اسلامی جمیعت طلبہ یا اسلام کے نام پر تشدد


کل جو کچھ پنجاب یونیورسٹی میں ہوا اور اسلامی جمیعت کے کارکنان نے جس طرح پختون کلچرل ڈے کے طلبہ پہ دھاوا بولا اور ہنگامہ آرائی کی، کیا یہ کوئی نئی بات ہے؟

اگر ہم صرف پچھلی دہائی کے چیدہ چیدہ واقعات پہ نظر ڈالیں تو نومبر 2007 کا وہ دن  یاد آتا ہے۔ جب عمران خان سے اسلامی جمیعت کے طلباء نے جامعہ پنجاب میں انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پہ کئی دن عمران خان سے بدسلوکی کے خلاف طلباء نے مظاہرے کئے تھے اور جماعت اسلامی کے دفتر کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن عمران خان نے اس وقت طلبہ کے غصے کا ساتھ نہ دیا اور مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی معذرت کو قبول کرلیا تھا۔

یکم اپریل 2010 جامعہ پنجاب کا سیاہ ترین دن تھا۔  جب شعبہ ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کے پروفیسر اور چئیرمین ڈسپلن کمیٹی افتخار بلوچ پہ قاتلانہ حملے کیا گیا تھا۔ اسلامی جمیعت کے تیس سے زائد کارکنان نے ان پہ حملہ کیا تھا اور ان کو اس وقت تک مارا گیا جب تک کہ اپنے طور پر یقین نہ آگیا کہ وہ مر چکے ہیں۔ لیکن اس قاتلانہ حملے میں افتخار بلوچ صاحب بچ گئے تھے۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے جماعت کے لیڈروں کو یونیورسٹی سے نکالنے کی جرات کی تھی۔

 ستمبر 2011 میں القائدہ کے ایک سرغنہ  کی گرفتاری جامعہ پنجاب سے عمل میں آئی تھی جن کو جمعیت کے طلبہ سہولت فراہم کیا کرتے تھے۔

2012 وہ سال تھا جب بی بی سی نے ایک رپورٹ میں لسانی اور صوبائی تعصب  کے آغاز کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس زمانے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن کے قتل کے بعد ہنگامہ شروع ہوا جس کا الزام جمعیت کے طلباء نے انتظامیہ پہ لگایا اور انتظامیہ نے  اس کو باہمی چپقلش کا شاخسانہ کہا۔ اس واقعے کو لےکر جمعیت کے ارکان نے شہر میں ہنگامہ کیا اور اساتذہ کو مارا پیٹا گیا تھا۔ حتی کہ ایس پی رینک کے افسر کو کمرے میں بند کرکے تشدد کیا گیا۔

ایک اور جھگڑا جمعیت بلوچ اور پشتون طلباء کے بیچ ہوا۔ جب ایک ٹی پارٹی کا انتظام پشتون پارٹی کی طرف سے خصوصی کوٹے پہ آنے والے نئے بلوچی طلبہ کے لئے کیا گیا تھا۔ جمعیت کے طلباء نے اس پارٹی کو روکنے کی کوشش کی اور ہاسٹل کو  بند کردیا گیا تھا۔ اور اسکے بعد ہمیشہ کی طرح الزام دوسروں پہ رکھنے کے لئے کہا گیا کہ صوبائیت کا نعرہ لگایا جارہا ہے اور لسانیت کی بنیاد پہ یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس واقعے کے بعد پشتون اور بلوچ طلبہ نے سڑک بند کر کے احتجاج کیا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے صلح کرانے کی کوشش کی۔ لیکن پشتون اور بلوچ طلبا کے نمائندےمحمد  زکریا کے مطابق جب وہ مذاکرات کرکے لیاقت بلوچ کے گھر سے واپس آئے تو ہوسٹل میں ان کے کمرے کو آگ لگی ہوئ تھی۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق یونیورسٹی کے محدود اختیارات کے باعث صوبائی حکومت کو اطلاع دے دی گئ تھی جس کا کوئ خاطر خواہ جواب موصول نہ ہوا تھا۔

اس کے کچھ عرصے بعد ہی جمعیت کے طلبا سے یونیورسٹی کے ہاسٹل گراؤنڈ سےاسلحہ اور ہینڈ گرینیڈ بھی برآمد کئے گئے تھے۔

ستمبر 2013ء ہی میں خفیہ اداروں نے  جامعہ پنجاب کے ہاسٹل کے ایک کمرے سے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا تھا۔ اور جمعیت ہی کے ایک ناظم  شہزاد کی گرفتاری بھی اس ضمن میں عمل میں آئ تھی۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے تین دن تک ایک دہشت گرد ہاسٹل میں چھپا کر رکھا تھا۔

دو دسمبر 2013 جمعیت کے کارکنان کی ایک نئ پہچان دے گیا تھا۔ سابق وی سی کے حکم پہ ہاسٹل نمبر 16 کو خالی کرانے کے لئے پولیس کی مدد طلب کی گئی تھی۔جمعیت کے اس وقت کے ناظم  نے  کچھ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر نہ صرف ہاسٹل پہ ناجائز قبضہ کر رکھا تھا بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنا رکھا تھا۔ اس ناجائز قبضہ کے خلاف کارروائی میں شراب کی بوتلیں، بھنگ، چرس کے سگریٹ اور اسلحہ برآمد کیا گیا تھا۔ اس دوران جمعیت کے کارکنان نے پولیس پہ پتھراؤ بھی کیا تھا۔

اس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی پنجاب ڈاکٹر وسیم اختر کا بیان بھی قابلِ ذکر ہے جب انہوں نے فرمایا تھا کہ وی سی صاحب کو ہاسٹل خالی کرانے سے پہلے ہمیں اعتماد میں لینا چاہئیے تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے طلباء کی فوری رہائی نہ ہونے کے صورت میں احتجاج کا اعلان بھی کیا تھا۔

پچھلے سال  بھی جمعیت کے درجنوں کارکنوں نے جو کہ طالبان یا داعش جیسی تنظیموں کی طرح کا رویہ رکھنے کے حوالے سے بدنام ہوتے جا رہے ہیں اکتوبر میں ایک طالبہ اور اسکے ساتھ کھڑے کلاس فیلو کو شعبہ ابلاغیات کے باہر نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ڈپارٹمنٹ کا دروازہ اور شیشے بھی توڑ ڈالے تھے۔ حتیٰ کہ پولیس کو طلب کرلیا گیا لیکن ان کے آنے تک جمعیت کے طلباء ڈپارٹمنٹ کے بیرونی گیٹ کو توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس تمام واقعے کے خلاف دوسرے طلبا نے احتجاج کیا اور موثر کارروائی کی درخواست کی۔

اور بات اتنی ہی نہیں بلوچی اورپختون طلبا و طالبات یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلامی جمعیت برسوں سے ان کے ساتھ زیادتی کرتی چلی آرہی ہی۔ ماضی میں اسلامی جمعیت کے ایک ناظم نے ایک معذور بلوچی طالب علم کو اس وقت تھپڑ مار دیا تھا جب وہ ایک گانا گنگناتا آرہا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہاسٹل نمبر چار میں اُس وقت مقیم ایک اسٹوڈنٹ کو ہاسٹل ناظم نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طالب علم کے کمرے میں گانے لگے ہوئے تھے۔ اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل ڈاکٹر محبوب حسین کا بیان ریکارڈ پہ ہے کہ جو جمعیت کا بیج لگا لیتا ہے وہ طالب علموں کے لئے گاڈ فادر بن جاتا ہے۔

پچھلے وائس چانسلر کے دور میں جماعت کا موقف یہی رہا تھا کہ بلوچ طلباء سے تصادم ہونے کے پیچھے ڈاکٹر کامران مجاہد کی سازش ہوتی ہے۔لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ  وہ بلوچ طلباء کو کیسے جمعیت کے ساتھ لڑنے پہ مجبور کر سکتے ہیں تو اس کا کوئی منطقی جواب کبھی نہ مل سکا۔

اس بات کو صرف اس حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ سابق وی سی نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر جمعیت کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک کم کردیا تھا۔ ماضی میں حافظ سلمان بٹ کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کو جمعیت نے رکن نہیں بنایا اور ٹکٹ نہیں دیا اس لئے وہ جمعیت سے انتقام لے رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مجاہد کامران نے واضح  طور پر اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ کبھی جمعیت یا جماعت اسلامی کا حصہ نہیں رہے۔

جامعہ پنجاب کے طلبہ میں اس امر پہ قطعی دو رائے نہیں کہ اسلامی جمعیت ہر ممکن طریقے سے اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ماضی میں پنجاب یونیورسٹی میں انہوں نے تدریسی اور نان  تدریسی عملہ بھرتی کرایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ جماعت کے ہمدرد سنڈیکیٹ میں بھی موجود ہوتے تھے۔ شریف برادران کا  جماعت اسلامی اور جمعیت کی طرف ماضی میں سوفٹ کارنر رکھنا بھی کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں۔

 اگر بات جامعہ پنجاب سے باہر نکل کر کی جائے تو مقتول صحافی سلیم شہزاد کی کتاب بھی وہ ناقابل فراموش حقیقت ہے جس میں انہوں نے جماعت کے القاعدہ اور طالبان سے روابط کا انکشاف کیا تھا۔

2003 میں القاعدہ کے رہنما خالد شیخ محمد کو جماعت اسلامی کی ایک خاتون رہنما کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ 2009 میں سری لنکن ٹیم پہ حملے اور جی ایچ  کیو پر حملے میں ملوث ماسٹر مائنڈ زبیر عرف نیک محمد اور عقیل عرف ڈاکٹر عثمان دونوں نے اپنی پناہ گاہوں کے منصورہ میں ہونے کا انکشاف کیا۔

منور حسن کے اس بیان کو کون بھول سکتا ہے جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے حامی دہشت گردوں کی موت کو شہادت قرار دیا تھا ۔

یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب  ڈاکٹر مجاہد کامران کے زمانے میں جمعیت  کے غیر قانونی عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے شکایت پہ انتظامیہ سرگرمی نہیں دکھاتی تھی۔ جمعیت کے کارکنوں کو اوّل تو پکڑا نہیں جاتا تھا یا پکڑ کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ باقاعدہ ان عناصر کی پشت پناہی کی جاتی رہی ہے۔

دو ماہ قبل جنوری 2017 میں طلباء کی طرف سے باقاعدہ الزام عائد کیا گیا کہ عبوری وائس چانسلر نے جامعہ کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے۔ اس الزام کی وجہ اسلامی جمعیت کے طلبا کی جانب سےیونیورسٹی اور ہاسٹل نمبر ایک میں کی جانے والی ہنگامہ آرائی تھی۔ جس میں جمعیت کے طلباء نے کئی اسٹوڈنٹس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

پولیس کی طرف سے ایک باقاعدہ چارج شیٹ اور رپورٹ بنا کر وی سی صاحب کو بھیجی گئ تھی جس میں اسلامی جمعیت کے سترہ طلبا کی نشاندہی اور ان کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی تھی۔ پولیس نے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا تھا کہ اگر یونیورسٹی میں امن قائم کرنا ہے تو ان سترہ طالب علموں کا داخلہ منسوخ کرکے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔ لیکن توقع کے قطعی برخلاف وی سی صاحب نے رجسٹرار کے ذریعے نوٹی فیکیشن جاری کیا جس میں ہاسٹل وارڈنز اور سپرنٹنڈنٹ کو جمعیت کے طلباء کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کی گی تھی۔ اور انہیں معافی کے ساتھ ساتھ مکمل سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی تھی۔

ابھی صرف چند روز پہلے پشاور یونیورسٹی میں ہونے والے کتب میلے میں غامدی صاحب کی کتابوں کو جماعتِ اسلامی والوں نے رکھنے کی اجازت نہ دی۔ جب بات مظرِ عام پہ آئی تو کہا گیا یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا تھا ایسا کرنے کو۔ اور جب یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا گیا تو انہوں بالکل واضح الفاظ میں اس کی تردید کی۔ لیکن جماعت والوں نے اس کے باوجود آخر تک تسلیم نہ کیا کہ غامدی صاحب کی کتابیں رکھنے پہ یونیورسٹی کو نہیں انہیں اعتراض تھا۔ بلکہ وہی روایتی بیان کہ یہ جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

اتنے سنہرے ماضی کے بعد آج کی جماعت اسلامی ایک قدم اور آگے بڑھ چکی ہے اب اس نے داعش کے فلسفے کو ماننے اور منوانے کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔ جس کےمطابق اب کلچرل یا ثقافتی شوز کو بھی غیر اسلامی قرار دے کر اس پہ دھاوا بولنا اور سبوتاژ کرنے کو جائز قرار دینا بھی شامل ہو گیا ہے۔

آج “رقص ہوگا تو تصادم ہوگا ” کا جملہ سنا ہے۔ قبل اس کے کہ  بات کی ہے تو تصادم ہو گا، فلاں صوبے کا ہے تو تصادم ہوگا اور فلاں فرقے کا ہے تو تصادم ہوگا کی آگ اس طرح پھیل جائے کہ اس کا سدّباب بھی ممکن نہ رہے۔ حکومت کو اسلامی جمیعت طلبہ کے ارادوں پر بند باندھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).