گستاخ اور غدار کی فکر میں بچپن کو مسلتے جاﺅ


اگر ایک اوباش آدمی اپنے ماضی سے پیچھا چھڑانا چاہے تو کہا جاتا ہے ’یار قسم سے، وہ تو بالکل بدل گیا‘ اور وہی قدم جب ایک اوباش عورت اٹھائے تو جملہ کچھ یوں ہوتا ہے۔’وہ؟ ارے وہ کبھی نہیں بدلے گی۔ آپ لکھ لیں میری بات‘۔ یہ ہے ہمارا دہرا رویہ۔ اور اس رویے کی لپیٹ میں صرف ہمارے اطراف کے لوگ ہی نہیں بلکہ اطراف کے مذاہب بھی آتے ہیں۔ ابھی ایک گستاخ وغیرہ کا شور و غلغلہ سا اٹھا کچھ مہینوں سے، پھر یہ گستاخ، وہ گستاخ، تو گستاخ کا گندہ کھیل شروع ہو گیا۔ اداروں نے اپیل کی کہ ہمارا کام عوام کرے یعنی جن پیجز پہ گستاخی ہو رہی ہے وہ ہمیں بتائیں۔ اب عرض اتنی ہے کہ جہاں جہاں اسلام کا مذاق اڑانے کی ناپاک جسارت ہو رہی ہے وہ تو ہم ضرور بتائیں گے۔ مگر کیا یہی جوش اور ’اپنی اخلاقی ذمے داری‘ ہم اس وقت دکھائیں گے جب ہم عیسائی، ہندو، یہودیوں کا مذاق اڑاتے پیجز دیکھیں گے؟ جواب ہے بالکل بھی نہیں۔ دوسرے مذاہب تو دور جب ایک سنی ایسا پیج دیکھے گا جہاں شیعہ کا مذاق اڑے وہ اسے درست کہے گا بلکہ کچھ نہ کچھ وہاں سے شیئر بھی کرے گا۔ یہی حال ہر شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اہل سنت، حنفی، شافعی، وغیرہ وغیرہ سب کا ایک دوسرے کے خلاف ہو گا۔ جو میرے خلاف وہ غلط، جو اس کے خلاف وہ درست اور لائق تحسین۔

گزشتہ دنوں انتہائی قابل احترام مفتی تقی عثمانی کی ایک ویڈیو مقبول ہوئی جس میں انہوں نے کسی طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا جو قتل کیا اس عمل کی حمایت و تائید نہیں کی جا سکتی کیونکہ ثابت نہیں ہوتا کہ سلمان تاثیر نے گستاخی کی تھی یا نہیں اور بغیر تصدیق کے کسی کو بھی شک کی بنیاد پر قتل کرنا ہرگز قابل قبول نہیں۔ یہی بیان اگر اس واقعہ کے فوراً بعد تمام مکاتب فکر کے علما ایک جگہ پر بیٹھ کر جاری کر دیتے تو جو جنونیت آج اس معاشرے میں جڑ پکڑ گئی ہے اس سے بچا جا سکتا تھا مگر بہت دیر ہوگئی۔ میری ذاتی رائے میں کل بھی اور آج بھی ممتاز قادری اور صولت مرزا اصل مجرم نہیں۔ وہ تو صرف پیادے ہیں جن سے کام نکلوا کر پھینکا گیا۔ اصل مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے کچے ذہنوں میں نفرت کو بویا۔ صرف اپنے مکتبہ فکر یا جماعت کو ایک قدم آگے لے جانے، ریٹنگ کی دوڑ میں فتح کی تمنا اور مخالفین کو نیچا دکھانے کی خواہش میں سب نفرت اور جھوٹ کی شاہراہ پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ جن کا کام علم کی ترویج تھا وہ جنونیت کو عام کرتے گئے، جن کا کام سچ کی تشہیر تھا وہ شر کو خبر بناتے گئے اور جن کا کام تصدیق اور تحقیق تھا وہ آنکھوں اور دماغ پر قفل لگا کر تماشا میں اپنا حصہ ڈالتے گئے۔ جو خاموش رہا وہ بھی شریک جرم رہا۔

اور اب کچھ ذکر قصور کا۔ ایک ایسا علاقہ جہاں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جنسی سکینڈل سامنے آیا۔ شور مچا، ریٹنگ کی دوڑ لگی، کسی نے نوٹس لیا تو کسی نے نوٹ لیے مگر مسئلہ پاکستان کا یہ ہے کہ نیوز ’بریک‘ ہوتی ہے ’فالو‘ نہیں۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ خبردینے والے کو خبر بنانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور وہ بھی کچھ اس عبرتناک انداز میں کہ یقین ہو جائے کہ گروہ صرف طاقتور ہی نہیں بلکہ با اثر بھی ہے۔ اور وہ متاثرین جن کا کوئی قصور بھی نہ تھا وہ علاقہ چھوڑنے پہ مجبور ہیں۔ اس لیے کہ وہ ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں شرم اور معاشرتی دباﺅ متاثرین کیلئے مختص ہیں جبکہ جرم اور اس جرم پہ فخر بااثر ہونے کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں۔ لاہور میں بھی بچوں کے اغوا کا شور اٹھا تھا۔ کیا وہ سب بچے بحفاظت بازیاب ہو گئے؟ ایک بچی ملی تھی کراچی میں جسے درندوں نے زیادتی کے بعد گلا اور ہاتھ کی نسیں کاٹ کر موت کا انتظار کرنے چھوڑ دیا تھا مگر وہ بچ گئی۔ کیا وہ بچی واقعی بچ گئی؟ کیا اس کے مستقبل کی دنیا محفوظ ہو گئی؟ ایک بچی لاہور میں ہسپتال کے باہر سے کٹی پھٹی سی ملی تھی سنبل نام کی۔ آج وہ کس حال میں ہو گی؟ ایک بچہ تھا جسے مدرسہ میں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا معین نام تھا شاید۔ اس کی لاش برہنہ ملی تھی۔ اس کے والدین کو انصاف مل گیا؟ اس کے قاتل کو سزا مل چکی؟

آپ مختاراں مائی، ملالہ یوسفزئی، شرمین عبید وغیرہ وغیرہ کو گالیاں دیتے ہیں کہ وہ آپ کے ملک کا نام بدنام کرتی ہیں۔ ملک کے نام پر کتنے چاند چمکتے ہوں گے جب یہ پتا چلتا ہو گا کہ ایک آئی ٹی جینئس بچی مرگی کے مرض میں مبتلا ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے مر گئی اور ہم اسے بچا نہ سکے۔ بچاتے بھی کیسے؟ ہم نے ایٹم بم بنائے ہیں۔ صحت کے مراکز نہیں۔ ہم صرف ہیش ٹیگ چلا کر اپنی ذمہ داری پوری کر لیتے ہیں پھر ہمیں کس بات کی پرواہ۔ جہاں منبر سے شر پھیلتا ہے، استاد سے طالب علم محفوظ نہیں، جہاں جان سے بڑا ایک وی آئی پی پروٹوکول ہے اور جہاں نفرت پھیلانا حب الوطنی اور ایمان کا تقاضا بتایا جاتا ہے وہاں بچے محفوظ ہوں گے؟ بچپن محفوظ ہو گا؟ نظمیں پڑھی جائیں گی، تہوار منائے جائیں گے؟

جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف وہاں لڑی جاتی ہے جہاں تیل ہو اور امت کا بچاﺅ روہنگیا یا کانگو میں نہیں کیا جاتا ویسے ہی بچوں کے استحصال کی خبر کو بھی اس لئے اہمیت حاصل نہیں کہ قصور کیس کی شنوائی میں صرف کچھ غریب ’ریلو کٹے‘ والدین جاتے ہیں۔ کوئی حسین سیاستدان یا کوئی وفاقی وزیر نہیں۔ پانامہ کیس نے قوم کی قسمت بدلنی ہے۔ بچے تو تا قیامت ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).