23 مارچ کے تقاضے


ایک بار پھر پوری قوم یوم قرار داد پاکستان منانے کی تیاری کررہی ہے۔ یہ دن اس روز کی یاد میں منایا جاتا ہے جب آج سے 77 برس قبل لاہور میں مسلم لیگ کی قیادت میں ایک قرار داد منظور کی گئی جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی۔ اس سوال پر تاریخ دان مباحث کرتے رہیں گے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کے قیام کے لئے 23مارچ 1940 کو منظور کردہ قرار داد کے بعد جد و جہد کا آغاز ہوا یا اس مطالبے کی بنیاد یہ قرار داد منظور ہونے سے بہت پہلے رکھ دی گئی تھی۔ اسی طرح یہ سوال بھی زیر بحث رہے گا کہ کیا پاکستان ایک اسلامی ریاست بنانے کے لئے معرض وجود میں آیا تھا اور اس صورت میں بانیان پاکستان کے ذہن میں نئی ریاست کا کیا خاکہ موجود تھا۔ یا ان کا مقصد ایک ایسی علیحدہ ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان ، ہندو اکثریت کے خوف سے آزاد ہوکر اپنی دینی اور ثقافتی سرگرمیوں پر عمل کرسکتے۔ جیسا کہ ایک طبقہ یہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسی مملکت چاہتے تھے جہاں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ ہو سکے لیکن ریاست اپنی ساخت میں مذہبی نہ ہو۔ اس کے لئے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد اعظم کے پہلے خطاب کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے سب عقائد کے لئے مل جل کر رہنے اور امور مملکت میں یکساں شریک ہونے کی بات کی تھی۔

اس نظریہ کے برعکس اگر فی الوقت مقبولیت حاصل کرنے والے اس تصور کو بھی درست تسلیم کرلیا جائے کہ قائداعظم ایک ایسی اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں قرآن کو آئین کی حیثیت حاصل ہوگی اور مسلمان اپنے عقائد کی روشنی میں نظام مملکت چلا سکیں گے تو بھی یہ تصور کرنا محال ہو گا کہ ایسی ممکنہ ریاست میں جو بنیادی اسلامی اصولوں پر استوار ہو، اقلیتی عقائد اور گروہوں کو مساوی حقوق حاصل نہ ہوں یا انہیں اکثریت مسلسل اپنے جبر کا نشانہ بناتی رہے۔ اس رویہ سے تو پاکستان کے مسلمان اسی جابرانہ رویہ کا مظاہرہ کریں گے جس سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہندو اکثریت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

