پنجاب یونیورسٹی میں غیر جمعیتی طلبا حفاظت کے بدلے جزیہ ادا کریں


مجھے یقین ہے کہ ایک دفعہ پھر لنڈے کے لبرل قلم کی لٹھ لے کر کھڑے ہو جائیں گے اور اسلامی جمعیت طلبا کے خلاف زہر اگلیں گے۔ آخر جمعیت بے چاری نے کیا ہی کیا ہے کہ سارے کافر اور غدار قسم کے لوگ ایک ایسی تنظیم کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو طالب علموں کو سیدھی راہ دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سیدھی راہ دکھانا اسلامی جمعیت طلبا کا کام ہے اور وہ یہ کام کمال خلوص اور فراخ دلی سے کرتے ہیں۔ اس کام میں چاہے دوسرے (راہ راست پر لائے جانے والے) کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے لیکن وہ اپنے اس کام میں کوتاہی نہیں کرتے۔

اب اس حالیہ واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کلچر کے نام پر طالب علم بلوچی یا پشتو گانے گانا شروع کر دیں اور انہیں اس بات سے روکا بھی نہ جائے تو یہ آپ کا اپنا قصور ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام سے مراد کچھ اور نہیں بلکہ وہ اسلام ہے جو اسلامی جمعیت طلبا ہر وقت ہمیں بتانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے تحت بلوچی۔ پشتو یا پنجابی گانے گانا نہ صرف گناہ ہے بلکہ جرم بھی ہے۔ اور اگر پنجاب یونیورسٹی میں کوئی یہ گانے گانا شروع کر دے تو اسے اس گناہ اور جرم کی سزا وہیں دے دی جاتی ہے۔ جمعیت کا بہت شکریہ کہ اس دفعہ انہوں نے کلاشنکوف کا استعمال نہیں کیا ورنہ ایسے موقعوں پر اکثر کلاشنکوف کا پاکیزہ استعمال ضرور کرتے ہیں۔

میں ان طالب علموں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جنہوں نے یونیورسٹی کے اندر کلچرل شو کے نام پر علاقائی گانے گا کر فحاشی مچائی ہے۔ جمعیت کے نوجوانوں کی دل آزاری کی ہے اور انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اس کلچرل شو پر حملہ آور ہوں اور وہاں پر موجود لوگوں کو سبق سکھائیں جو گانے سن کر تالیاں بجا رہے تھے اور اس بے حیائی پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ جمعیت کے نوجوانوں نے اس کلچرل شو میں حصہ لینے والوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ گانوں پر خوش ہو کر تالیاں بجانے والے لوگ جنہیں ایک آدھ ڈنڈا پڑ گیا ہے یا انہوں نے کسی اور کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈنڈا پڑتے دیکھ لیا ہے تو وہ آئندہ تو اس گناہ کبیرہ میں شریک ہونے سے پہلے ایک سے زیادہ مرتبہ سوچیں گے۔ اس لئے وہ نوجون یقینا جمعیت کے اس احسان کو شاید ہی کبھی بھلا سکیں۔ جمعیت نے انہیں گانا سننے کے گناہ سے بچا لیا ہے۔

سب لوگوں کو کتنی دفعہ بتایا جا چکا ہے کہ پنجاب یونیوسٹی لاہور سنجیدہ کاموں کے لئے بنی ہے۔ اس لئے یہ یونیورسٹی صرف ان لوگوں کے لئے مناسب جو سنجیدہ کام سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ وہ سنجیدہ کام کیا ہیں تو ان کی لسٹ کچھ زیادہ لمبی نہیں ہے۔

آپ یونیورسٹی آتے ہیں اسلامی جمعیت طلبا جائن کر لیں، آدھا کام تو سمجھیں ہو گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں آپ کی زندگی نہ صرف آسان بلکہ شاندار ہو جائے گی۔ آپ کا ٹہکا اور رعب ہو گا۔ آپ کے کلاس فیلوز یا یونیورسٹی کے معمولی ملازمین تو کیا اساتذہ بھی آپ سے ڈریں گے اور جب آپ صبح شام پوری مہارت کے ساتھ یونیورسٹی کے انتظامی معاملات نمٹانے کے تجربے کے ساتھ جمعیت کے اندر ذمہ دار عہدے پر براجمان ہو جائیں گے یعنی ناظم شعبہ وغیرہ بن جائیں گے تو آپ کے شعبے کے ہیڈ بھی اہم فیصلے آپ کے پوچھے بغیر نہیں کر پائیں گے۔ آپ کی لائف اتنی بابرکت ہو گی کہ یونیورسٹی چھوڑنے کو آپ کا دل ہی نہیں کرے گا۔ اگر یقین نہیں آتا تو آپ اس بات کا پتا لگا لیں کہ حافظ سلمان بٹ آخر کار یونیورسٹی سے جب نکلے تو ان کی عمر کیا تھی۔ حافظ صاحب اور ان جیسے کئی اور لیڈرز دہائیوں تک یونیورسٹی کی خدمت بحیثیت طالب علم کرتے رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے لوگ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ پڑھائی کا ان کے پاس ٹائم ہی نہیں بچتا۔ لہٰذہ امتحان پاس کرنے کے لئے انہیں کافی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کو چونکہ جمعیت کی خدمات اور قربانیوں کا اندازہ ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ پھر امتحانات میں جمعیت کے لیڈروں کی مدد کرتے ہیں اور ثواب کماتے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ تو جمعیت نے اپنے ہی لگوا رکھے ہیں تاکہ یونیورسٹی کا اسلامی تشخص برقرار رہے اور لوگوں کی بخشش بھی ہو سکے۔ ظاہر ہے کسی بین الاقوامی رسالے میں چھپا ہوا کوئی تحقیقی مقالہ آپ کے لئے ثواب کا باعث تھوڑا ہی بنے گا۔ یہ مقصد تو صرف جہاد سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے کارکنوں کو نئے نئے اسلحے کے ڈھیر نہ صرف دیکھنے کو ملتے تھے بلکہ انہیں چلانے کا شوق بھی آپ پورا کر سکتے تھے۔ جنرل ضیاالحق کے دور کی وہ عیاشی تو اب نہیں رہی لیکن اب بھی اسلحہ چلانا سیکھنے کی سہولت میسر ہے۔ جہاد کا مزا تو ماڈرن اسلحے سے ہی آتا ہے نا۔

جمعیت جائن کرنے کے بعد ایک اہم کام جمعیت کے درس اٹینڈ کرنا ہے۔ یہ درس اٹینڈ کرنے سے ایک تو آپ کو ثواب ملتا ہے اور دوسرا اس بات پر ایمان پختہ ہوتا ہے کہ جمعیت کی مخالفت دراصل اسلام کی مخالفت ہے۔ اور اسلام کے مخالفوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا عین ثواب ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی ایک ذمہ داری طالب علموں کی حفاظت ہے اور جمعیت اس کام کو بخوبی نبھاتی ہے۔ تمام سٹوڈنٹس اس وقت تک محفوظ ہوتے ہیں جب تک جمعیت انہیں کوئی نقصاں نہ پہنچائے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو طالب علم محفوظ ہیں وہ صرف جمعیت کی وجہ سے ہیں۔ اساتذہ اور یونیورسٹی ملازمین کو بھی حفاظت کی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

یونیورسٹی میں سب لوگوں کی حفاظت کے سلسلے میں جمعیت کے شاندار ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں جو طالب علم جمعیت جائن نہیں کرتے وہ غیر جمعیتی اقلیت کہلائے جائیں اور انہیں اپنی حفاظت کے بدلے میں جمعیت کو باقاعدہ جزیہ ادا کرنا چاہیے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik