سی پیک اور ملحقہ معاملات


سابق امریکی صدر رچرڈنکسن نے بین الاقوامی رہنمائوں سے تعلقات کی یادداشت کے طور پر ”Leaders“ نامی کتاب تحریر کی اس میں نکسن نے فرانس کے عظیم رہنما صدر ڈیگال کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا ’’ان میں تقدیر پہچاننے کا احساس موجود تھا‘‘ قیادت اسی کی نام ہے۔ سی پیک کی جانب دنیا کی مخالفت کے باوجود قدم بڑھا نا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان میں جوہری تبدیلی لانے کے لئے کسی مخالفت کی پرواکیے بغیر اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے موجودہ حکومت سرگرم عمل ہے۔

سی پیک کے افتتاح کے بعد سے عوام میں چین کے حوالے سے خوشگوار جذبات مزید تقویت پا گئے لیکن ان جذبات کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی زور پکڑتا جارہا ہے کہ شاید یہ کوئی بلاک تشکیل پا رہا ہے جو بھارت کے خلاف نبردآزما ہو گا اور اگر پاکستان اور بھارت کسی تصادم کی جانب بڑھے تو اس صورت میں چین بھی اس میں شریک ہو جائے گا۔ ایسے تصورات ماضی میں بھی موجود تھے اور امریکہ سے معاہدوں کے وقت پاکستان میں اسی فکر کو فروغ دیا گیا۔ لہٰذا اس حوالے سے اُمیدیں عوام میں پروان چڑھتی چلی گئیں مگر جب امریکہ کی مدد ہمارے تصورات کے مطابق ہم تک نہیں پہنچی تو تمام ذمہ داری امریکہ پر عائد کر دی گئی۔ حالانکہ اپنے دفاع اور معاشی سلامتی کو محفوظ بنانا ہماری اپنی ذمہ داری تھی اور ہے۔

چین سے دوستی کے باوجود بھی یہ ذمہ داری ہمیں تنہا ہی نبھانی ہے اور نبھانے کی سوچ عوام میں پروان چڑھانی ہے ورنہ توقعات کا بہت بڑھنا دوستی میں مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ آج سے کچھ عرصے قبل سی پیک کے حوالے سے ایک مذاکرہ منعقد ہوا جس میںتمام شرکاگفتگو کی اجتماعی رائے تھی کہ سی پیک کی جوہری پروگرام کی طرح دیکھ بھال کرنا چاہیے۔ خیال رہےکہ ہماری جوہری صلاحیت کسی کے خلاف نہیں ہے۔ ہم کسی کو زیر کرنے کی خواہش کے تحت اس پروگرام سے وابستہ نہیں ہیں۔ بعینہ سی پیک کے حوالے سے بھی ہمیں دنیا کو یقین دلانا چاہیے کہ اس پر عملدرآمد سے ہمارے یہ مقاصد نہیں ہیں کہ ہم کو ئی برتری قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ خالصتاً اقتصادی معاملات کی بہتری کی غرض سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے پھر چینی دوستوں کی اس سوچ کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ سی پیک پر کام کی رفتار مناسب ہونی چاہیے۔ گوادر سی پیک کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے مگر ابھی تک پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔

حالانکہ اس کے مقابلے میں چین کا شہر شنجن جو مچھیروں کی ایک بستی ہوا کرتا تھا مگر آج بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان سے زیادہ GDP کمارہا ہے۔ گوادر کے لئے بھی اسی نوعیت کی منصوبہ بندی کی فی الفور ضرورت ہے۔ مگر یہاں تو مسائل در مسائل ہیں۔ مثلاً آزاد کشمیر میں چینی کچھ منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں متعلقہ محکمے سے ضروری دستاویزات مکمل کروائیں مگر جب آزاد کشمیر گئے تو انہوں نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ ہم پاکستان کے اس ادارےکو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی مختلف مسائل موجود ہیں اگر ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل موجود رہے تو یہ بڑے مسائل کی بنیاد بنیں گے۔ اگر کہیں اس حوالے سے نظام میں جھول موجود ہے تو اس جھول کو فی الفور ختم کرنا چاہیے ورنہ مسائل گمبھیرہوتے چلے جائینگے حالانکہ پاکستان میں مسائل میں کمی آرہی ہے، سیکورٹی کی صورتحال اس حد تک بہتر ہو گئی ہے کہ عشرے سے بھی زیادہ عرصے بعد پاکستان کے اردگرد کے امریکی سفراء کی کانفرنس کا انعقاد امریکہ نے اسلام آباد میں کیا، یہ سلامتی کے معاملات کی بہتری کی جانب اشارہ ہے اور اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ امریکہ پاکستان کی اہمیت بڑھتا ہوا خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ مگر بہرحال بھارت کے حوالے سے ہمیں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جب سے سی پیک کا معاملہ شروع ہوا ہے اس وقت سے بھارت مختلف حوالوں سے اس کو منزل سے دور کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ کمی پاکستانی تصورات میں بھی ہے جب ہم ہر چیز کو بھارت کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو لامحالہ بھارت کو یہ موقع دستیاب ہوجاتا ہے کہ وہ ان معاملات میں ٹانگ اڑانا شروع کر دے۔

پاکستان کے حوالے سے بھارت نے جو مخالفانہ رویہ سارک میں اختیار کیا اس کا توڑ سارک کی سطح پر ہی کرنا چاہیے کیونکہ ہر تنظیم کی اپنی ایک حیثیت ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں جب حال ہی میں ECOکی کانفرنس ہوئی تو ’’ دانشوروں‘‘ کے ایک موثرطبقے نے اس کو سارک کا نعم البدل قرار دیا حالانکہ ہر تنظیم کی اپنی حیثیت اور ضرورت ہوتی ہے، اس کے رکن ممالک کے اپنے اہداف ہوتے ہیں، سارک ممالک کے سارک کے پلیٹ فارم پر اقدامات کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے اور ECOمیں شامل ممالک کے اقدامات کا تعین ان کے مقاصد کے تحت ہونی چاہیے لیکن اہداف کے تعین کے معاملے میں وطن عزیز میںمعاملات سطحی سے محسوس ہوتے ہیں۔ جب روس سے معاملات بہتر ہونا شروع ہوئے توقیادت نے روس کے دورےکیے جس سے نتیجہ یہ اخذکر لیا گیا کہ اب روس، چین، پاکستان بلاک قائم ہو جائے گا اور ڈھاک کے وہی تین پات کے بھارت کے خلاف ہو گا۔ حالانکہ روس سے تو ابھی معاملہ بالکل ہی ہنوز دلی دور است والا ہے۔ اصل معاملہ چاہے سی پیک ہو، چین ہو بھارت یاروس حالات کی نبض دیکھ کر فیصلہ کرنے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).