میری پتنگ کے رنگ اور تیرے بارود کی بدبو ….


\"naseem29سالہ زنیرہ اسحاق 2008ءمیں شادی کرکے اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئی جہاں اسے مستقل رہائش کے لیے کینیڈین شہریت درکار تھی۔ ضروری قانونی لوازمات پورے ہونے کے بعد جلد ہی اسے وہاں کی شہریت کی پیشکش ہو گئی۔لیکن پراسس کے آخری مرحلہ میں ایک اہم مسئلہ درپیش آگیا۔ کینیڈا کی شہریت کے حصول کے لیے ایک سرکاری عمارت میں منعقد ہونے والی تقریب میں زنیرہ کو حلف اٹھانا تھا جس کے لیے چہرہ کھلا چھوڑنا ضروری تھا جبکہ زنیرہ چہرے کا پردہ کرتی تھی۔ زنیرہ کو اپنے حقوق کی فکر لاحق ہوئی اور اسں نے فورا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کینیڈئن سٹیزن شپ کے قانون کو قانونی طور پر چیلنج کر دیا۔ تقریبا ڈیڑھ سال کے اندر اسں نے کیس جیت لیا اور عدالت نے سرکار کو حکم جاری کیا کہ دوران تقریب زنیرہ سے چہرہ ننگا کرنے ک مطالبہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ فرد کی آزادی کو مجروح کرتا ہے اوراس کے حق خود ارادیت کے خلاف ہے۔ کینیڈین شہریت حاصل کرنے کے بعد زنیرہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ بہت خوش ہے اور کینیڈین جوڈیشئل سسٹم سے بہت متاثر ہوئی ہے۔

یہاں دو باتیں دلچپسی سے خالی نہیں۔ زنیرہ جب حلف لے رہی تھی تو اس کے ہاتھ ،آنکھیں، آدھی ناک اور چہرے کے دو تل ننگے تھے محض ماتھا اور ہونٹ چھپے ہوئے تھے اور جس سرکاری آفیسر کے سامنے وہ حلف لے رہی تھی وہ بھی ایک خاتون تھی۔ جس دوران زنیرہ عدالت میں اپنے حق کی جنگ لڑ رہی تھی کنیڈین میڈیااور سول سوسائٹی اس کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ پاکستان میں جب اس سٹوری کو بریک کیا گیا تو دعوی ٰ کیا گیا کہ زنیرہ اس لیے کیس جیت گئی کیونکہ وہ حق پہ تھی۔ زنیرہ کی دیار غیر میں اسلامی شعار کے لیے کی گئی اس کوشش اور کاوش کو داد دی گئی۔بلاشبہ زنیرہ حق پہ تھی کیونکہ عوام کے پہناوے کا فیصلہ کرنا ریاست کی صوابدیدی نہیں لیکن اگر کینیڈا کے سیکولر آئین اور لبرل فلاسفی کا مطالعہ کیا جائے تو مجبورا یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑے گا کہ محترمہ اس لیے جیت گئیں کیوںکہ دراصل یہ کینیڈین عدالت تھی جو حق پہ تھی۔

اس کو سمجھنے کے لیے ایک وقوعہ فرض کرتے ہیں۔

انتیس سالہ کیرولین سمتھ شادی کے بعد روزگار کے سلسلے میں پاکستان میں مقیم اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان منتقل ہو چکی ہے اور اب پاکستانی شہریت کی طلبگار ہے۔ لیکن مقامی قانون کے مطابق حلف کی تقریب میں انہیں منی سکرٹ کی بجائے برقعہ پہننا لازم ہے۔ دوسری صورت میں وہ اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکتی اور نا ہی پاکستانی شہریت حاصل کر سکتی ہے۔ کیرولین کا خیال ہے کہ پاکستانی قانون کی یہ شق اسکی شخصی آزادی سلب کرنے کا باعث بن رہی ہے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہذا وہ پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرتی ہے لیکن دو سال کی خواری کے بعد عدالت یہ کہہ کر کیرولین کی درخواست خارج کر دیتی ہے کہ کیرولین کا مطالبہ درست نہیں کیونکہ وہ ایک اسلامی سرزمین پر کھڑی ہے اور اسلامی ریاست میں اسلام مخالف قوانین پاس نہیں کیے جاتے۔ اگر وہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی خواہش مند ہے تو اسے برقعہ پہننا ہو گا۔

ایک لبرل ریاستی بیانیے اور ایک مذہبی ریاستی بیانیے میں بنیادی فرق یہی ہے کہ لبرل بیانہ من و عن فرد کے گرد گھومتا ہے۔ وہ فرد کے تمام حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے اس چیز سے فرق نہیں پڑتا کہ فرد کون ہے اور اس کا تعلق کس مذہب یا فکر سے ہے۔ وہ فرد کے متعلق کوئی بھی رائے دیتے وقت یا فیصلہ لیتے وقت صرف یہ مدنظر رکھتا ہے آیا اس سے فرد کی شخصی آزادی اور اس کے حقوق تو مجروح نہیں ہوتے؟ جبکہ مذہبی بیانیہ فرد کی بجائے نادیدہ قوتوں کی خوشنودی کا بہانہ لے کر ایک مخصوص مکتبہ فکر اور اقلیتی گروہ کی مرضی ریاست کے تمام افراد پر لاگو کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ کیونکہ یہ تو کسی طور ممکن نہیں کہ ریاست کے تمام افراد ایک جیسی فکر کے حامل ہوں۔ یا تمام افراد ایک ہی مکتبہ فکر کی پیروی کرتے ہوں۔ کم از کم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہر مکتبہ فکر کا الگ الگ کوڈ آف لائف ہے۔ ایک مکتبہ فکر کی آئیڈیولوجی لاگو کرنے کا مطب ہے دوسرے مکاتب فکر کی آئیڈیولوجی کو فاسق قرار دینا اور یہاں ابھی یہ فیصلہ ہونا بھی باقی ہے کہ کونسا مکتبہ بہتر اور حق کے قریب تر ہے۔ یوں یہ استدلال قائم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ہر شخص لباس، خوراک اور طرز زندگی کے حوالے سے جداگانہ نظریات کا حامل ہے جس کو اپنانے یا رد کرنے کا اختیار ریاست کی بجائے فرد کے پاس ہونا ضروری ہے۔

سر دست بتاتی چلوں کہ فیصل آباد میں پتنگ بازی کے جرم میں پچھتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ ایک شہر کے اعداد و شمار ہیں۔ دوسرے شہروں میں بسنت مخالف پولیس کی کارروائیوں کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی بسنت منانے کے لیے ترس رہی ہے۔ لیکن اسے عوام کے لیے حرام بنا دیا گیا ہے۔ گو کہ کیمیکل ڈور کا استعمال بسنت پر پابندی لگانے کی وجہ بتائی گئی ہے لیکن سب جانتے ہیں کیمیکل ڈور ایک بہانہ تھا۔ بسنت پر پابندی کسی اور کی ایما پر لگائی گئی ہے۔ ریاست کے شہریوں کی اکثریت کی خواہشات اور شخصی آزادی کس طرح چند لوگوں کی ذاتی ترجیحات ، پسندناپسند، اجارہ داری اور تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ رہی ہے…. میں پوچھتی ہوں….

کیا میری پتنگ کے رنگ تیرے بارود کی بدبو سے زیادہ زہریلے ہیں؟

نسیم کوثر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نسیم کوثر

نسیم کوثر سائنس کی استاد ہیں۔ وہ زیادہ تر سماجی و سائنسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ انہیں شاعری، موسیقی اور فکشن سے لگاؤ ہے۔ موصوفہ کو گھڑ سواری اور نشانے بازی کا بھی شوق ہے۔

naseem has 9 posts and counting.See all posts by naseem

Subscribe
Notify of
guest
18 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments