کیا سرمایہ داری نظام میں نفع نجی جبکہ خسارہ عوامی ہوتا ہے؟


کہا گیا ہے کہ نظام سرمایہ داری میں نفع نجی ہوتا ہے مگر خسارہ پبلک۔ یعنی نفع ہو تو یہ پرائیویٹ پراپرٹی بنتا ہے اور اگر خسارہ ہو جائے تو اسے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔

خاکسار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک عام سا آدمی بھی جانتا ہے کہ ٹیکسز کی جائز شکل وہ ہے جسے ہم انکم ٹیکس کہتے ہیں۔ یعنی نفع پر ٹیکس۔ سوال یہ ہے کہ کیا نفع کو انکم نہیں کہتے جس میں سے ٹیکس لیا جاتا ہے؟

مثال کے طور پر پاکستان میں انکم ٹیکس کی شرح اگر 35 فیصد ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کاروباری آدمی اگر سو روپے نفع کماتا ہے تو اس کے نفع میں سے ریاست 35 روپے کاٹ لیتی ہے اور اگر وہ نہ دے تو اسے جرائم میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے لئے سزا مقرر ہے۔ ریاست جو 35 روپے کاٹتی ہے وہی اس کے ریونیو کا ذریعہ ہے جو اس کے بقول وہ عوامی فلاح کے کاموں پر خرچ کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عوامی فلاح کے کاموں کی فنانسنگ (ٹیکس کی شکل میں ) پھر کون کر رہا ہے؟

یاد رہے کہ پاکستان میں انکم ٹیکس کی مد میں سب سے زیادہ ریوینو حکومت مینوفیکچرنگ سیکٹر سے وصول کرتی ہے، سروس سیکٹر کا بہت بڑا حصہ انفارمل اکانومی میں ہے جو ریکارڈ ہی نہیں ہوتا یوں ٹیکس نہیں ادا کرتا۔ اور زرعی شعبہ نہ صرف ٹیکس چھوٹ کے مزے لے رہا ہے بلکہ سبسڈی کی مد میں اربوں روپے وصول کرتا ہے۔

اس تحریر میں ایک چارٹ دیا گیا ہے جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ دار معاشروں میں حکومت کاروباری اداروں سے دو قسم کے ٹیکس لیتی ہے ایک انکم ٹیکس اور دوسرا Employee یعنی مزدوروں کی سوشل سیکورٹی کے لئے علیحدہ سے ٹیکس جو بعض ممالک میں کل چالیس فیصد کے اس پاس جا بنتا ہے یعنی سو روپے نفع سے حکومت چالیس روپے سے زائد ٹیکسز کی شکل میں عوامی فلاح و بہبود کے بہانے سے سرمایہ کاروں سے وصول کرتی ہے۔ پھر بھی یہ گلہ ہے کہ نفع نجی ہوتا ہے۔

رہ گئی بات پاکستان میں سیل ٹیکس کی تو فری مارکیٹ سرمایہ داری نظام کے حامیوں نے ہمیشہ اس قسم کے ٹیکسز کی مذمت کی ہے۔ ہمارا نعرہ ہے، One Tax, Fair Tax, and Tax from all (ایک ٹیکس، انصاف پر مبنی ٹیکس، اور سب سےٹیکس یعنی کوئی مستثنیٰ نہ ہو )۔ ٹیکس ہوتا ہی آمدن پر ہے۔

اب اگر معاشی بحرانوں کے دوران اس بیل آؤٹ پیکجز کی بات کریں جو حکومت فراہم کرتی ہے، تو اول بات یہ ہے کہ فری مارکیٹ کیپیٹلزم نے ہمیشہ ریاست کی معیشت میں مداخلت کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے جس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ریاست نہ کسی کارپوریٹ سیکٹر کو خصوصی مراعات دے کر ابھرنے میں مدد دے اور نہ کسی سیکٹر کو خصوصی مراعات دے کر ڈوبنے سے بچائے۔ بزنسز کو نفع بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ یہ کاروبار کی فطرت ہے۔ خسارے میں چلنے والے کاروبار کو بچانے کا مقصد یہ ہے کہ مقابلہ میں جو ناکام ہیں آپ انہیں مزید ناکامی کے مواقع دے رہے ہو۔ جوزف شمپٹر کے مطابق کیپیٹلزم کی اصل طاقت Creative Destruction میں ہے جسے اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے ”ناکامی کاروبار کے فطری عمل کا حصہ ہے۔ کمپنیاں بنتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں یوں کیپٹلزم آگے بڑھتا ہے۔ ”۔ جب ایک کاروبار نقصان میں جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وسائل کی صحیح تفویض میں ناکام رہا ہے اس لئے سوسائٹی کا فائدہ اسی میں ہے کہ وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور وسائل مارکیٹ کے نظام کے تحت اس بزنس یا کارجو کے پاس جائیں جو ان کا مفید استعمال ممکن بنا سکے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کو ریاستیں عام شہریوں کے روزگار کے تحفظ کے لئے ڈوبنے سے بچاتی ہیں۔ اور اس مداخلت کا جواز حکومتوں کو کینزیں معیشت کی ڈیمانڈ کو سپورٹ کرنے والی پالیسیوں (Demand side economics) کی بدولت ملا ہے۔ گزشتہ کالمز میں اس پر بات ہو چکی ہے کہ کینزین اکنامکس فری مارکیٹ کیپیٹلزم کی نمائیندگی نہیں کرتی۔

دلچسپ بات یہ کہ نوم چومسکی نے بھی یہ بات اسٹیٹ کیپیٹلزم کے بارے میں کہی کہ اس میں نفع نجی ہوتا ہے اور نقصان سوشل یعنی عوامی۔ اسٹیٹ کیپیٹلزم (ریاستی نظام سرمایہ داری ) سے مراد ایسا معاشی نظام ہے جس میں تمام معاشی سرگرمیاں بشمول پیداواری عمل اور اس کی ڈسٹری بیوشن ریاست خود کرتی ہے، اور سرمایہ (بشمول حق ملکیت) کا کنٹرول ریاست کے پاس ہوتا ہے۔ اب خود سوچ لیجیے کہ یہ اسٹیٹ کیپیٹلزم کہاں رائج ہے اور کہاں رائج رہا ہے۔ جبکہ فری انٹرپرائزز یا فری مارکیٹ کیپیٹلزم سے مراد یہ ہے کہ سرمایہ اور حق ملکیت نجی ہوتا ہے۔ پیداواری عمل، اس کی ڈسٹریبیوشن اور خرچ سب نجی بنیادوں پر منظم ہوتے ہیں ۔ اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہوتی ہے مگر قانون کی حکمرانی مظبوط ہوتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ نقصان میں چلنے والے بزنسز کے لئے بیل آوٹ ہوتا کس شکل میں ہے۔
اول، سستے قرضے جو بعد میں ان بزنسز کو سود کے ساتھ واپس کرنے ہوتے ہیں۔
دوم، گورنمنٹ ڈوبتے ہوئے کاروباری اداروں کے کچھ یا زیادہ مقدار میں shares خود خرید لیتی ہے (بعض اوقات یہ preferred stock ہوتے ہیں جن پر سالانہ سود حکومت وصول کرتی ہے اور آخر میں اپنی پوری رقم ) اور جب وہ کاروباری ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو مارکیٹ میں موجود قیمتوں پر حکومت سے وہ شیئرز واپس خرید لیتے ہیں۔
۔ ایک کمپنی اگر ڈوب رہی ہے تو اسے اس طرح ڈوبنے دیا جائے کہ وہ پورے سیکٹر کو متاثر نہ کرے۔

اس میں کونسی ایسی صورت ہے جس سے کہا جائے کہ خسارہ کی ادائیگی عوام کرتی ہے۔ بیل آؤٹ کی رقم بمعہ سود حکومت وصول کرتی ہے۔ اس طرز کی بیل آوٹ خود حکومتیں بھی خسارہ کی صورت میں آئی ایم ایف اور باقی ملٹی نیشنل فنانشل اداروں سے لیتی ہیں۔ عوامی دولت جسے ہم ٹیکس ریونیو کہتے ہیں اس پر اصل بوجھ تو سبسڈیز اور وہ حکومتی کمرشل ادارے ہوتے ہیں جو خسارہ پر چلتے ہیں اور ہر ماہ حکومت سے خسارہ کے مد میں رقم اینٹھتے ہیں مگر ان کی productivity نجی انتظام میں چلنے والے کمرشل اداروں سے کئی گنا کم ہوتی ہے۔ اس کے لئے پاکستان میں PIA اور دوسرے سفید ہاتھی کمرشل ادارے ایک بڑی مثال ہیں۔ مگر وسائل کے اس ضیاع پر کم ہی ہمدرد ایسے ہیں جو چلاتے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan