقے کا ذمہ دار سابق شوہر ہے جب تک وہ خاتون کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔ اگرکوئی ایسا نہیں کرتا تو یہ اس کا جرم ہے، اس پر اس کی پکڑ ہونی چاہیے۔ اب کوئی یہ کہے کہ عورت جو مرضی کرے طلاق نہیں دی جانی چاہیے، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے مرد جو چاہے کرے عورت کو تابع رہنا چاہیے۔ اصول دونوں کے لیے ہیں، عورت ہونا مرد ہونا افضلیت تو نہیں۔

ہندو مت، مسیحیت، یہودیت یا دیگر مذاہب میں کیا اصول ہیں، ان کے ماننے والوں پر وہی اصول لاگو ہوتے ہیں، جو ان کے مذہب سے ہیں۔ جنھیں مذاہب سے دلچسپی نہیں وہ رہ نمائی کے لیے اس فکر کو دیکھیں جس فکر کے مقلد ہیں۔

ایک محترم خاتون نے ایک دلچسپ وڈیو کا لنک بھیجا، جس میں عورت مرد کے جسمانی تعلق کی’رضامندی‘ کو اس تمثیل کے ذریعے بیان کیا کہ فریقین میں سے ایک کہے، ’تمہیں چائے پینی ہے؟‘ دوسرا جواب دے، ’ہاں میں مرا جاتا ہوں چائے پینے کو۔‘ تو اب دونوں کو چائے پینا ہے۔ ایسے ہی اگر ایک فریق کہے کہ ’مجھے چائے نہیں پینی۔‘ تو اسے زبردستی چائے نہیں پلانی چاہیے۔ تسلیم کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ایک فریق چائے نہیں پینا چاہتا تو اسے زبردستی چائے کیوں پلائی جائے۔ دوسرا فریق اکیلا بیٹھا چائے پیے، اور جب جب چائے پینے کو جی چاہے، اکیلا بیٹھا چائے پیتا رہے۔ حتیٰ کہ ایک فریق کہے اس نے چائے پینا چھوڑ دی ہے، اس لیے اسے کبھی بھی چائے کا نہ پوچھا جائے۔ لیجیے اب فریق ثانی تمام عمر تن تنہا چائے نوش کرے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مرد عورت کا جنسی تعلق چائے کا کپ نہیں ہوتا۔

مرد اور عورت کا جنسی ملاپ چائے کے گھونٹ سے سوا ہے۔ بالفرض ایک عورت جنسی ملاپ کی خواہش مند ہے، لیکن مرد کی رضامندی ہو کر ہی نہیں دیتی، یا وہ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوچکا، ایسے میں وہ عورت کیا کرے؟ یہ کہ ساری عمر اکیلی بیٹھی چائے پئے؟ یا چائے پینے کے لیے اڑوس پڑوس میں تانکا جھانکی کرے، کہ کس کی کیتلی سے خوش بو آتی ہے۔ اگر خواہش کی ایسی ہی شدت ہے تو بہتر ہے وہ عورت ایسے مرد سے الگ ہو کر کسی اور کا انتخاب کر لے۔ ایسا ہی اختیار مرد کو حاصل ہے۔ اب یہ کہنا کہ یہاں ایسا نہیں ہوتا، ویسا نہیں ہوتا، تو یہ بحث بھی یہی ہے، کہ کیسا ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ کیسا ہوتا ہے۔

مرد، عورت اور طوائف

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran