گورنمنٹ کالج میں رقص کرنے والوں پر حملہ کیوں نہیں ہوتا


میں نہیں جانتا اس بات میں کتنا سچ ہے لیکن یہ گورنمنٹ کالج کے مشہور واقعات میں سے ایک ہے کہ جس دن بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی اس دن سوائے گورنمنٹ کالج کے پورا لاہور بند تھا۔ اس سے یہ اندازہ نہیں لگانا چاہیے کہ یہ انگریزوں کے زیر انتظام جو تھا اس لئے! ایسے تو پنجاب یونیورسٹی بھی تھی۔

چند ماہ قبل نواز شریف نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبعیات کو عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا۔ ایسا کہنے سے مخصوص حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔ جب کہ یہ صریحاً علمی اخلاقیات پر مبنی تھا۔ لیکن اس سے بھی دلچسپ یہ ہے کہ اسی گورنمنٹ کالج کے اندر سالہا سال سے ”سلام ہال“ واقع ہے جو قابل فخر راوین ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب ہے، بخاری آڈیٹوریم، ن م راشد اور فیض ہال کی طرح اور آج تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ کسی قسم کے ہنگامہ یا شورش کا پیش خیمہ محسوس ہو۔ کم از کم پچھلی ایک دہائی سے نہیں۔
طلبا تنظیم کا قیام طلباء کے حقوق کی خاطر عمل میں لایا گیا۔ ہر تنظیم کسی سیاسی جماعت کے افکار و نظریات پر بنائی گئی۔ جن کے مقاصد میں ان طلباء کی فکری پرورش بھی شامل تھی جنہوں نے آنے والے دنوں میں بیوروکریسی یا دیگر شعبوں میں اس کے لئے نرم گوشہ رکھنا تھا۔ اور انہی سیاسی جماعتوں کی یہی تنظیمیں آگے نرسری کے بچوں تک اپنے افکار کی تبلیغ کرنے لگیں۔ جب آپ سیکھنے کے دنوں میں ہی کسی نظریہ کی چھاپ تھوپ دیں تو اس بچے کی فکری نشوونما کس قدر متشددانہ ہو سکتی ہے۔

جن دنوں یہی تنظیمیں خواہ وہ این ایس ایف ہو، ایم ایس ایف، پی ایس ایف یا اسلامی جمعیت طلبہ، گورنمنٹ کالج میں موجود رہیں طلباء ایک دوسرے پر حملے کرتے، ڈنڈے مارتے رہے، ماریں کھاتے رہے اور گولیاں چلتیں رہیں۔ لیکن 1993ء میں خالد آفتاب کے پرنسپل اور بزرگ استاد ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے پراکٹر بننے پر انہی تنظیموں کے کالج کے اندر خاتمے کو اولین ایجنڈا بنایا گیا۔ کچھ عرصہ کشیدگی بھی رہی لیکن جیت پرنسپل کی ہوئی۔ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیاں ( یہاں سیاسی سرگرمیوں سے مراد سیاسی جماعتوں کے نظریات کی عملی ترویج اور لڑنا مرنا مراد ہے، گورنمنٹ کالج کا شعبہ سیاسیات آج بھی دیگر مقامی یونیورسٹیوں کے مقابل بہترین حیثیت رکھتا ہے) پر پابندی لگا دی گئی۔ طلباء اور اساتذہ کے مابین باہمی ضابطہ کار بنائے گئے اور شکایات کی صورت میں مخصوص بندوبست رائج کیا گیا۔ اس کے خلاف جانے والے کے خلاف مساوی عمل کی پالیسی اپنائی گئی جس میں اساتذہ اور طلباء یکساں کیے گئے۔ اس کی مثال 2013ء میں جنسی ہراسانی کے سلسلے میں لیکچرر کو فارغ کرنا بھی ہے۔

اسی اخلاقیات کے پلیٹ فارم سے ہر علاقے کے طلباء کو اپنی غیر نصابی سرگرمیاں سر انجام دینے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ پنجابی مجلس نامی سوسائٹی بنی تو سندھی اوطاق، بلوچ اور پشتون کونسل کو بھی اپنی اپنی ثقافت منانے اور دکھانے کے مواقع ملے۔ کم از کم دو ہزار گیارہ سے دو ہزار پندرہ تک ایسا پورے جوش و خروش اور امن و بھائی چارے سے ہوا۔ نیو ہاسٹل میں کھیلوں کے مقابلے ہوئے اور گروپس تشکیل ہوئے جس میں ہر گروپ میں ہر قوم کی آزادانہ شرکت برقرار رکھی گئی۔

گورنمنٹ کالج میں اوول گراؤنڈ میں ثقافتی میلے سجائے گئے، رقص ہوئے اور کسی کے ایمان کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ کسی کی ثقافت پر حملہ نہ ہوا اور کسی تہذیب کو چھوٹا گردانا گیا نہ متعصبانہ برتاؤ ہوا۔

آخر پورے شہر یا ملک کے برعکس گورنمنٹ کالج کی دیواریں ہی تعصب، بنیاد ہرستی اور قوم پرستی کی ہوا کو اندر آنے سے کیونکر روک لیتی ہیں۔ آخر راوین آپس میں کیوں نہیں لڑتے؟ ایک دوسرے سے خوف محسوس کیوں نہیں کرتے؟ ایک دوسرے کے درمیان فرق کی دیوار کیوں نہیں کھڑی ہونے دیتے۔

کیا اس کی وجہ ایسی سوچیں تو نہیں جو تنظیم اور نظریات کے نام پر طلباء میں نفرت کے بیج بوتی اور تعصب کی دیواریں کھڑی کرتی ہیں۔ یہی مساوات ہی کسی کو کسی سے خطرہ محسوس نہیں ہونے دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).