ظفر عمران اینٹی فیمینسٹ ہے!


ظفر عمران نے ’منکر بیوی‘ کے بارے میں جو نتیجہ نکالا ہے یا مرد برادری سے اس نتیجے کے مطالبے کو ماننے کو کہا ہے وہ کوئی نیا نتیجہ نہیں ہے۔ ایمسٹرڈیم کے چکلے سے متعلق بی بی سی چینل فور کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری، جو یوٹیوب پر دستیاب ہے، میں بلغاروی جسم فروش کے امریکی ملاح عاشق نے بھی یہی بات کہی تھی کہ بیوی اور رنڈی میں کیا فرق ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ رنڈی کو طے کرکے معاوضہ دیا جاتا ہے جبکہ بیوی کو طے کیے بنا، پھول، کپڑے لتے، نقد خرچ، گہنے پاتے اور دیگر تحائف دینے ہوتے ہیں، پھر کیا فرق ہوا۔

 ملاح عاشق کو تو کچھ نہیں بتایا جا سکتا تھا لیکن دوست بھائی ظفر عمران کو تو آگاہی دی جا سکتی ہے کہ فرق رتبے اور تعلق کا ہے۔ درست کہ رنڈی کو معاوضہ وصول کر لینے کے بعد جنسی عمل سے انکار کرنے کا بظاہر کوئی حق حاصل نہیں ہے اگرچہ موڈ انسانوں کا ہی تبدیل ہوا کرتا ہے، جانوروں کے موڈ کی تبدیلی تاحال سامنے نہیں لائی گئی، تو رنڈی جانور سے مختلف ’شے‘ ہے۔ بیوی’شے‘ نہیں ہے۔ رنڈی کو بھی ’شے‘ بنایا گیا ہے ویسے ہی جیسے ایک زمانے میں انسانوں کو غلام کر کے انہیں ’شے‘ بنا دیا جاتا تھا۔

 اتوار کو پاکستان سے چلا تھا، جمعہ کے روز عصر کی نماز پڑھنے گھر کے ساتھ والی مسجد میں جانے کے لیے دوسری گلی میں مڑا تو نوجوان کونسلر شیخ قاسم کی بھینسوں کا دودھ نکالنے والا ادھیڑ عمر ملازم آسمان کی جانب دیکھتا ہوا سامنے کی گلی کی طرف بھاگ رہا تھا۔ قاسم کے گھر سے ایک مرد تیزی سے نکلا تھا، اس نے باہر کھڑی بائیک سٹارٹ کی تھی۔ چھت پر کھڑے ہوئے دوسرے مرد نے آواز دے کر بتایا تھا،’ کمہاراں دی گلی ول گیا اے‘۔
دوسال پہلے ہمارے گھر میں ڈاکہ پڑنے کے ایک ماہ بعد شیخ قاسم کے گھر ڈاکہ پڑا تھا۔ میں سمجھا شاید کوئی واردات کرکے بھاگا ہے جس کا یہ لوگ تعاقب کر رہے ہیں۔ سکول کی وردی پہنے ایک لڑکا کھڑا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا،’ کیا ہوا ہے؟‘ اس نے بتایا، ’وہ جو مور تھا نا وہ اڑ گیا ہے‘۔ میری سوچ میں فوراً غلام آئے اور قیدی بھی اور زبردستی بنائی گئی طوائفیں بھی، کہ اگر یہ بھاگ جاتے تھے یا بھاگ جائیں تو ان کی تلاش میں بھی متعلقہ لوگ اسی طرح مستعد ہو جاتے تھے/ ہیں۔ پکڑے جانے والے غلاموں کو اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں، بھاگنے کی جرات کرنے والے قیدیوں کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا اور فرار ہو کر پکڑی جانے والی طوائفوں کو بھی ادھیڑ دیا جاتا ہے، مور کا کیا ہے اس کے تو بڑھے ہوئے پر ہی کاٹے جائیں گے۔ مور بھی ظاہر ہے پکڑ لیا گیا تھا۔

  طوائف کو جنسی عمل سے انکار کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، معاوضہ لے کر تو اس سے انکار کا تصور ہی نہیں ہے۔ انکار کو انکار محض جاننا تو کہیں بھی روا نہیں ہے۔ ہر طرح کے انکار کے بعد اقرار کرنے پر راغب کیے جانے پر سبھی مصر ہوتے ہیں، خاص طور پر دانشور سوچ تبدیل کرنے کا ٹھیکہ لیے ہوتے ہیں۔

 بیوی کو دی جانے والی اشیا’معاوضے‘ کی مد میں نہیں آتیں اس لیے اسے اس انسانی عمل سے انکار کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور تو اور کتوں اور دیگر جانوروں میں بھی اس عمل سے انکار کا اظہار بیشتر کی نگاہوں سے گزرا ہوگا۔ چنانچہ ظفر بھائی ہم تو آپ کی منطق یا مطالبے کو نہیں مانتے۔ اس لیے نہیں مانتے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ازدواج کا ادارہ معاشرے نے اور خاص طور پر مردوں نے اپنی ضرورتوں کی خاطر تشکیل دیا ہے لیکن یہ ادارہ چونکہ اپنی خاص حالت میں مستحکم ہو چکا ہے اس لیے ہمیں بیوی کو بیوی ہی ماننا ہوگا اور ’طوائف‘ کو اگر ماننا چاہیں گے تو طوائف مانیں گے یا پھر انسانوں جیسی انسان یا زیادہ سے زیادہ جنسی مزدور۔

 اب بات کرتے ہیں ظفر عمران کے متنازعہ مضمون کو اپ لوڈ کرنے کی۔ اگر میرے جیسے بہت سوں کو ایسے مضمون سے اختلاف ہونا تھا تو ظفر عمران کی اس سوچ کی شدید مخالفت کرنے والے گنی وجاہت مسعود نے یہ مضمون کیوں لگایا؟ ظفر عمران کو برہنہ کرنے کی خاطر یا اس لیے کہ دکھایا جائے ایسی سوچ کے حامل بہت سے اور ’مرد‘ بھی ہیں؟ شاید وجاہت وضاحت نہ کریں کیونکہ وہ آزادی اظہار کے بڑے پرچارک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).