صاف ظاہر ہے کہ محمد علی جناح جو ظلم ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف برداشت نہیں کرسکتے تھے ، اپنے ہی لوگوں کو وہی ظلم اس ملک میں آباد مذہبی اور دوسری اقلیتوں پرروا رکھتے ہوئے دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے۔ تاہم یہ بحث اس لئے بے معنی ہوتی جا رہی ہے کہ ہم نے قائد اعظم کو عظمت اور پاکبازی کے سنگھاسن پر بٹھا کر ان کی عقیدت کا راستہ تو ہموار کرلیا ہے لیکن اس بات کو ضروری نہیں سمجھتے کہ انہوں نے جن اصولوں پر زندگی بسر کی اور جن بنیادوں پر وہ انسانوں کے مابین مراسم استوار کرنے کے حامی و موید تھے، ان پر غور کریں اور انہیں اپنانے کی کوشش کریں۔ یوں بھی پاکستان کو اسلامی شرعی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے نزدیک محمد علی جناح کی زندگی کے اطوار سے پہلے حضرت محمد ﷺ کی اسوہ حسنہ پیش نظر ہونی چاہئیں۔ رسول پاکؐنے جس طرح مدینہ منورہ میں ایک ایسی ریاست کی داغ بیل رکھی جہاں دوسرے عقائد کو اپنے رواج، دینی احکامات اور طریقہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیا اور انہیں بنیادی شہری حقوق فراہم کئے۔ ان کے لئے انصاف عام کیا اور عقیدہ کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل آزادی فراہم کی۔ اگر پاکستان کے لوگ ایک ایسے دور میں موجود ہیں اور بعض گمراہ کن عناصر کے بہکاوے میں اسلام کی ایسی تشریح اور توجیح پر عمل کرنے کے درپے ہیں جس کے تحت دوسروں کو جینے کا حق دینا بھی محال ہے ، تو اس کا الزام صرف تحریک پاکستان اور اس کے اکابرین کی بصیرت پر عائد نہیں ہو سکتا۔ اسے صرف مسلمانوں کی کم نظری اور بد نصیبی ہی کہا جائے گا جو اپنے ہی دین کے فراہم کردہ اصولوں کو اسی دین کا نام لیتے ہوئے فراموش کررہے ہیں۔ اسی ظلم اور شدت پسندی کے مظاہر نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے خواب کو گہنا دیا ہے بلکہ پاکستان کے لئے پھیپھڑوں میں ہوا بھر کر پوری قوت سے نعرہ لگاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے اور اسے ایک خوشحال، امن پسند اور ترقی کی راہ پر گامزن معاشرہ بنانے کے لئے ہمیں کون سے اطوار اپنانے اور کون سے طریقے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ بدنصیبی کی بات یہ بھی ہے کہ ہم نعرہ زن ہونے اور بلند بانگ دعوے کرنے میں تو شاید ہی کسی کو اپنے مقابل کھڑا ہونے دیں لیکن انہی دعوؤں پر عمل کرنے اور انہیں حقیقت کا خواب دینے کے لئے جس جذبہ اور ہمت و حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہم صرف دوسروں میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رہنما دودھ سے دھلے اور حضرت عمرؓ کے کردار کے حامل ہوں اور برسر عام بڑے سائز کی چادر پہننے پر عام سے بدو کے سوال کا جواب بھی اطمینان اور خوش اسلوبی سے دیں۔ لیکن ہم اپنے رہنماؤں کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ امور مملکت چلانے کے لئے جو فیصلے کریں ، ان پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ اس ملک کا ہر شخص قانون شکنی کو اس وقت تک جائز سمجھتا ہے جب تک وہ اس کے اپنے مفاد میں ہو لیکن جب وہ دوسرے کو کسی قاعدے قانون کے خلاف کام کرتے دیکھتا ہے تو اس کی قومی حمیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ حرف شکایت زبان پر لاتے دیر نہیں کرتا۔ اسی طرح ہر کس و ناکس کو ٹیکس نہ دینے کی شکایت صرف اس وقت تک ہو تی ہے جب تک اس کا سوال دوسروں سے کیا جائے، جب اپنی دولت یا آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے کی بات آتی ہے تو اسے چھپانے کے لئے ہزار بہانے جائز سمجھے جا سکتے ہیں۔ اس ملک کا ہر شخص اس سوال کا جواب اپنے ضمیر سے پوچھ سکتا ہے کہ ملک میں رشوت ستانی کا بازار کیوں گرم ہے ۔ کیوں کہ ہم اپنا معمولی کام نکلوانے کے لئے قطار میں کھڑا ہونا گوارا نہیں کرتے اور معمول کی دفتری کارروائی سے درگزر کرنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ لیکن کسی بھی محفل میں رشوت کی علت پر بات ہو یا اسلام اور پیغمبر اسلام کے پیغام پر گفتگو ہو تو ہم جان قربان کرنے کا دعویٰ کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ملک میں فرقہ واریت اور اسلام کے مسخ شدہ پیغام نے کچھ ایسی صورت پیدا کردی ہے کہ ہر صاحب ایمان ایک ہاتھ میں اپنے عقیدہ کا بینر اٹھائے ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں دوسرے کو کافر قرار دینے کا اعلان نامہ۔ ایسی صورت میں ایسے مسلمان کی تلاش محال ہو چکا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اس کے صاحب ایمان ہونے کے لئے کافی بھی سمجھ لیا جائے۔

پورا ملک ایک طویل مدت سے دہشت گردی کا سامنا کررہا ہے لیکن ابھی تک یہ قوم اس بات پر اتفاق کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیا ہے۔ جب ایمان کی تشریح اس قدر محدود ہوجائے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے اور اس کے پاک رسولؐ کو جان سے عزیز جاننے والوں کے عقیدہ کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جائے اور ان سے ان کے مسلمان ہونے کا وہ سرٹیفکیٹ مانگا جائے جو اس گروہ یا فرقہ کے زعما جاری کرتے ہیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو سکتا کہ یہ مسئلہ اس قدر گمبھیر اور مشکل کیوں ہو چکا ہے۔ جب ایمان اور کفر کی سند جاری کرنا ایک باقاعدہ کاروبار کی صورت اختیار کرلے تو قائد اعظم کے پاکستان میں وہ مسلمان کیسے تلاش کئے جا سکتے ہیں جن کے لئے علیحدہ ملک کی جد و جہد کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمت برس صرف کردیئے۔

کیا ایک ایسے روز جب پاکستان کے سارے باشندے 77 برس قبل منظور کی جانے والی قرار داد پاکستان کا دن منانے کے لئے پرجوش تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں اور جب مقررین خطابت کے زور پر یہ ثابت کرنے میں مگن ہوں کہ ہندوؤں کے مظالم اور استبداد سے نجات حاصل کرنا کیوں کر ضروری تھا تو ایسے لمحے میں سوچا جائے کہ وہ مسلمان کہاں گئے جن کے حقوق کی حفاظت کے لئے 23 مارچ 1940 کو لاہور میں ایک اجتماع منعقد ہؤا تھا ور لیڈروں نے وعدہ کیا تھا کہ اکثریت کو ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق سلب کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیا ایسا تو نہیں کہ نعرے لگانے اور ریلیاں نکالنے کے جوش میں ہم ان مسلمانوں کو کہیں کسی پچھلی منزل پر ہی چھوڑ آئے ہوں جن کے حقوق کی جد و جہد ہمارے آبا و اجداد نے کی تھی۔ یا اسلامی نظام نافذ کرنے کی لگن میں ہم اس پیغام کو فراموش کررہے ہوں جو ہمارے پیارے رسول ﷺ لے کر آئے تھے اور جس کو نافذ کرنے کے لئے انہوں نے ہر خطرہ مول لیا تھا۔ کیا بھائی چارے، ہمدردی، انصاف اور سماجی عدل کی ایسی کوئی جھلک ہمیں اپنی زندگیوں میں دکھائی دیتی ہے۔

ہماری اجتماعی کج فہمی یا شدت پسندی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اگر ایک اہم اقلیت ہندوؤں کی کسی تقریب میں جا کر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ ملک کا قانون سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے ، وہ بطور سربراہ حکومت سب کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انہیں انصاف دلانے کے ذمہ دار ہیں تو ہم بر سر عام ان کی نیت، حب الوطنی اور حتیٰ کہ ایمان پر شک کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ کیا اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی مملکت ایسی ہی ہوگی جہاں ملک کا سربراہ اقلیتوں سے کہے گا کہ تمہیں حق کی بات کرنا ہے تو مسلمانوں کی غلامی قبول کرو۔ تب ہی ہم تمہیں انسان کا درجہ دینے پر غور کریں گے۔

کوئی اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ ہم اس منزل کو بھول چکے ہیں جو قیام پاکستان کا موجب بنی تھی لیکن کون ہے جو اس منزل کو پانے کی سعی میں پوری دیانتداری سے شریک ہونے کی خواہش رکھتا ہو۔ آج کا دن پاکستان کے شہریوں سے یہی تقاضہ کرتا ہے کہ سب کے لئے خوشحال اور ماں جیسی ریاست کے قیام کی جس خواہش کا بیج لگ بھگ ایک صدی پہلے بویا گیا تھا، آج اس ملک میں رہنے والا ہر شخص یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ اس حوالے سے کیا کردار ادا کررہا ہے۔ کیا پاکستان کو سب کے لئے محفوظ ، پر امن اور باعث فخر و اطمینان بنانے کے لئے ہم انفرادی طور پر کوئی کردار ادا کر پائے ہیں یا ہم صرف دوسروں سے غیر واضح خوابوں کی تکمیل کا مطالبہ کرنے میں ہی صلاحیتیں صرف کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ اگر یہ دن ہمارے دلوں میں ذمہ داری اور ایک دوسرے کے لئے بھائی چارے کا احساس پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو جان لیجئے کہ منزل ابھی دور ہے اور شاید ہم اس راستے سے بھی بھٹک چکے ہیں جو ہمارے آسودہ خاک ہونے والے رہنماؤں نے متعین کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali